خرشہ بن حر سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا، کہا: اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے۔وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تھے، کہا: انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں، کہا: جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہا تو پیٹھ کے بل گرا۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا)۔ کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اور ستون، اسلام کا ستون ہے اور حلقہ، اسلام کا حلقہ ہے اور تو مرتے دم تک اسلام پر قائم رہے گا۔ (اور جب اسلام پر خاتمہ ہو تو جنت کا یقین ہے، اس وجہ سے لوگ مجھے جنتی کہتے ہیں)
خرشہ بن حر رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں مدینہ منورہ کی مسجد کے اندر ایک حلقے میں بیٹھا ہوا تھا،کہا:اس میں خوبصورت ہیت والے ایک حسین وجمیل بزرگ بھی موجود تھے۔وہ عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،کہا:انھوں نے ان لوگوں کو خوبصورت احادیث سنانی شروع کردیں،کہا: جب وہ کھڑے ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا معلوم ہو، وہ اس کو دیکھے۔ میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ جاؤں گا اور ان کا گھر دیکھوں گا۔ پھر میں ان کے پیچھے ہوا، وہ چلے، یہاں تک کہ قریب ہوا کہ وہ شہر سے باہر نکل جائیں، پھر وہ اپنے مکان میں گئے تو میں نے بھی اندر آنے کی اجازت چاہی۔ انہوں نے اجازت دی، پھر پوچھا کہ اے میرے بھتیجے! تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ جب آپ کھڑے ہوئے تو میں نے لوگوں کو سنا کہ جس کو ایک جنتی کا دیکھنا اچھا لگے، وہ ان کو دیکھے تو مجھے آپ کے ساتھ رہنا اچھا معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ جنت والوں کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور میں تجھ سے لوگوں کے یہ کہنے کی وجہ بیان کرتا ہوں۔ میں ایک دفعہ سو رہا تھا کہ خواب میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ کھڑا ہو۔ پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا، میں اس کے ساتھ چلا، مجھے بائیں طرف کچھ راہیں ملیں تو میں نے ان میں جانا چاہا تو وہ بولا کہ ان میں مت جا، یہ بائیں طرف والوں (یعنی کافروں) کی راہیں ہیں۔ پھر دائیں طرف کی راہیں ملیں تو وہ شخص بولا کہ ان راہوں میں جا۔ پس وہ مجھے ایک پہاڑ کے پاس لے آیا اور بولا کہ اس پر چڑھ۔ میں نے اوپر چڑھنا چاہا تو پیٹھ کے بل گرا۔ کئی بار میں نے چڑھنے کا قصد کیا لیکن ہر بار گرا۔ پھر وہ مجھے لے چلا، یہاں تک کہ ایک ستون ملا جس کی چوٹی آسمان میں تھی اور تہہ زمین میں، اس کے اوپر ایک حلقہ تھا۔ مجھ سے اس شخص نے کہا کہ اس ستون کے اوپر چڑھ جا۔ میں نے کہا کہ میں اس پر کیسے چڑھوں کہ اس کا سرا تو آسمان میں ہے۔ آخر اس شخص نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اچھال دیا اور میں نے دیکھا کہ میں اس حلقہ کو پکڑے ہوئے لٹک رہا ہوں۔ پھر اس شخص نے ستون کو مارا تو وہ گر پڑا اور میں صبح تک اسی حلقہ میں لٹکتا رہا (اس وجہ سے کہ اترنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا)۔ کہتے ہیں پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اپنا خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو راہیں تو نے بائیں طرف دیکھیں، وہ بائیں طرف والوں کی راہیں ہیں اور جو راہیں دائیں طرف دیکھیں، وہ دائیں طرف والوں کی راہیں ہیں۔ اور وہ پہاڑ شہیدوں کا مقام ہے، تو وہاں تک نہ پہنچ سکے گا اوررہا عمود تو وہ اسلام کاستون ہے،رہاکنڈا تو وہ اسلام کا کنڈا ہے اورتو اسے ہمیشہ مضبوطی سے پکڑے رکھے گا،حتیٰ کہ فوت ہوجائے۔"