صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4548 کا باب: «بَابُ: وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت
ترجمۃ الباب اور حدیث کی مناسبت پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے جسے حل کرنا انتہائی ضروری ہے:
مریم علیہاالسلام کی جس دعا کا ذکر آل عمران کی آیت مبارکہ میں ہے کہ:
«وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ» [3-آل عمران:36]
یہ دعا تو مریم علیہا السلام کی والدہ نے مریم علیہا السلام کی پیدائش کے بعد کی تھی، لہٰذا وقت ولادت مریم علیہا السلام اور ان کی اولاد کو «مسس الشيطان» سے محفوظ رکھنا کیا معنی رکھتا ہے؟ جبکہ حدیث کا متن وقت ولادت پر دلالت کرتا ہے اور آیت مبارکہ ولادت کے بعد دعا کرنے پر دلالت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس کے جواب میں علامہ ابوالفضل الالوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ:
”یعنی ممکن ہو کہ ولادت سے قبل یا ولادت کے وقت آپ کی والدہ نے دعا کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کر کے سیدہ مریم علیہا السلام کو
«مس الشيطان» سے محفوظ کر لیا۔
“ [روح المعاني: 132/2]
آلوسی صاحب کے بیان کے مطابق مریم علیہاالسلام کی والدہ نے ولادت سے قبل بھی دعا کی تھی اور ولادت کے بعد بھی لہٰذا اس تطبیق میں قرآن اور حدیث دونوں سے اعتراض رفع ہو جاتا ہے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مطابقت واضح طور پر قائم ہو جاتی ہے۔
علامہ زمحشری کا اعتراض حدیث پر اور اس کا جواب:
صاحب کشاف ابوالقاسم الزمخشری نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ایک طعن وارد کیا ہے جسے یہاں نقل کرنا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے اکثر علماء اور بسا اوقات یہ جانے بغیر کہ زمحشری کا مقام اہل علم کے نزدیک کیا ہے ان کے حوالے بغیر تحقیق کے نقل کرتے نظر آتے ہیں،
علامہ زمخشری اپنی تفسیر میں حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ما من مولود يولد الا والشيطان يمسه حين يولد فيستهل صارخا من مس الشيطان اياه الا مريم وابنها فالله اعلم لصحته فان صح فمعناه أن كل مولود يطمع الشيطان فى اغوائه الا مريم و ابنها، فانها كانا معصومين، وكذالك كل من كان......» [تفسير الكشاف: 385/1]
”زمحشری صاحب کے ان بیانات سے واضح پتا چلتا ہے کہ آپ حدیث کے حقیقی معنی نہیں اخذ کر رہے ہیں، اسی لئے آپ نے روایت کی صحت میں توقف اختیار کیا ہے، (حالانکہ جو حدیث بخاری و مسلم میں اصول میں بیان ہو گی، وہ تمام غبار سے پاک ہو گی، یہ قاعدہ ضرور یاد رکھنا چاہیے) اور کہا ہے کہ یہ روایت صحیح اس وقت مانی جائے گی جب اس کے حقیقی معنی مراد نہ ہوں، لہٰذا انہوں نے معنی اخذ کرتے ہوئے اپنی رائے یوں دی کہ «مس الشيطان» سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش مراد ہے پیدائش کے وقت شیطان جب یہ کوشش کرتا ہے تو بچہ رونے لگتا ہے، بچہ اس وقت شیطانی وسواوس سے مانوس نہیں ہوتا، حالانکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس میں گمراہی قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی نہ عقائد کے اعتبار سے اور نہ ہی قول و عمل کے اعتبار سے۔“
علامہ زمحشری نے حدیث کے حقیقی معنی کو اخذ کرنے سے پہلو تہی برتی ہے، جو حقیقتاً حدیث کے مفہوم سے روگردانی کے مترادف ہے اور مزید یہ کہ یہ عبارت بھی ان کے معتزلی ہونے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
«فانهم! ولا تكن من الغافلين.»
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زمحشری کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والذي يقتضيه لفظ الحديث لا اشكال فى معناه ولا مخالفة لما ثبت من عصمة الانبياء بل ظاهر الخبر ان ابليس ممكن من مس كل مولود عند ولادته» [فتح الباري لابن حجر: 180/8]
”یعنی حدیث جس لفظ کی طرف تقاضا کرتی ہے اس پر کسی قسم کا کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا، نہ ہی اس کے مطالب پر اور نہ ہی یہ مخالف ہے ان احادیث کے جس میں عصمت انبیاء ثابت ہے بلکہ ظاہری خبر یہ ہے کہ ابلیس ہر پیدا ہونے والے بچہ کوچھوتا ہے، جو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے ہوتے ہیں انہیں شیطان کا مس کرنا کوئی نقصان نہیں پہنچاتا، اسی طرح مریم علیہاالسلام اور ان کی اولاد بھی اس کے مس سے محفوظ رہے، پس یہ توجیہ ہے خاص ہونے کی اور یہ بھی لازم نہیں ہے کہ مریم علیہاالسلام اور ان کے بیٹے کے علاوہ مخلصین پر شیطان کا تسلط ہو سکتا ہو۔
“
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
”زمحشری کا اعتراض فضول ہے، کیونکہ روایت میں یہ تصریح موجود ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اس وقت شیطان چوکا مارتا ہے، اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ شیطان پوری عمر انسان کے چوکے مارتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو روتا ہے۔
“ [فتح الباري لابن حجر: 180/8]
امام قسطلانی رحمہ اللہ زمحشری کے اس اعتراض کے جواب پر فرماتے ہیں کہ:
”شیطان کا مس کرنا ہمیشہ نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ مس کرنا گمراہ کرنے کے لیے ہے،
(بلکہ اس سے حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے) اور اس حدیث کی صحت کے لئے یہی کافی ہے کہ اس روایت کی تصحیح بخاری و مسلم نے کی ہے بغیر کسی قدح کے۔
“ [ارشاد الساري: 4233/8]
لہٰذا علامہ زمخشری نے حدیث کی تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دراصل فلاسفروں کا کام ہوتا ہے جس سے اجتناب کرنا انتہائی ضروری ہے، کیوں کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم وہی مطالب و معانی اخذ کریں گے جونصومي شریہ کے مطابق ہوں گے۔
قائدہ یاد رکھیں! قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید اور احادیث کے ذریعے کی جائے گی، اس میں پہلے اور دوسرے نمبر کا کوئی چکر نہیں ہے، دوسرے نمبر پر قرآن کی تفسیر صحابہ کے اقوال کے ذریعے ہو گی، یہی سب سے مفید قاعدہ ہے، بعد میں الفاظوں کی سمجھ اور معنی کے لغت کی طرف التفات کیا جائے، کیونکہ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے احادیث کافی و شافی کی حیثیت رکھتی ہیں، لہٰذا علامہ زمحشری یا پھر ان کی طرح دوسرے معتزلی کی تفاسیر دراصل فلاسفروں سے متاثر ہوا کرتی ہیں۔
امام قسطلانی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں،
”مذکورہ حدیث صحاح میں مدون کی گئی ہے، لہٰذا
(اس کے بعد) کسی فلاسفر کی طرف میلان اختیار کرنا درست نہیں اور ابن رومی کے قول سے اجتناب بھی واجب ہے۔
“ [ارشاد الساري: 4233/8]
محترم قارئین! ہر وہ تفسیر کی کتاب جس میں اہل سنت کے موقف کے خلاف لکھا گیا ہو اس سے بچنا ضروری ہے، معتزلہ ایک گمراہ کن فرقہ گزرا ہے، اس نے عقیدہ توحید، آیات قرآنی اور احادیث صحیحہ میں کئی ایک تاویلات پیش کی ہیں، معتزلی عقائد کی تفصیل جاننے کے لیے ان حضرات کی تفاسیر معروف ہیں۔
➊ تفسیر عبدالرحمن بن کیسان الاصم شیخ ابراھیم بن اسماعیل بن علیّۃ، متوفی سنۃ 218 ھ۔ ھو: ابراھیم بن اسماعیل بن ابراھیم بن مقسم ابواسحاق البصری معروف علیہ احد المتکلمین
[انظر تاريخ بغداد للخطيب: 22/6]
اسی طرح ایک اور صاحب ہیں:
➋ ابوعلی الجبائی ھو: محمد بن عبد الوہاب، ابوعلی الجبائی شیخ المعتزلہ
(توفی: 303 ھ) [انظر البدايه والنهايه لابن كثير: 125/11]
➌
”التفسیر الکبیر
“ للقاضی عبد الجبار الھمزانی: ھو: عبد الجبار بن احمد الھمزانی القاضی ابوالحسن۔
(المعتزلی، متوفی: 410ھ) [انظر: العبر فى من غبر: 121/3]
➍ علی بن عیسىٰ الرمانی: ھو علی بن عیسى الدمانی النحوی المعتزلی ابوالحسن
(متوفی 384 ھ) [انظر: سير اعلام النبلاء: 534/16]
➎
”الکشاف
“ ابوالقاسم الزمحشری: ھو: محمود بن عمر الزمحشری المفسر النحوی
(متوفی: 538ھ۔)
علامہ زمحشری کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دوٹوک الفاظ میں لکھا ہے کہ:
«صالح، لكنه داعية الي الا عتزال أجارنا الله، فكن حزرا من كشافة» [لسان الميزان: 651/6]
”صالح تھا، لیکن اعتزال کی طرف داعی تھا، اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے اور
(اے قاری) آپ بچو ان کی تفسیر کشاف
(کے پڑھنے) سے۔
“
لہٰذا یہ چند حضرات ہیں، جنہوں نے اعتزال کو فروغ دیا ہے اور ان کا کام اکثر و بیشتر تفسیری حوالوں سے نقل کیا جاتا ہے چنانچہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ان گمراہ کرنے والے لوگوں کی تفاسیر سے اجتناب کیا جائے اور صحیح العقیدہ مفسرین خصوصاً سلف میں جو صحیح العقیدہ مفسر گزرے ہیں، ان کی تفاسیر سے استفادہ کیا جائے۔