سعید نے قتادہ سے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ لو گوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے (بہت زیادہ اور بے فائدہ) سوالات کیےحتی کہ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سوالات سے تنگ کردیا، تو ایک دن آپ باہر تشر یف لائے، منبر پر رونق افروز ہو ئے اور فرمایا: "اب مجھ سے (جتنے چاہو) سوال کرو، تم مجھ سے جس چیز کے بارے میں بھی پوچھو گے، میں تم کو اس کا جواب دوں گا۔"جب لوگوں نے یہ سنا تو اپنے منہ بند کر لیےاور سوال کرنے سے ڈر گئےکہ کہیں یہ کسی بڑے معاملے (وعید، سزا سخت حکم وغیرہ) کا آغاز نہ ہو رہا ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے دائیں بائیں دیکھا تو ہر شخص کپڑے میں منہ لپیٹ کررورہا تھا تو مسجد میں سے وہ شخص اٹھا کہ جب (لوگوں کا) اس سے جھگڑا ہو تا تھا تو اسے اس کے باپ کے بجا ئے کسی اور کی طرف منسوب کردیا جا تا تھا (ابن فلا ں!کہہ کر پکا را جا تا تھا) اس نے کہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ کون ہے۔؟آپ نے فرما یا: "تمھا را باپ حذافہ ہے۔ پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا: ہم اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !مان کر راضی ہیں اور ہم برے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے والے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر اور شر میں جو کچھ میں نے آج دیکھا ہے کبھی نہیں دیکھا۔میرے لیے جنت اور جہنم کی صورت گری کی گئی تو میں نے اس (سامنے کی) دیوارسےآگے ان دونوں کو دیکھ لیا۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیے، حتی کہ آپ سےسوالات پر اصرار کیا، (آپصلی اللہ علیہ وسلم تنگ پڑ گئے) تو آپ ایک دن تشریف لائے اور منبر پر چڑھ گئے اور فرمایا: ”مجھ سے سوال کرلو، تم مجھ سے جو بھی سوال کرو گے، جس چیز کے بارے میں پوچھوگے، میں اس کی حقیقت کھول دوں گا۔ “جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ چپ ہو گئے او رڈر گئے کہ کہیں یہ کسی عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں دائیں بائیں دیکھنے لگا تو ہر آدمی اپنے کپڑے میں سر لپیٹ کر رو رہا تھا تو ایک آدمی نے مسجد سے آغاز کیا، جس سے لوگ جھگڑتے تو اس کی نسبت باپ کے سوا کسی اور کی طرف کرتے تو اس نے کہا، اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ آپ نے فرمایا: ”حذافہ“ پھر حضرت عمربن خطاب کہنے لگے، ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دستور زندگی ہونے، اور محمد کے رسول ہونے پر خوش ہیں اور اللہ سے برے فتنوں سے پناہ چاہتے ہیں، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے خیر و شر کا آج کی طرح نظارہ کبھی نہیں کیا، میرے لیے جنت اور دوزخ کی تصویر کشی کی گئی ہے او رمیں نے انہیں اس دیوار کے ورے دیکھا ہے۔“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6123
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) أحفوه بالمسئلة: سوالات میں اصرار کیا۔ (2) أرموا: ہونٹ ملا لیے یعنی چپ ہو گئے۔ (3) أنشأ رجل: ایک آدمی نے ابتدا کی۔ (4) يلاحي: اس سے جھگڑا کیا جاتا تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6123
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6468
´نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا (نہ کمی ہو نہ زیادتی)` «. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى لَنَا يَوْمًا الصَّلَاةَ، ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ قِبَلَ قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ:" قَدْ أُرِيتُ الْآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَكُمُ الصَّلَاةَ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قُبُلِ هَذَا الْجِدَارِ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ . . .» ”. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس وقت جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی میں نے (ساری عمر میں) آج کی طرح نہ کوئی بہشت کی سی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ کی سی ڈراؤنی، میں نے آج کی طرح نہ کوئی بہشت جیسی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ جیسی ڈراونی چیز۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6468]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6468 کا باب: «بَابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نیک اعمال پر مداومت اختیار کرنے پر قائم فرمایا، تحت الباب آٹھ احادیث کا ذکر فرمایا، آخری حدیث جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور جہنم دکھائی گئی ہے، لہذا بظاہر حدیث کے متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جس سے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت قائم ہوتی ہو۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «و فى الحديث إشارة إلى الحث على مداومة العمل، لأن من مثل الجنة و النار بين عينيه كان ذالك باعثًا له على المواظبة على الطاعة و الانكفاف عن المعصية، ولهذا التقريب تظهر مناسبة الحديث للترجمة.»(1) ”یعنی حدیث میں مداومت عمل کی حث و تحریض ہے، کیوں کہ جن کی آنکھوں کے سامنے جنت اور دوزخ ممثل کر دی جائے، یہ دوام اطاعت اور نافرمانی سے رک جانے پر اس کے لیے باعث متحرک ہو گا، اس تقریب سے حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔“ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو تطبیق دی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت میں دوامت جنت کی راہ ہے اور معاصیت پر چلنا جہنم کا راستہ ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے اپنی آنکھوں سے جنت اور جہنم دیکھا ان کی نافرمانی جہنم میں داخلے کا موجب ہو گی، لہذا جنت کے اعمال کرے اور اس میں ہمیشگی (دوامت) اختیار کرے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ حقیقت میں ہر وہ عمل جو دوام سے کیا گیا ہو اور وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو تو وہ جنت کا سبب بنتا ہے، اور اگر شدید کثرت کے ساتھ کوئی عمل کیا جائے تو ڈر ہے کہ کہیں اس میں انقطاع نہ آ جائے، جس کے سبب انسان نیکی کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کر بیٹھے، چنانچہ علامہ مہلب رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «إنما حضّ الشارع أمته على القصد والمداومة على العمل و ان قل، خشية انقطاع عن العمل الكثير، فكأنه رجوع عن فعل الطاعات، وقد ذم الله ذلك، و مدح من اوفي بالنذر.»(1) ”شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دوامت اور کثرت عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، چاہے وہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، اس سب پر کہ کہیں شدید عمل انقطاع کا باعث نہ بن جائے، گویا کہ وہ لوٹ جائے اطاعت کے فعل سے، یقینا اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو مذموم قرار دیا ہے اور اس کی مدح کی جو اسے پورا کرے۔“ لہذا ان اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک اعمال میں ہمیشگی جنت کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس میں انقطاع اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، اب جو شخص بھی جنت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے نیک اعمال میں ہمیشگی اختیار کرنی چاہے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4621
4621. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے خطبہ دیا۔ میں نے اس جیسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”جو حقائق میں جانتا ہوں اگر وہ تمہیں معلوم ہو جائیں تو تم ہنسو کم اور روو زیادہ۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔ اس موقع پر ایک آدمی نے پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا والد فلاں شخص ہے۔“ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”تم ایسی باتیں مت پوچھو، اگر تم پر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔“ اس حدیث کو نضر اور روح بن عبادہ نے حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4621]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ کا یہ وعظ موت اور آخرت سے متعلق تھا۔ صحابہ کرام ؓ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ بے تحاشا رونے لگے کیونکہ ان کو کامل یقین حاصل تھا۔ بے جا سوال کر نے والوں کو اس آیت میں روکا گیا کہ اگر جواب میں اس کی حقیقت کھلی جس کو وہ ناگوار ی محسوس کریں تو پھر اچھا نہیں ہوگا لہذا بے جا سوالات کرنے ہی مناسب نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے ایسے بے جا مفروضات گھڑ گھڑ کر اپنی فقاہت کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں، جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ تفصیلات کے لیے کتاب حقیقۃ الفقہ کا مطالعہ کیا جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4621
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 749
749. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ ہمیں نبی ﷺ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”میں نے ابھی جبکہ تمہیں نماز پڑھا رہا تھا جنت اور دوزخ کو دیکھا۔ ان دونوں کی اس دیوار کے قبلے میں تصویریں بنا دیں گئی تھیں۔ میں نے آج کے دن جیسا کوئی دن نہیں دیکھا جس میں خیر اور شر دونوں جمع ہوں۔“ آپ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:749]
حدیث حاشیہ: خیر بہشت اور شر دوزخ مطلب یہ کہ بہشت سے بہتر کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی اور دوزخ سے بری کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اس حدیث میں امام کا آگے دیکھنا مذکور ہے اور جب امام کو آگے دیکھنا جائز ہوا تو مقتدی کو بھی اپنے آگے یعنی امام کو دیکھنا جائز ہوگا۔ حدیث اورباب میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 749
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:749
749. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ ہمیں نبی ﷺ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لائے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”میں نے ابھی جبکہ تمہیں نماز پڑھا رہا تھا جنت اور دوزخ کو دیکھا۔ ان دونوں کی اس دیوار کے قبلے میں تصویریں بنا دیں گئی تھیں۔ میں نے آج کے دن جیسا کوئی دن نہیں دیکھا جس میں خیر اور شر دونوں جمع ہوں۔“ آپ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:749]
حدیث حاشیہ: (1) دوران نماز میں مقتدی کی نظر کہاں ہو؟ اس میں اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ سجدہ کی جگہ پر مقتدی کی نظر ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا انتہائی خشوع کی علامت ہے، البتہ امام مالک کا موقف ہے کہ مقتدی کی نظر امام کی طرف ہونی چاہیے تاکہ اسے اس کے انتقالات کا علم ہوتا رہے۔ امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ واقعی مقتدی کو اپنی نظر سجدہ گاہ پر مرکوز رکھنی چاہیے، البتہ کسی ضرورت ک پیش نظر وہ امام کی طرف نظر اٹھا سکتا ہے۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔ مذکورہ روایت میں اس بات کا واضح ثبوت ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں: بہتر یہی ہے کہ نمازی بحالت نماز سجدہ گاہ پر نظر رکھے لیکن اگر وہ امام کو دیکھے اور سجدے پر نظر نہ رکھے تو اس کی گنجائش ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بحالت نماز اپنے سامنے کی طرف دیکھا اور سجدہ گاہ کی طرف نہ دیکھا۔ اس پر مقتدی کو قیاس کیا جائے گا۔ (2) امام بخاری ؒ کی مراد سجدہ گاہ کو دیکھنے کے لزوم کی نفی کرنا ہے۔ (3) یہ حکم قیام کی صورت میں ہے کہ نظر سجدہ گاہ پر ہو، تاہم تشہد کی حالت میں نظر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی پر ہونی چاہیے، اس طرح کے اسے اٹھائے رکھے اور دعا کرے۔ (سنن النسائي، التطبیق، حدیث: 1161)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 749
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4621
4621. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے خطبہ دیا۔ میں نے اس جیسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”جو حقائق میں جانتا ہوں اگر وہ تمہیں معلوم ہو جائیں تو تم ہنسو کم اور روو زیادہ۔“ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔ اس موقع پر ایک آدمی نے پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا والد فلاں شخص ہے۔“ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”تم ایسی باتیں مت پوچھو، اگر تم پر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔“ اس حدیث کو نضر اور روح بن عبادہ نے حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4621]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک حدیث میں اس خطبے کا پس منظر بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی ناگوار بات پہنچی تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: "ابھی ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئی تھیں۔ آج سے بڑھ کر میں نے کبھی خیر اور شر کونہیں دیکھا جن حقائق کو میں جانتا ہوں اگر وہ تمھیں معلوم ہو جائیں تو تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رؤوکرو۔ " (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6119۔ (2359) 2۔ بہرحال مذکورہ آیت کریمہ کثرت سے سوالات کرنے کے متعلق نازل ہوئی۔ وہ سوالات استہزاء، امتحان، شرارت اور عناد پر مبنی ہوتے تھے بصورت دیگر امور دین کے متعلق سوالات کرنے کی پابندی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایسے سوالات کرنا ضروری ہوتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر تمھیں علم نہیں ہے تو اہل ذکر سے پوچھا لیا کرو۔ " (النحل: 16۔ 43)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4621
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6468
6468. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلے کی طرف اشارہ فرمایا جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو اس وقت مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی۔ میں نے آج تک بہشت کی سى خوبصورت چیز اور جہنم کی سی ڈروانی شکل نہیں دیکھی۔ میں نے آج کے دن کی طرح خیر اور شر جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6468]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں نمازی کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت جنت اور دوزخ کا اپنے سامنے استحضار کرے تاکہ نماز میں شیطان کے وسوسے سے پیدا ہونے والی سوچ بچار سے محفوظ رہے۔ جو شخص انہیں اپنے ذہن میں رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مصروف اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہے گا۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں عمل پر ہمیشگی کرنے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ جو شخص جنت اور دوزخ کو اپنے سامنے ظاہر کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے رک جائے گا۔ اس طرح حدیث کی عنوان سے مطابقت بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اعتدال کے ساتھ نیک عمل پر ہمیشگی کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 363/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6468
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6486
6486. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہیں معلوم ہو جائے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور روتے زیادہ۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6486]
حدیث حاشیہ: (1) حقائق سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت، حرمت کی پامالی پر اس کا انتقام، جان کنی کی سختی، قبر کی وحشت اور قیامت کی ہولناکیاں ہیں۔ اس مقام پر کم ہنسنا اور زیادہ رونا محتاج بیان نہیں ہے۔ (2) اس حدیث کا پس منظر ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے مسجد کی طرف تشریف لائے تو آپ نے چند صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا جو آپس میں گفتگو کر رہے تھے اور ہنس کر ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کر رہے تھے، اس وقت آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔ (فتح الباري: 388/11) قرآن میں ہے: ”انہیں چاہیے کہ وہ ہنسیں کم اور زیادہ روئیں، اللہ کے ہاں اپنے کیے ہوئے اعمال کا ضرور بدلہ ملے گا۔ “(التوبة: 82/9)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6486