نضر بن شمیل نے کہا: ہمیں شعبہ نے خبر دی، انھوں نے کہا: ہمیں موسیٰ بن انس نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھیوں کے بارے میں کوئی بات پہنچی تو آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا, اور کہا: " جنت اور دوزخ کو میرے سامنے پیش کیا گیا۔میں نے خیر اور شر کے بارے میں آج کے دن جیسی (تفصیلا ت) کبھی نہیں دیکھیں۔جو میں جا نتا ہوں، اگر تم (بھی) جان لو تو ہنسو کم اور روؤزیادہ۔" (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر اس سے زیادہ سخت دن کبھی نہیں آیا۔کہا: انھوں نے اپنے سر ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آوازیں آنے لگیں۔کہا: تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو ئے اور کہا: ہم اللہ کے رب ہو نے، اسلام کے دین ہو نے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہو نے پر راضی ہیں۔کہا: ایک آدمی کھڑا ہو گیا اور پو چھا: میرا باپ کون تھا؟آپ نے فرمایا: " تمھارا باپ فلا ں تھا"اس پر آیت اتری: "اے ایمان لا نے والو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تمھارے سامنے ظاہر کر دی جا ئیں تو تمھیں دکھ پہنچائیں۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنے ساتھیوں کی کوئی بات پہنچی تو آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا: ”مجھ پر جنت اور جہنم پیش کی گئیں، سو میں نے آج جیسا اچھا اور برا منظر نہیں دیکھا اور اگر تم وہ جان لو، جو میں جانتا ہوں تو ہنسو کم (بالکل نہ ہنسو) اور زیادہ روؤ، (روتے رہو۔)“ حضرت انس کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں پر اس سے زیادہ سنگین دن نہیں آیا، انہوں نے اپنے سر ڈھانپ لیے اور ہچکیاں لے کر رونے لگے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا، ہم اللہ کے رب ہونے پر راضی ہیں اور اسلام کے دستور زندگی اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے پر مطمئن ہیں، وہی آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا، میرا باپ کون ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا باپ فلاں ہے۔“ اس پر یہ آیت اتری، ”اے ایمان دارو! ایسی چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو، اگر وہ تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں رنج پہنچے۔“