ابو بکر بن ابی شیبہ زہیر بن حرب اور ابن ابی عمرنے۔الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔کہا: ہمیں سفیان نے عبد ربہ بن سعیدسے حدیث بیان کی، انھوں نے عمرہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ جب کسی انسان کو اپنے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تی یا اسے کوئی پھوڑا نکلتا یا زخم لگتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت مبارک سے اس طرح (کرتے) فرماتے: (یہ بیان کرتے ہو ئے) سفیان نے اپنی شہادت کی انگلی زمین پر لگائی، پھر اسے اٹھا یا: "اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی سے ہم میں سے ایک کے لعاب دہن کے ساتھ ہمارے رب کے اذن سے ہمارا بیمار شفایاب ہو۔"ابن ابی شیبہ نے "ہمارا بیمار شفایاب ہو"کے الفا ظ اور زہیر نے "تا کہ "ہمارا بیمار شفایاب ہو"کے الفاظ کہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی انسان بیمار ہوتا یا اسے پھوڑا پھنسی یا زخم لگتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی اس طرح کرتے، سفیان نے اپنی انگشت شہادت زمین پر رکھ کر اٹھائی، فرماتے: ”ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ، تاکہ اس کے ذریعے ہمارا مریض، ہمارے رب کی اجازت سے شفا بخشا جائے“ ابن ابی شیبہ نے کہا ”يشفى“
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5719
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علاقہ کے ساتھ انسان کے مزاج کو مربوط کیا ہے اور انسانی تھوک میں بھی تاثیر رکھی ہے، جو اللہ کے نام کی برکت کے ساتھ، اللہ کو منظور ہو تو پھوڑے، پھنسی اور زخم سے شفا کا باعث بنتی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5719
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3895
´جھاڑ پھونک کیسے ہو؟` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کوئی اپنی بیماری کی شکایت کرتا تو آپ اپنا لعاب مبارک لیتے پھر اسے مٹی میں لگا کر فرماتے: «تربة أرضنا بريقة بعضنا يشفى سقيمنا بإذن ربنا»”یہ ہماری زمین کی خاک ہے ہم میں سے بعض کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا بیمار ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے۔“[سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3895]
فوائد ومسائل: 1) صحیح بخاری میں اس دُعا کی ابتدا میں (بسم اللہ) کا لفظ آیا ہے، جبکہ (بریقة) کے بجائے (وَرِیُقة) کا لفظ آ یا ہے۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5746) 2) علامہ نووی ؒفرماتے ہیں کہ دم کرنے والا اپنی اُنگلی اپنے لعاب سے تر کر کےاس پر مٹی لگا لےاور پھر تکلیف والی جگہ پر یا مریض پر پھیرے اور یہ کلمات کہتا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3895
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3521
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (دوسروں پر) دم کی دعائیں اور آپ پر کئے جانے والے دم کا بیان۔` ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی میں تھوک لگا کر بیمار کے لیے یوں کہتے: «بسم الله بتربة أرضنا بريقة بعضنا ليشفى سقيمنا بإذن ربنا»”اللہ کے نام سے، ہماری زمین کی مٹی سے، ہم میں سے بعض کے لعاب سے ملی ہوئی ہے تاکہ ہمارا مریض ہمارے رب کے حکم سے شفاء پا جائے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3521]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) مدینے کی مٹی اور رسول اللہ ﷺ کا لعاب دہن دونوں کو خاص شرف حاصل ہے تاہم سنت پر عمل کرنے کی نیت سے جو شخص بھی اس طرح کرے گا۔ ان شاء اللہ مریض کو شفا ہوگی۔
(2) حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں۔ تھوک اور مٹی تو ظاہری اسباب ہیں۔ جنھیں اختیار کرنے کا حکم ہے۔ ان میں تاثیر شفا کا پیدا ہوجانا باذن اللہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دم مسنو ن ہے۔ اس میں اصل تاثیر باذن ربنا کے لفظ کی ہے۔ مومن کے منہ کا لعاب اور مٹی خواہ کسی سر زمین کی ہو اس شفا بخشی کا ایک حصہ ہیں۔ اور تجربے سے اس دم کا بے حد مؤثر ہونا ثابت ہے۔ (ریاض الصالحین حدیث: 901)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3521
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:254
فائدہ: اس حدیث سے دم کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، پھوڑے اور زخم پر دم کرتے وقت تشہد والی فائده انگلی کو زمین پر رکھنا چاہیے، اور یہ دعا پڑھ کر انگلی زخم پرلگا لینی چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 254
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5746
5746. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دم کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: ”اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی لے لعاب دہن کے ساتھ مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کی شفا یابی کا ذریعہ بنے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5746]
حدیث حاشیہ: نووی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تھوک کلمے کی انگلی پر لگا کر اس کو زمین پر رکھتے اوریہ دعا پڑھتے پھر وہ مٹی زخم یا درد کے مقام پر لگواتے اللہ کے حکم سے شفا ہوجاتی تھی۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وان ھذ ا من باب التبرک باسماءاللہ تعالیٰ واثار رسولہ واما وضع الاصبع بالارض فلعلہ خاصیتہ فی ذالک او بحکمۃ اخفاءآثار القدرۃ بمباشرۃ الاسباب المعتاد (فتح) یعنی یہ اللہ پاک کے مبارک ناموں کے ساتھ برکت حاصل کرنا اوراس کے رسول کے آثار کے ساتھ اس پر انگلی رکھنا پس یہ شاید اس کی خاصیت کی وجہ سے ہو یا آثار قدرت کی کوئی پوشیدہ حکمت اس میں جو اسباب ظاہری کے ساتھ میل رکھتی ہو آثار رسول سے وہ انگلی مراد ہے جو آپ زمین پررکھ کر مٹی لگا کر دعا پڑھتے تھے۔ بناوٹی آثار مرادنہیں ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5746
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5746
5746. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دم کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: ”اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی لے لعاب دہن کے ساتھ مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کی شفا یابی کا ذریعہ بنے گی۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5746]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی شفایابی کے لیے اپنی انگلی پر لعاب دہن لگا کر مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3521) مدینہ طیبہ کی مٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن دونوں کو خاص شرف حاصل ہے، تاہم سنت پر عمل کرتے ہوئے جو شخص بھی اس طرح کرے گا ان شاءاللہ مریض کو شفا ہو گی۔ (2) تھوک اور مٹی تو ظاہری اسباب ہیں جنہیں اختیار کرنے کا حکم ہے، ان میں شفا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے۔ مومن کا لعاب دہن اور مٹی خواہ کسی سرزمین کی ہو، شفا بخشی کا ایک حصہ ہیں۔ اس میں اصل تاثیر تو "بإذن ربنا" کے لفظ کی ہے۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ طب کی تحقیق کے مطابق تھوک کو مزاج کی تبدیلی میں بہت دخل ہے اور وطن کی مٹی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر کے لیے عجیب اثر رکھتی ہے۔ اہل طب کہتے ہیں کہ مسافر آدمی اپنی سرزمین کی مٹی ساتھ رکھتے، جب اسے کسی ناموافق پانی سے واسطہ پڑے تو تھوڑی سی مٹی مشکیزے میں ڈال دے تاکہ وہاں کے منفی اثرات سے محفوط رہے۔ دراصل جھاڑ پھونک میں عجیب اثرات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت تک پہنچنے سے عقل قاصر ہے۔ (فتح الباری: 10/257)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5746