سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اہل نار کی دو قسمیں ایسی ہیں، جو میں نے دیکھی نہیں ہیں، ایک قسم وہ لوگ ہیں جن کے پاس بیلوں کی دموں جیسے کوڑے ہیں، ان سے لوگوں کو پیٹتے ہیں اور دوسری قسم وہ عورتیں ہیں، جو لباس پہنتی ہیں، مگر ننگی ہیں، سیدھی راہ سے بہکنے والی اور دوسروں کو بہکانے والی، ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ایک طرف جھکے ہوں گے، وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی، نہ اس کی خوشبو پائیں گی، حالانکہ اس کی خوشبو، مہک اتنی اتنی مسافت سے محسوس ہوتی ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5582
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) مَائِلَاتٌ: راہ راست اور حق سے ہٹی ہوئی ممیلات اور دوسروں کو اپنی اس حرکت سے آگاہ کرنے والی۔ (2) مَائِلَاتٌ: نازونخرے سے چلنے والی، مُمِيلَاتٌ: اپنے کولہوں کو جھکانے والی۔ (3) مَائِلَاتٌ: بازاری عورتوں کی طرح اپنے بالوں کو ایک طرف کرنے والی۔ (4) محيلات: دوسری عورتوں کو بھی اس قسم کی کنگھی پر اکسانے والی۔ (5) مائلات: زنا کے محرکات اور دواعی اور زنا کی مرتکب، مُمِيلَاتٌ: دوسروں کے دلوں کو بے حیائی اور عریانی کی دعوت دینے والی۔ (6) كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ: حسن وجمال کے اظہار کے لیے اپنے لباس، بدن کے بعض اجزاء کو عریاں رکھنے والی، جس طرح آج کل عورتیں، اپنا، سر، بازو اور پیٹ کا کچھ حصہ ننگا کرلیتی ہیں، یا یورپین عورتیں، انڈروئیر اور بنیان پہن کر بازاروں میں دعوت نظارہ دیتی ہیں اور بے حیائی اور زنا کے مواقع تلاش کرتی ہیں، یا وہ عورتیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے مالامال فرمایا ہے، لیکن وہ اللہ کے شکر سے عاری ہیں، یا اس قدر باریک لباس پہنتی ہیں، جو ان کے بدن کو نمایاں کرتا ہے، ظاہر ہے، نعمتوں سے مالامال اور شکر سے عاری عورتیں تو آپ کے عہد مبارک میں بھی موجود تھیں، اس لیے دوسرے دونوں مفہوم مراد ہیں اور آپ کی یہ پیشین گوئی حرف بحرف سچی ہوچکی ہے۔ (7) رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ: ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے، آج کل عورتیں، اپنے کھلے بالوں کو گدی پر باندھ لیتی ہیں، یا سر کے درمیان اکٹھا کرلیتی ہیں، جو اونٹ کی کوہان کی طرح نظر آتا ہے اور آپ کی یہ پیشین گوئی بھی پوری ہو چکی ہے اور لوگوں کو بیلوں کی دموں جیسے کوڑوں سے مارنے والے وہ لوگ ہیں، جو ملزم سے اقرار کروانے کے لیے لوگوں کو مارتے پیٹتے ہیں، یا وہ جلاد اور پولیس والے ہیں، جو لوگوں کو ظلم وستم کا نشانہ بناتے ہیں، یا حکمران کی حفاظت کے نام پر لوگوں پر کوڑے برساتے ہیں، اس طرح حدیث میں بیان کردہ دونوں قسمیں ظاہر ہوچکی ہیں