ابو بکر بن ابی شیبہ، اسحاق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر نے کہا: ہمیں سفیان بن عینیہ نے زہری سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو ادریس سے، انھوں نے ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلیوں (نوک دار دانت) والے ہر درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے، اسحاق اور ابن ابی عمر نے ا پنی روایت میں یہ اضافہ کیا۔زہری نے کہا: شام میں آنے تک ہم نے یہ حدیث نہیں سنی تھی۔
حضرت ابو ثعلبہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا، اسحاق اور ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں زہری کا قول نقل کیا ہے، کہ ہم نے یہ حدیث شام میں آ کر سنی۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4988
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کچلی والا درندہ، جو انسان پر حملہ آور ہوتا ہے، حرام ہے، جمہور ائمہ کا یہی موقف ہے اور امام مالک کے نزدیک اگر وہ چیرتا پھاڑتا ہے، تو حرام ہے، جیسے شیر، چیتا، بھگیاڑ، اگر چیرتا پھاڑتا نہیں ہے، تو وہ مکروہ ہے، جیسے لومڑ، کیونکہ ان درندوں کے کھانے سے یہ خطرہ ہے کہ انسان کے اندر حیوان کے اوصاف پیدا نہ ہو جائیں، اس لیے ان کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا، ذوناب سے مراد، وہ جانور ہے، جو اپنی کچلیوں سے شکار کرتا ہے، اگر وہ انسان یا کسی دوسرے جانور کا شکار نہیں کرتا اور ان پر کھانے کے لیے حملہ آور نہیں ہوتا تو وہ اس میں داخل نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4988
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 402
´ کتا، بلی، شیر، چیتا، بھیڑیا، لگڑبھگا، بچھو، لومڑی، بندر اور تمام درندے حرام ہیں` «. . . عن ابى ثعلبة الخشني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن اكل كل ذي ناب من السباع . . .» ”. . . سیدنا ابوثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے تمام درندوں کے کھانے سے منع فرمایا ہے . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 402]
تخریج الحدیث: [و اخرجه البخاري 5530، و مسلم 1932/14، من حديث مالك به]
تفقہ ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتا، بلی، شیر، چیتا، بھیڑیا، لگڑبھگا، بچھو، لومڑی، بندر اور تمام درندے حرام ہیں۔ یہاں پر ممانعت ممانعت تحریم ہے جیسا کہ روایت یحییٰ بن یحییٰ اور حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [ح113] ➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بارے میں امام مالک فرماتے ہیں «وهو الامر عندنا» اور ہمارے ہاں اسی پر عمل ہے۔ [المؤطآ 496/2] نيز ديكهئے: آنے والي حديث [113] ➌ اس حدیث کی رو سے ضبع (لگڑبھگے، بجو) کی حلت والی روایت منسوخ ہے۔ ➍ ایک روایت میں آیا ہے کہ «نَهَى رَسُوْلُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ جُلُوْدِ السِّبَاعِ أَنْ تُفْرَشَ»”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالیں بچھانے سے منع فرمایا ہے۔“[السنن الكبريٰ للبيهقي 1/21 وسنده حسن] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھالیں پہننے اور ان پر سواری کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داؤد: 4131 مطولاً وسنده حسن] اس سے معلوم ہوا کہ بعض الناس کا یہ قول کہ ”کتے کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اور اس کی جائے نماز اور ڈول بنانا درست ہے۔“ غلط ہے اور یہ قول اس حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ ➎ ہاتھی بھی ذوناب ہونے کی وجہ سے حرام ہے جیسا کہ حدیث [52] کے تحت گزر چکا ہے۔ ➏ حدیث قرآن کی تشریح، بیان اور تفسیر ہے۔ ➐ خاص دلیل کے مقابلے میں عام دلیل پیش کرنا غلط ہے۔ ➑ عام کی تخصیص دلیل کے ساتھ جائز ہے۔ ➒ حدیث حجت ہے۔ ➓ حدیث کا انکار کرنے والا منکر حدیث ہے، چاہے وہ اپنے آپ کو اہل قرآن اور پکا مسلم وغیرہ کیوں نہ کہتا رہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 76
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4347
´پالتو گدھوں کا گوشت کھانے کی حرمت کا بیان۔` ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دانت (سے پھاڑ نے) والے تمام درندوں اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4347]
اردو حاشہ: گھریلو گدھوں سے مراد وہ گدھے ہیں جنھیں لوگ گھروں میں رکھتے ہیں۔ گھریلو کی صراحت اس لیے کہ جنگلی گدھا حرام نہیں جیسا کہ آئندہ باب میں آرہا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4347
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3232
´کچلیوں والے درندوں کو کھانا حرام ہے۔` ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی (نوک دار دانت) والے درندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ زہری کہتے ہیں کہ شام جانے سے پہلے میں نے یہ حدیث نہیں سنی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3232]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کچلی نو کیلے تیز دانت کو کہتے ہیں۔ انسانوں میں یہ دانت سامنے کے چار دانتوں کے بعد اور ڈاڑھوں سے پہلے ایک دائیں طرف اور ایک بائیں طرف ہوتا ہے اوپر بھی اور نیچے بھی۔ چرندوں میں یہ دانت نہیں ہوتے۔
(2) درندوں میں یہ دانت دوسرے دانتوں کی نسبت واضح طور پر بڑے لمبے ہوتے ہیں جیسے کتے اور بلی وغیرہ میں۔
(3) ان دانتوں (کچلیوں) کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ یہ جانور درندوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے خواہ وہ عملی طور پر شکار نہ کرتا ہو یا بہت کم کرتا ہو۔
(4) ممکن ہے کہ کوئی حدیث صحیح ہونے کے باوجود ایک امام کو معلوم نہ ہو اس صورت میں اس کےلیے اجتہاد کرنا درست ہے۔ بعد میں اگر معلوم ہو جائے کہ یہ اجتہاد درست نہ تھا تو امام کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا تاہم بعد والوں کے لیے اس اجتہاد پر عمل کرنا جائز نہیں ہو گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3232
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1477
´ہر کیچلی دانت والے درندے اور پنجہ والے پرندے کی حرمت کا بیان۔` ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی دانت والے درندے سے منع فرمایا ۱؎۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 1477]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دانت (یعنی کچلیوں) سے شکار اور چیر پھاڑ کرنے والے جانور مثلاً شیر، چیتا، بھیڑیا، ہاتھی، اور بندر وغیرہ یہ سب حرام ہیں، اسی طرح ان کے کیے ہوئے شکار اگر مرگئے ہوں تو ان کا کھانا جائز نہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1477
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:899
899- سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نوکیلے دانتوں والے درندے کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔ زہری کہتے ہیں: میں نے یہ حدیث نہیں سنی تھی یہاں تک کہ جب میں شام آیا (تو وہاں میں نے یہ حدیث سنی)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:899]
فائدہ: ”ناب“ کا معنی ہے ”کچلی“ سامنے کے چار دانتوں کے برابر والا دانت، یہ دونوں جانب ہوتے ہیں، جمع انیاب و مینوب۔ (الـقـامـوس الـوحـيـد: 1731) ”السباع“ کا معنی ہے ”درندہ“ پھاڑ کر کھانے والا جانور، دو دانت والا جانور جو انسان اور چوپایوں کو پھاڑ کر کھاتا ہے، جیسے شیر، بھیٹر یا اور چیتا وغیرہ (القاموس الوحید: 740)۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ہر وہ درندہ جو کچلی والا ہے، حرام ہے اور (صحیح مسلم: 1934) میں ہے کہ ہر وہ پرندہ جو پنجے سے شکار کرتا ہے، وہ بھی حرام ہے، اسلام میں جتنی جامعیت ہے، اتنی جامعیت کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 898
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5530
5530. سیدنا ثعلبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ یونس معمر ابن عینیہ اور ماجشون نے زہری سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5530]
حدیث حاشیہ: ذي ناب سے مراد ایسے دانت ہیں جن سے درندہ جانور یا پرندہ اپنے شکار کو زخم کر کے پھاڑ دیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5530
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5781
5781. ابن شہاب زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو ادریس خولانی سے پوچھا: کیا ہم گدھی کے دودھ سے وضو کرسکتے ہیں یا درندے جانور کا پتا استعمال کرسکتے ہیں یا اونٹ کا پیشاب پی سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مسلمان اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ گدھی کے دودھ کے متعلق ہمیں یہ حدیث پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا البتہ اس کے دودھ کے متعلق ہمیں (رسول اللہ ﷺ کا) کوئی حکم یا ممانعت معلوم نہیں۔ ہاں درندوں کے پتے کے متعلق مجھے ابو ادریس خولانی نے بتایا اور انہیں ابو ثعلبہ خشنی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5781]
حدیث حاشیہ: پتہ بھی اسی میں داخل ہے وہ بھی حرام ہوگا۔ بس جس چیز سے شارع نے سکوت کیا وہ معاف ہے جیسے دوسری حدیث میں ہے۔ اسی بنا پر عطاء، طاؤس اور زہری اور کئی تابعین نے کہا کہ گدھی کا دودھ حلال ہے۔ جو لوگ حرام کہتے ہیں وہ یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ دودھ گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور جب گوشت کھانا حرام ہو تو دودھ بھی حرام ہوگا۔ میں (وحیدالزماں) کہتا ہوں کہ یہ قیاس فاسد ہے آدمی کا گوشت کھانا حرام ہے مگر اس کا دودھ حلال ہے۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5781
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5527
5527. سیدنا ابو ثعلبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ ﷺ نے پالتو گدھوں کا گوشت کھانا حرام قرار دیا تھا زبیدی اور عقیل نے ابن شہاب سے روایت کرنے میں صالح بن محمد کی متابعت کی ہے نیز مالک، معمر، ماجثون، یونس اور ابن اسحاق نے امام زہری سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے ہر چیز پھاڑ کرنے والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5527]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”خبردار! کچلیوں والا درندہ اور پالتو گدھا حلال نہیں ہے۔ “(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3804)(2) اگرچہ مؤخر الذکر حضرات کی روایت میں گھریلو گدھے کی حرمت کا ذکر نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں وضاحت ہے کہ گھریلو گدھا بھی حرام ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5527
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5530
5530. سیدنا ثعلبہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ یونس معمر ابن عینیہ اور ماجشون نے زہری سے روایت کرنے میں مالک کی متابعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5530]
حدیث حاشیہ: 1) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگال دار پرندے کے کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم، الصید و الذبائح، حدیث: 4994 (1934) وہ درندے جو نیش دار ہوں، یعنی کچلیوں سے شکار کرنے والے ہوں، جیسے: شیر، بھیڑیا اور چیتا وغیرہ حرام ہیں۔ اسی طرح ہر وہ پرندہ جو چنگال دار ہو، یعنی اپنے پنجوں سے شکار پکڑے اور چیز پھاڑ کر کھائے، جیسے: شاہین، باز اور گِدھ وغیرہ بھی حرام ہیں لیکن ان سے لگڑ بگڑ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے، حالانکہ وہ کچلی والا ہے۔ دراصل ہر درندے کی حرمت کی دو وجہیں ہیں: ایک کچلیوں کا ہونا دوسرا اس کا حملہ آور ہونا۔ درندگی کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم ہے، اس لیے کہ دونوں وصف رکھنے والے درندے کھانے سے درندگی والی قوت آ جاتی ہے۔ لگڑ بگڑ کچلی والا تو ہے لیکن اس میں درندگی کا وصف نہیں ہے، اس لیے اسے حلال قرار دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شکار قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ (سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3801)(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: سنن ابی داود (اردو) حدیث نمبر: 3801 کے فوائد و مسائل، طبع دارالسلام)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5530
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5781
5781. ابن شہاب زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے ابو ادریس خولانی سے پوچھا: کیا ہم گدھی کے دودھ سے وضو کرسکتے ہیں یا درندے جانور کا پتا استعمال کرسکتے ہیں یا اونٹ کا پیشاب پی سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: مسلمان اونٹ کے پیشاب کو بطور دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ گدھی کے دودھ کے متعلق ہمیں یہ حدیث پہنچتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا البتہ اس کے دودھ کے متعلق ہمیں (رسول اللہ ﷺ کا) کوئی حکم یا ممانعت معلوم نہیں۔ ہاں درندوں کے پتے کے متعلق مجھے ابو ادریس خولانی نے بتایا اور انہیں ابو ثعلبہ خشنی ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر کچلی والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5781]
حدیث حاشیہ: (1) درندوں کا پتہ حرام ہونے کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کو کھانے سے منع فرمایا ہے، حدیث کے یہ الفاظ درندے کے تمام اجزاء کے بارے میں ہیں کہ وہ حرام ہیں۔ ان میں پتا بھی شامل ہے۔ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ گدھی کا دودھ بھی حرام ہے کیونکہ گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا گیا ہے اور دودھ بھی گوشت سے نکلتا ہے جیسا کہ ابو ضمرہ کی روایت میں ہے کہ دودھ گوشت سے نکلتا ہے۔ جمہور کے نزدیک گدھی کا دودھ حرام ہے۔ (فتح الباري: 10/307)(2) گوشت پر قیاس کرتے ہوئے گدھی کے دودھ کو حرام کہنا محل نظر ہے کیونکہ یہ قیاس مع الفارق ہے جیسا کہ آدمی کا گوشت کھانا حرام ہے لیکن عورت کا دودھ پینا جائز ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کا رجحان گدھی کے دودھ کے متعلق یہ ہے کہ اس کا استعمال جائز ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس کے متعلق کوئی حکم یا ممانعت نہیں پہنچی، لہذا جس چیز کے متعلق شارع علیہ السلام نے سکوت اختیار کیا وہ صاف ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت ہے، اس بنا پر متعدد تابعین نے گدھی کے دودھ کو حلال کہا ہے۔ واضح رہے کہ مالیخولیا کے مریض کے سر پر اگر گدھی کے دودھ سے مالش کی جائے تو صحت یاب ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5781