فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 548
´سفر میں غلس میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، (آپ خیبر والوں کے قریب ہی تھے) پھر آپ نے ان پر حملہ کیا، اور دو بار کہا: «اللہ أكبر» ”اللہ سب سے بڑا ہے“ خیبر ویران و برباد ہوا، جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 548]
548 ۔ اردو حاشیہ:
➊۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ صبح کے بعد کیا کیونکہ آپ صبح کی اذان کا انتظار فرماتے تھے۔ اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے تاکہ وہاں مسلمان حملے میں نہ مارے جائیں اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے کہ سب کافر ہیں۔
➋”خیبر ویران ہوا۔“ یہ پیش گوئی ہو سکتی ہے جو واقعتاً پوری ہوئی۔ دعا بھی ہو سکتی ہے، پھر معنی ہوں گے ”خیبر ویران ہو جائے۔“ یہ جملہ بطور فال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تو وہ آگے سے ٹوکرے اور کدالیں لے کر آرہے تھے۔
➌جن کفار کو پہلے اسلام کی دعوت دی جاچکی ہو، ان پرچڑھائی کرنا جائز ہے۔
➍دشمن کا سامنا کرتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 548
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3382
´دوران سفر کی رخصتی کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کرنے کے ارادے سے نکلے، ہم نے نماز فجر خیبر کے قریب اندھیرے ہی میں پڑھی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے تنگ راستے سے گزرنے لگے تو میرا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھونے اور ٹکرانے لگا، (اور یہ واقعہ میری نظروں میں اس طرح تازہ ہے گویا کہ) میں آپ صلی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3382]
اردو حاشہ:
(1) دوران سفر دیگر ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں تو نکاح اور رخصتی بھی ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ بھی تو ضروریات سے ہیں‘ خصوصاً اس دور کے سفر جو کئی کئی ہفتے بلکہ مہینے جاری رہتے تھے اور بیوی بچے بھی ساتھ ہی ہوتے تھے۔
(2) ”ران“ سواری پر بیٹھے ہوئے ہوا کی وجہ سے کپڑا ہٹ سکتا ہے‘ لہٰذا ران نظر آسکتی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ نے قصداً ران ننگی کی ہوئی تھی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دوران سفر میں انسان اپنے بے تکلف ساتھیوں اور خدام کے سامنے ہوا خوری کے لیے ران ننگی کرلیتا ہے۔ مخصوص ساتھیوں کی مجلس میں بھی ایسا ممکن ہے کیونکہ ران شرم گاہ کی طرح تو نہیں‘ البتہ شرم گاہ سے قریب ہونے کی وجہ سے عموماً اسے بھی ڈھانپ کررکھنا چاہیے۔ نماز میں تو ران فرض ستر میں بالاتفاق داخل ہے۔ ران ننگی ہو تو نماز نہ ہوگی۔ ہاں‘ نماز کے علاوہ کسی ضرورت کی بنا پر یا اپنے بے تکلف ساتھیوں میں کبھی کبھار ران ننگی ہوجائے یا کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ احادیث میں تطبیق کا یہی طریقہ ہے۔
(3) ”خیبر ویران ہوگیا“ وحی سے فرمایا یا فال کے طور پر۔ بعض اہل علم نے اسے دعا بھی قراردیا ہے کہ خیبر فتح ہوجائے۔
(4) ”شور مچا دیا“ کیونکہ وہ لوگ آپ اور صحابہ کو پہنچانتے تھے۔ اس سے پہلے مدینہ ہی میں رہتے تھے۔
(5) ”صفیہ بنت حی“ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ان کا نام صفیہ نہیں تھا‘ نام تو زینب تھا‘ آپ کے انتخاب فرمانے کی وجہ سے صفیہ (منتخب شدہ) کہا گیا۔ یہ حیی بن اخطب کی بیٹی تھی جو کہ تمام یہود کا سردار تھا اور ایک دوسرے سردار کے نکاح میں تھیں۔ نکاح بھی تازہ ہی ہوا تھا۔ خاوند جنگ میں مارا گیا۔ یہ قیدی ہوگئیں۔ ظاہر ہے‘ ایسے مرتبے کی خاتون کسی عام شخص کے لیے مناسب نہ تھیں۔ ] أَنْزِلُوْا النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ [ ”لوگوں سے ان کے مرتبے کے مطابق سلوک کرنا چاہیے۔“ نیز اس سے لوگوں میں اضطراب پیدا ہورہا تھا‘ اس لیے آپ نے انہیں دحیہ سے واپس لے کر اپنے لیے پسند فرما لیا۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ وہ حضرت ہارون علیہ السلام کی نسل سے تھیں۔ نبی کی نسل سے اور نبی کے نکاح میں۔ واہ واہ۔ کیا شان ہے۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ وَأَرْضَاہُ۔
(6) جو عورت لونڈی بننے سے پہلے کسی کے نکاح میں ہو‘ اس سے فوراً ہم بستری جائز نہیں جب تک اسے ایک ماہواری نہ آجائے تاکہ یقین ہوجائے کہ اسے سابقہ خاوند سے حمل نہیں۔ اگر حمل ہو تو وضع حمل تک ہم بستری جائز نہ ہوگی۔ حضرت صفیہ قید ہونے کے وقت حیض کی حالت میں تھیں۔ دوران سفر حیض ختم ہوگیا اور یقین ہوگیا کہ انہیں حمل نہیں کیونکہ حمل ہو تو حیض نہیں آتا‘ لہٰذا آپ کے لیے ان سے شب بسری جائز ہوگی۔
(7) ”یہ آپ کا ولیمہ ہوگیا“ دوران سفر ایسا ولیمہ ہو ممکن تھا۔
(8) کفار سے لڑائی کرتے وقت نعرۂ تکبیر لگانا مستحب ہے‘ نیز اس موقع پر کثرت ذکر بھی مطلوب ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں اس موقع پر ذکر کرنے کا حکم دیا ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (الأنفال:8:45)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3382
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3500
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگ خیبر کے موقع پر میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے سوار تھا اور میرا قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم سے لگ رہا تھا۔ تو ہم ان کے پاس سورج کے روشن ہونے (اچھی طرح طلوع ہونے پر) پہنچے اور انہوں نے (گھروں سے) اپنے مویشی نکال لیے تھے، اور اپنے کلہاڑے، ٹوکریاں، بیلچے، کدال، یا رسیاں بھی ساتھ لے جا رہے تھے، تو وہ کہنے لگے، محمد لشکر کے ساتھ آ گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:3500]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تَصْنَعُهَا:
اسے بنائے سنوارے۔
(2)
فُؤُوْسٌ:
فاس کی جمع ہے۔
کلہاڑا،
یتشہ۔
(3)
مَكاَتِلْ:
مکتل کی جمع ہے،
ٹوکری۔
(4)
مُرُوْرِ:
مرکی جمع ہے،
بیلچہ اور بقول قاضی عیاض رسیاں جن کے ذریعہ کھجور کے درخت پر چڑھا جاتا ہے۔
(5)
تَعْتَدُّفِيْ بَيْتِهَا:
ام سلیم کے پاس مدت حیض گزارے تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ حاملہ نہیں ہے۔
(6)
أَفَاحِيْص:
اُفْحُوْص کی جمع ہے،
مقصد یہ ہے کہ دسترخوان بچھانے کے لیے زمین کو تھوڑا سا کھودا گیا۔
(7)
نَدَرَ:
ندور سے ماخوذ ہے جس کا معنی الگ ہونا اور نکلنا ہے اور یہاں مراد گرنا ہے۔
فوائد ومسائل:
1۔
نکاح کے وقت سب صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین حاضر نہ تھے اور نہ ہی سب دعوت ولیمہ میں شریک تھے۔
اس لیے سب کو اس نکاح کا پتہ نہ چل سکا۔
اس لیے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نکاح گواہوں کے بغیر ہو سکتا ہے جیسا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ ہے۔
2۔
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بیوی اہل البیت کا اولین اور اصلی مصداق ہے اور اس کے لیے جمع مذکر صیغہ استعمال ہوتا ہے۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(سلام عليكم كيف انتم يا اهل البيت؟يقولون:
)
(ہر بیوی نے پوچھا)
اور پردہ کا حکم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ولیمہ کے وقت نازل ہوا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3500
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4665
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا رخ کیا، تو ہم نے اس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی سوار ہو گئے، میں ابوطلحہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پیچھے سوار تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری خیبر کی گلیوں میں دوڑائی اور میرا گھٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کو مس کر رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4665]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الخَمِيس:
لشکر کو کہتے ہیں،
کیونکہ وہ پانچ دستوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
مقدمه (اگلا دستہ)
ساقه (پچھلا دستہ)
قلب (درمیانی دستہ)
ميمنة (دایاں بازو دستہ)
ميسرة (بایاں دستہ) (2)
غنوة:
قہر و جبر سے،
زقاق ج ازقه،
گلی کوچے۔
فوائد ومسائل:
آپ نے محرم 7ھ کے آخری ایام میں خیبر کا رخ کیا تھا اور خیبر آٹھ مضبوط اور مستحکم قلعوں پر مشتمل تھا،
ان کے علاوہ مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں،
اگرچہ وہ چھوٹی تھیں اور قوت و حفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں،
خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی،
ایک منطقے میں پانچ قطعے تھے اور دوسرے میں تین،
لڑائی پہلے منطقے میں ہوئی،
دوسرےمنطقے کے تینوں قلعے لڑنے والوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کر دیئے گئے،
تو جن ائمہ نے پہلے منطقہ کا لحاظ رکھا،
انہوں نے کہا،
خیبر بزور قوت،
جبراً فتح ہواہے اور جنہوں نے دوسرے منطقے کا لحاظ کیا،
انہوں نے کہا،
صلح سے فتح ہوا ہے اور غزوہ خیبر میں صرف وہ چودہ سو (1400)
صحابہ شریک ہوئے تھے،
جنہوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت رضوان کی تھی اور معرکہ کا آغاز قلعہ ناعم پر حملہ سے ہوا تھا،
کیونکہ یہ یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا اور اس میں مرحب نامی شہ زور اور جانباز یہودی موجود تھا،
جسے ایک ہزار مردوں کے برابر مانا جاتا تھا۔
تفصیل کے لیے دیکھئے،
الرحیق المختوم۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4665
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 610
610. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بھی ہمارے ساتھ کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی۔ اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے، چنانچہ ہم لوگ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے تو ہم رات کو ان کے ہاں پہنچے، جب صبح ہوئی اور نبی ﷺ نے اذان نہ سنی تو آپ سوار ہوئے۔ میں بھی حضرت ابوطلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہو گیا، میرا پاؤں نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو رہا تھا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: خیبر کے لوگ اپنے ٹوکرے اور دیگر آلات زراعت لے کر کام کاج کے لیے باہر نکلے، جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد، اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) پوری فوج کے ساتھ آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا:” الله أكبر، الله أكبر، خیبر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:610]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ اذان اسلام کی ایک بڑی نشانی ہے۔
اس لیے اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔
جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہواس بستی والوں کے لیے اسلام جان اورمال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔
حضرت ابوطلحہ ؓ حضرت انس ؓ کی والدہ کے دوسرے شوہرہیں۔
گویا حضرت انس کے سوتیلے باپ ہیں۔
خمیس پورے لشکر کو کہتے ہیں جس میں پانچوں ٹکڑیاں ہوں یعنی میمنہ، میسرہ، قلب، مقدمہ، ساقہ۔
حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
إنا إذا نزلنا سورہ صافات کی آیت کا اقتباس ہے جو یوں ہے:
فإذا نزل بساحتهم فساء صباح المنذرین (الصافات: 177)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 610
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 947
947. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر صبح سویرے منہ اندھیرے پڑھی پھر سوار ہوئے، اس کے بعد فرمایا: ”اللہ أکبر، خیبر ویران ہو گیا، یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو تنبیہ کردہ لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ “ چنانچہ وہ لوگ، یعنی یہودی گلی کوچوں میں یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے: محمد اپنے لشکر سمیت آ گیا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان پر فتح حاصل کی، جنگجو لوگوں کو قتل کر دیا، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا، حضرت صفیہ ؓ دحیہ کلبی کے حصے میں آئیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے لیے ہو گئیں جن سے بعد میں آپ نے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (راوی حدیث) عبدالعزیز نے اپنے شیخ ثابت سے دریافت کیا: اے ابو محمد! آپ نے حضرت انس ؓ سے پوچھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان (سیدہ صفیہ ؓ) کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ان کی ذات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:947]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ ﷺ نے صبح کی نماز سویرے اندھیرے منہ پڑھ لی اورسوار ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا۔
خمیس لشکر کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانچ ٹکڑیاں ہوتی ہیں مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب۔
صفیہ شاہزادی تھی آنحضرت ﷺ نے ان کی دلجوئی اور شرافت نسبی کی بنا پر انہیں اپنے حرم میں لے لیا اور آزاد فرما دیا ان ہی کو ان کے مہر میں دینے کا مطلب ان کوآزاد کر دینا ہے، بعد میں یہ خاتون ایک بہترین وفادار ثابت ہوئیں۔
امہا ت المومنین میں ان کا بھی بڑا مقام ہے۔
رضي اللہ عنها وأرضاھا۔
علامہ خطیب بغدادی ؒ لکھتے ہیں کہ حضرت صفیہ حی بن اخطب کی بیٹی ہیں جو بنی اسرائیل میں سے تھے اور ہارون ابن عمران ؑ کے نواسہ تھے۔
یہ صفیہ کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں جو جنگ خیبر میں بماہ محرم 7 ھ قتل کیا گیا اور یہ قید ہو گئیں تو ان کی شرافت نسبی کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے حرم میں داخل فرمالیا، پہلے دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھیں۔
بعد میں آنحضرت ﷺ نے ان کا حال معلوم فرماکر سات غلاموں کے بدلے ان کو دحیہ کلبی سے حاصل فرما لیا اس کے بعد یہ برضا ورغبت اسلام لے آئیں آنحضرت ﷺ نے اپنی زوجیت سے ان کومشرف فرمایا اور ان کو آزاد کر دیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر فرمایا۔
حضرت صفیہ نے 50 ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
ان سے حضرت انس اور ابن عمر وغیرہ روایت کرتے ہیں حیی میں یائے مہملہ کا پیش اور نیچے دو نقطوں والی یاء کا زبر اور دوسری یاء پر تشدید ہے۔
صلوةالخو ف کے متعلق علامہ شوکانی ؒ نے بہت کافی تفصیلات پیش فرمائی ہیں اور چھ سات طریقوں سے اس کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔
علامہ فرماتے ہیں:
وَقَدْ اُخْتُلِفَ فِي عَدَدِ الْأَنْوَاعِ الْوَارِدَةِ فِي صَلَاةِ الْخَوْفِ. فَقَالَ ابْنُ الْقِصَارِ الْمَالِكِيُّ:
إنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - صَلَّاهَا فِي عَشَرَةِ مَوَاطِنَ. وَقَالَ النَّوَوِيُّ:
إنَّهُ يَبْلُغُ مَجْمُوعُ أَنْوَاعِ صَلَاةِ الْخَوْفِ سِتَّةَ عَشَرَ وَجْهًا كُلُّهَا جَائِزَةٌ. وَقَالَ الْخَطَّابِيِّ:
صَلَاةُ الْخَوْفِ أَنْوَاعٌ صَلَّاهَا النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي أَيَّامٍ مُخْتَلِفَةٍ وَأَشْكَالٍ مُتَبَايِنَةٍ يَتَحَرَّى فِي كُلِّهَا مَا هُوَ أَحْوَطُ لِلصَّلَاةِ وَأَبْلَغُ فِي الْحِرَاسَةِ الخ۔
(نیل الاوطار)
یعنی صلوۃ خوف کی قسموں میں اختلاف ہے جو وارد ہوئی ہیں ابن قصار مالکی نے کہا کہ آنحضرت ﷺ نے اسے دس جگہ پڑھا ہے اور نووی کہتے ہیں کہ اس نماز کی تمام قسمیں سولہ تک پہنچی ہیں اور وہ سب جائز درست ہیں۔
خطابی نے کہا کہ صلوۃ الخوف کو آنحضرت ﷺ نے ایام مختلفہ میں مختلف طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔
اس میں زیادہ تر قابل غور چیز یہی رہی ہے کہ نماز کے لیے بھی ہر ممکن احتیاط سے کام لیا جائے اور اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ حفاظت اور نگہبانی میں بھی فرق نہ آنے پائے۔
علامہ ابن حزم نے اس کے چودہ طریقے بتلائے ہیں اور ایک مستقل رسالہ میں ان سب کا ذکر فرمایا ہے۔
الحمد للہ کہ اواخر محرم 1389ھ میں کتاب صلوة الخوف کی تبیض سے فراغت حاصل ہوئی، اللہ پاک ان لغزشوں کو معاف فرمائے جو اس مبارک کتاب کا ترجمہ لکھنے اور تشریحات پیش کرنے میں مترجم سے ہوئی ہونگی۔
وہ غلطیاں یقینامیری طرف سے ہیں۔
اللہ کے حبیب ﷺ کے فرامین عالیہ کا مقام بلند وبرتر ہے، آپ کی شان أوتیت جوامع الکلم ہے۔
اللہ سے مکرر دعا ہے کہ وہ میری لغزشوں کو معاف فرما کر اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے اور اس مبارک کتاب کے جملہ قدردانوں کو برکات دارین سے نوازے۔
آمین یا رب العالمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 947
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2991
2991. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خیبر پر صبح کے وقت حملہ کیا جبکہ وہاں کے باشندے اپنے کندھوں پر کسیاں رکھے باہر نکل رہے تھے۔ انھوں نے آپ کو دیکھا تو چلا اٹھے کہ یہ محمد ﷺ تو اپنے لشکر سمیت آچکے ہیں۔ محمد ﷺ اپنے لشکر سمیت آگئے ہیں۔ چنانچہ وہ سب بھاگ کر قلعے میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اس وقت نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”اللہ أکبر!خیبر تو تباہ ہو چکا۔ ہم جب کسی قوم کے میدان میں ڈیرے ڈال دیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔“ (حضرت انس ؓنے بیان کیا کہ) ہم نے گدھے پکڑے اور انھیں ذبح کر کے ان کا گوشت پکانا شروع کردیا تو نبی ﷺ کی طرف سے ایک منادی نے اعلان کردیا کہ اللہ اور اس کا رسول تمھیں گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد ہنڈیاں گوشت سمیت الٹ دی گئیں۔ اس روایت کی متابعت علی نے سفیان سے بیان کر کے کی ہے کہ نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2991]
حدیث حاشیہ:
رسول کریمﷺ نے خیبر میں داخل ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند فرمایا‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
ہر مناسب موقعہ پر شوکت اسلام کے اظہار کے لئے نعرہ تکبیر بلند کرنا اسلامی شعار ہے۔
مگر صد افسوس کہ آج کل کے بیشتر نام نہاد مسلمانوں نے اس پاک نعرہ کی اہمیت گھٹانے کے لئے ”نعرہ رسالت یا رسول اللہ“۔
”نعرہ غوثیہ یا شیخ عبدالقادر جیلانی“ جیسے شرکیہ نعرے ایجاد کرکے شرک و بدعت کا ایسا دروازہ کھول دیا ہے جو تعلیمات اسلام کے سراسر برعکس ہے۔
اللہ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
ایسے نعرے لگانا شرک کا ارتکاب کرنا ہے جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اولیاء کی بھی نافرمانی ہوتی ہے۔
مگر مسلمان نما مشرکوں نے ان کو محبت رسولﷺ اور محبت اولیاء سے تعبیر کیا ہے جو سراسر شیطانی دھوکا اور ان کے نفس امارہ کا فریب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2991
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3647
3647. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ خیبر میں صبح سویرے ہی پہنچ گئے جبکہ یہودی آلات زراعت لیے باہر نکل رہے تھے۔ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد تو لشکر سمیت آپہنچے ہیں، چنانچہ وہ دوڑتے ہوئے قلعے میں پناہ گزیں ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر فرمایا: ”خیبر تباہ ہوگیا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں ڈیرے ڈال دیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3647]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ آپ نے خیبر فتح ہونے سے پہلے ہی فرمادیا تھا کہ خیبر خراب ہوا اور پھر یہی ظہور میں آیا۔
یہ جنگ خیبر کا واقعہ ہے جس کی تفصیلات اپنے موقع پر بیان ہوگی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3647
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4197
4197. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت خیبر پہنچے۔ اور آپ کی عادت تھی کہ جب کسی قوم کے پاس رات کے وقت پہنچتے تو صبح ہونے تک ان پر حملہ نہیں کرتے تھے، چنانچہ جب صبح ہوئی تو یہودی کلہاڑے اور ٹوکریاں لے کر باہر نکلے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے۔ اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”خیبر تباہ ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کے لیے صبح بہت بری ہوتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4197]
حدیث حاشیہ:
واقدی نے نقل کیا ہے کہ خیبر والوں کو پہلے ہی مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع تھی۔
وہ ہر رات مسلح ہو کر نکلا کرتے تھے مگر اس رات کو ایسے غافل ہوئے کہ ان کا نہ کوئی جانور حرکت میں آیا نہ مرغ نے بانگ دی یہاں تک کہ وہ صبح کے وقت کھیتی کے آلات لے کر نکلے اور اچانک اسلامی فوج پر ان کی نظر پڑی جس سے وہ گھبرا گئے۔
اللہ کے رسول ﷺ نے اس سے نیک فالی لیتے ہوئے خربت خیبر کے الفاظ استعمال فرمائے جو حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئے۔
صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4197
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2945
2945. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ خیبر کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں رات کے وقت پہنچے۔ آپ ﷺ جب کسی قوم کے پاس رات کو آتے تو ان پر حملہ نہ کرتے حتی کہ صبح ہو جاتی، چنانچہ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنی کسیاں اور ٹوکریاں لے کر باہر نکلے۔ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے: محمد (ﷺ)ہیں۔ اللہ کی قسم! محمد(ﷺ) تو لشکر سمیت آگئے ہیں اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اکبر!خیبر ویران ہو گیا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2945]
حدیث حاشیہ:
جنگ خیبر کا پس منظر یہودیوں کی مسلسل غداری اور طبعی فساد انگیزی تھی۔
تفصیلی حالات اپنے موقع پر بیان ہوں گے۔
حدیث میں لفظ مساحیھم مسحاة کی جمع ہے جس سے مراد پھاؤڑہ ہے اور مکاتلھم مکتل کی جمع ہے‘ وہ ٹوکری جو پندرہ صاع وزن کی وسعت رکھتی ہو۔
خمیس سے مراد جو پانچ حصوں پر تقسیم ہوتا ہے میمنہ اور میسرہ قلب اور ساقہ اور مقدمہ اسی نسبت سے لشکر کو خمیس کہا گیا ہے اور ساحۃ سے مراد الان ہے وأصلھا الفضاء بین المنازل کذا في المجمع والعيني والکرماني۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2945
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:371
371. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کا رخ کیا تو ہم نے نماز فجر خیبر کے نزدیک اندھیرے میں (اول وقت میں) ادا کی۔ پھر نبی ﷺ اور حضرت ابوطلحہ ؓ سوار ہوئے۔ میں حضرت ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ نبی ﷺ نے خیبر کی گلیوں میں اپنی سواری کو ایڑی لگائی، (دوڑتے وقت) میرا گھٹنا نبی ﷺ کی ران مبارک سے چھو جاتا تھا۔ پھر آپ نے اپنی ران سے چادر ہٹا دی یہاں تک کہ مجھے نبی ﷺ کی ران مبارک کی سفیدی نظر آنے لگی اور جب آپ بستی کے اندر داخل ہو گئے تو آپ نے تین دفعہ یہ کلمات فرمائے: ”اللہ أکبر، خیبر ویران ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے آنگن میں پڑاؤ کرتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بڑی ہولناک ہوتی ہے جو قبل ازیں متنبہ کیے گئے ہوں۔“ حضرت انس ؓ کہتے ہیں: بستی کے لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکلے تو کہنے لگے: یہ محمد (ﷺ) اور ان کا لشکر آ پہنچا۔ حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ ہم نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:371]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری ؒ نے ران کے واجب الستر ہونے یا نہ ہونے کے متعلق دونوں طرح کے دلائل ذکر کر دیے ہیں، لیکن کوئی فیصلہ نہیں فرمایا، کیونکہ ران کے عورة (قابل الستر)
نہ ہونے کے متعلق جو مضبوط دلیل ہے وہ حدیث انس ہے جسے امام بخاری ؒ نے تفصیل سے نقل فرمایا ہے۔
اس میں چند ایک احتمالات ہیں جن کی بنا پر اس کے عورة نہ ہونے کے متعلق استدلال محل نظر بن جاتا ہے۔
شاید اسی بنا پر امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا، وہ احتمالات حسب ذیل ہیں:
صحیح مسلم کی روایت میں (انحسر الإزار)
کے الفاظ ہیں جس کے معنی ہیں کہ چادر خود بخود اوپر ہو گئی، رسول اللہ ﷺ نے اسے از خود اوپر نہیں اٹھایا۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4665 (1365)
اس کے علاوہ مسند امام احمد اور طبرانی میں بھی روایت انھیں الفاظ سے نقل ہوئی ہے، اس روایت کو جب محدث اسماعیلی ؒ نے بیان کیا تو اس کے الفاظ بایں طور ہیں (خرالإزار)
”آپ کی چادر گر پڑی۔
“عربی زبان میں لفظ خر بمعنی وقوع بھی انحسارکی طرح لازم استعمال ہوتا ہے، اگر یہ صحیح ہے تو معنی یہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ نے از خود اپنی ران سے چادر نہیں ہٹائی، بلکہ بھیڑیا سواری کو تیز دوڑانے کی وجہ سے ران کا حصہ کھل گیا۔
رسول اللہ ﷺ کی جلالت قدر کے شایان شان بھی یہی ہے کہ آپ کی طرف دانستہ ران کے کھولنے کا انتساب نہ کیا جائے، خصوصاً جبکہ آپ کے ارشادات سے اس کا قابل سترہونا ثابت بھی ہو چکا ہو۔
حضرت انس ؓ نے جو اس فعل کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی ہے وہ شاید اس لیے کہ انھوں نے حالت مذکورہ میں ران مبارک کو کھلا دیکھا تو یہی گمان کر لیا کہ آپ نے قصداًایسا کیا ہے، حالانکہ واقع میں ایسا نہ تھا۔
صحیح بخاری میں چونکہ لفظ (حَسَرَ)
ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ دانستہ چادر ران سے ہٹائی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حسر لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ اسے متعدی ہی استعمال کیا جائے، بلکہ یہاں لازم کے معنی میں استعمال کرنا زیادہ اولیٰ ہے، بایں صورت معنی ہوں گے کہ ازار از خود کسی وجہ سے ہٹ گیا۔
پھر صحیح مسلم میں مروی الفاظ سے اس معنی کی مزید تائید ہوتی ہے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ حسر الإزار کے یہ معنی ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ازار (تہ بند)
کو ران کے مقام پر ڈھیلا کیا ہوتا کہ ران سے چمٹا ہوا نہ رہے اور ایسا کرنے میں اتفاقاً ران کا کچھ حصہ کھل گیا ہو۔
یہ احتمال اس روایت کے زیادہ مناسب ہے، جو علامہ کرمانی ؒ نے بعض نسخوں کے حوالے سے بیان کی ہےکہ (عن فخذه)
کے بجائے (على فخذه)
ہے، یعنی ازارکا جو حصہ ران پر تھا آپ نے اسے کھولا اور ڈھیلا کیا۔
(شرح الکرماني: 31/2)
رسول اللہ ﷺ کی سواری ایک تنگ گلی میں جا رہی تھی اور ہوا بھی چل رہی تھی، اس لیے ممکن ہے کہ گھٹنا باربارتہ بند سے الجھتا ہواور ہوا نے اس تہ بند کا رخ پلٹ دیا ہو۔
اگر آپ نے خود ہٹا یا تو اس کی معقول وجہ یہ ہے کہ تہ بند کے بار بار الٹنے سے آپ نے یہ خطرہ محسوس کیا کہ کہیں اس الجھاؤ میں ایسا نہ ہو کہ اس حصے کی بے پردگی ہو جائے جس کی کسی صورت میں نوبت نہیں آنی چاہیے، اس خطرے کے پیش نظر ممکن ہے کہ آپ نے اپنا ازار گھٹنے سے ہٹا کر ران کے نیچے دبا لیا ہو۔
خود صحیح بخاری میں ایک روایت موجود ہے جس میں فخذ کے بجائے قدم کے الفاظ ہیں۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میرا قدم آپ کے قدم سے مس کر رہا تھا۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 610)
2۔
علامہ قرطبی ؒ کہتے ہیں:
حدیث انس پر حدیث جرہد کو ترجیح حاصل ہے، کیونکہ اس کے معارض جو بھی احادیث ہیں وہ خاص واقعات و حالات سے متعلق ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت کا احتمال بھی ہو سکتا ہے اور اس امرکا بھی احتمال ہے کہ ران کے متعلق پہلے نرمی چلی آرہی تھی، اس کے بعد اس کے عورۃ ہونے کا حکم ہوا لیکن حدیث جرہد میں اس قسم کا کوئی احتمال نہیں، بلکہ اس میں ایک کلی حکم بیان ہوا ہے۔
(فتح الباري: 623/1)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے انھی احتمالات کی بنا پر کہا ہے کہ جرہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پر عمل کرنا احتیاط کا تقاضا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذہن میں اس کے متعلق کچھ تفصیل متوسط اور معتدل موقف رکھتے ہیں وہ اس طرح کہ ران کے اوپر والے حصے کو (سَوأتَين) (قبل دبر)
کے ساتھ ملحق خیال کرتے ہیں لیکن وہ حصہ جو گھٹنے کی جانب ہے اس کے متعلق کچھ نرم گوشہ اس طرح ہے کہ بے تکلف احباب اور وہ حضرات جو بکثرت آنے جانے والے ہیں ان کے سامنے کشف کا مضائقہ نہیں، لیکن اجانب اور وہ حضرات جو كبھی کبھار آنے جانے والے ہوں یا ایسے لوگ جن سے بے تکلفی نہ ہو ان کے سامنے امام بخاری ؒ بھی کشف فخذ کی اجازت نہیں دیتے۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
اس حدیث سے متعلق دیگر مباحث الجهاد اور کتاب النکاح میں بیان ہوں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 371
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:610
610. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بھی ہمارے ساتھ کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی۔ اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے، چنانچہ ہم لوگ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے تو ہم رات کو ان کے ہاں پہنچے، جب صبح ہوئی اور نبی ﷺ نے اذان نہ سنی تو آپ سوار ہوئے۔ میں بھی حضرت ابوطلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہو گیا، میرا پاؤں نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو رہا تھا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: خیبر کے لوگ اپنے ٹوکرے اور دیگر آلات زراعت لے کر کام کاج کے لیے باہر نکلے، جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد، اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) پوری فوج کے ساتھ آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا:” الله أكبر، الله أكبر، خیبر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:610]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے اذان کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے اور ایک شرعی حکم کا بھی پتہ چلتا ہے۔
اذان کی فضیلت بایں طور ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے بستی والوں کے مال اور خون محفوظ ہوجاتے ہیں۔
اور شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آجائے تو وہاں حملہ کرنا جائز نہیں۔
یہ اس لیے کہ اذان، دین اسلام کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، اس کا ترک کسی صورت جائز نہیں۔
جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہو، اسلام اس بستی کے باشندگان کے مال وجان کی ضمانت دیتا ہے، نیز جس طرح اسلام کا اظہار شہادتین کے اقرار سے ہوتا ہے، اسی طرح عمل سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ اگر کسی کافر کو اذان پڑھتے دیکھیں تو اسے قتل کرنا جائز نہیں، پھر جب تک اس سے کوئی کفر یہ عمل سرزد نہ ہو، اسے مسلمان ہی خیال کرنا چاہیے۔
(2)
دراصل امام بخاری ؒ اذان کے ثمرات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اذان کا وجود لوگوں کے مال وخون کے محفوظ ہونے کی ضمانت دیتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی بایں طور وضاحت ہے کہ رسول ا للہ ﷺ طلوع فجر کے وقت حملہ آور ہوتے تھے۔
آپ اذان کا انتطار کرتے، اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو وہاں حملہ کردیتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 847(382)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 610
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:947
947. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز فجر صبح سویرے منہ اندھیرے پڑھی پھر سوار ہوئے، اس کے بعد فرمایا: ”اللہ أکبر، خیبر ویران ہو گیا، یقیناً جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو تنبیہ کردہ لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔ “ چنانچہ وہ لوگ، یعنی یہودی گلی کوچوں میں یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے: محمد اپنے لشکر سمیت آ گیا۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے ان پر فتح حاصل کی، جنگجو لوگوں کو قتل کر دیا، عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا، حضرت صفیہ ؓ دحیہ کلبی کے حصے میں آئیں، پھر رسول اللہ ﷺ کے لیے ہو گئیں جن سے بعد میں آپ نے نکاح کر لیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا حق مہر قرار دیا۔ (راوی حدیث) عبدالعزیز نے اپنے شیخ ثابت سے دریافت کیا: اے ابو محمد! آپ نے حضرت انس ؓ سے پوچھا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان (سیدہ صفیہ ؓ) کا حق مہر کیا مقرر کیا تھا؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ان کی ذات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:947]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ شدت جنگ کے وقت جب اطمینان و سکون میسر نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے۔
امام بخاری ؒ نے اس موقف کی تردید میں یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسے حالات میں نماز کو مؤخر کر دینا ضروری نہیں بلکہ اطمینان و سکون میسر نہیں ہے تو بھی اسے اول وقت پڑھا جا سکتا ہے۔
(عمدة القاري: 149/5)
اگر عنوان کا آغاز لفظ تکبیر سے ہے تو امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ہر ہولناک اور پریشان کن کام کے شروع میں اللہ أکبر کہنا ”ذکر مسنون“ ہے جیسا کہ جہاد کے موقع پر نعرۂ تکبیر بلند کرنا مجاہدین کی ایک شناختی علامت ہے۔
(فتح الباري: 588/2) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن پر چڑھائی کرتے وقت الله أكبر کہنا درست ہے لیکن دینی اجتماعات کے موقع پر تقاریر کے دوران میں نعرۂ تکبیر لگانا محتاج دلیل ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 947
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2945
2945. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ خیبر کی طرف تشریف لے گئے اور وہاں رات کے وقت پہنچے۔ آپ ﷺ جب کسی قوم کے پاس رات کو آتے تو ان پر حملہ نہ کرتے حتی کہ صبح ہو جاتی، چنانچہ جب صبح ہوئی تو یہودی اپنی کسیاں اور ٹوکریاں لے کر باہر نکلے۔ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے: محمد (ﷺ)ہیں۔ اللہ کی قسم! محمد(ﷺ) تو لشکر سمیت آگئے ہیں اس وقت نبی ﷺ نے فرمایا: ”اللہ اکبر!خیبر ویران ہو گیا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2945]
حدیث حاشیہ:
1۔
غزوہ خیبر کا پس منظر یہود کی مسلسل غداری اورطبعی فساد انگیزی تھا۔
انھیں دعوت اسلام پہنچ چکی تھی،اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں سزا دینا چاہی۔
نبی کریم ﷺ رات کے وقت ان پر حملہ آور ہوئے۔
انھیں سنبھلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
2۔
ایک روایت کے مطابق حضرت انس ؓ فرماتے ہیں:
ہم خیبر میں اس وقت پہنچے جب سورج چمک رہا تھا۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4666(1365)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2945
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2991
2991. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے خیبر پر صبح کے وقت حملہ کیا جبکہ وہاں کے باشندے اپنے کندھوں پر کسیاں رکھے باہر نکل رہے تھے۔ انھوں نے آپ کو دیکھا تو چلا اٹھے کہ یہ محمد ﷺ تو اپنے لشکر سمیت آچکے ہیں۔ محمد ﷺ اپنے لشکر سمیت آگئے ہیں۔ چنانچہ وہ سب بھاگ کر قلعے میں پناہ گزیں ہو گئے۔ اس وقت نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا: ”اللہ أکبر!خیبر تو تباہ ہو چکا۔ ہم جب کسی قوم کے میدان میں ڈیرے ڈال دیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بہت بری ہوتی ہے۔“ (حضرت انس ؓنے بیان کیا کہ) ہم نے گدھے پکڑے اور انھیں ذبح کر کے ان کا گوشت پکانا شروع کردیا تو نبی ﷺ کی طرف سے ایک منادی نے اعلان کردیا کہ اللہ اور اس کا رسول تمھیں گدھوں کے گوشت سے منع کرتے ہیں۔ اس اعلان کے بعد ہنڈیاں گوشت سمیت الٹ دی گئیں۔ اس روایت کی متابعت علی نے سفیان سے بیان کر کے کی ہے کہ نبی ﷺ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2991]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺنے خیبر میں داخل ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ شوکت اسلام کے اظہار کے لیے مناسب موقع پر اللہ أکبر بآواز بلند کہا جا سکتا ہے۔
2۔
یہ ایک اسلامی شعار ہے لیکن کس قدر افسوس ہے کہ اس مقدس نعرے کی اہمیت گھٹانے کے لیے ہمارے ہاں نعرہ رسالت یا رسول اللہ، نعرہ حیدری،یا علي اورنعرہ غوثیہ، یا شیخ عبدالقادر جیلاني جیسے نعرےایجاد ہو چکے ہیں ایسے نعرے لگانا شرک کا ارتکاب کرنا اور بدعت کا دروازہ کھولنا ہے جس کی اسلام کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔
اسے محبت رسول یا محبت اولیاء کا نام تو سرا سر شیطانی دھوکا اور نفس امارہ کا فریب ہے۔
ہمیں ہر حال میں ان سے بچنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2991
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3647
3647. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ خیبر میں صبح سویرے ہی پہنچ گئے جبکہ یہودی آلات زراعت لیے باہر نکل رہے تھے۔ جب انھوں نے آپ ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد تو لشکر سمیت آپہنچے ہیں، چنانچہ وہ دوڑتے ہوئے قلعے میں پناہ گزیں ہوگئے۔ نبی کریم ﷺ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور نعرہ تکبیر بلند کیا، پھر فرمایا: ”خیبر تباہ ہوگیا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں ڈیرے ڈال دیں تو پھر ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3647]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں نبوت کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر فتح ہونے سے پہلے ہی فرمادیاتھا کہ خیبر ویران ہوا،پھر اس کے مطابق ظہور ہوا۔
غزوہ خیبر کی تفاصیل کتاب المغاذی میں بیان ہوگی۔
2۔
حدیث کے آخری الفاظ:
”جب ہم کسی قوم کے میدان میں ڈیرے ڈال دیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہوجاتی ہے۔
“ میں فتح کی بشارت ہے بلکہ دیگرغزوات میں بھی فتوحات کی طرف واضح اشارہ ہے اور فتوحات کی یہ برکت گھوڑوں کی حاضری کی وجہ سے ہے۔
اس سے گھوڑوں کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔
3۔
واضح رہے کہ لشکر کو"خمیس" اس لیے کہاجاتا ہے کہ اس کے پانچ حصے ہوتے ہیں: 1۔
میمنہ۔
2۔
میسرہ۔
3۔
مقدمہ۔
4۔
ساقہ۔
5۔
قلب،بہرحال یہ حدیث بھی علامات نبوت میں سے ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4197
4197. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت خیبر پہنچے۔ اور آپ کی عادت تھی کہ جب کسی قوم کے پاس رات کے وقت پہنچتے تو صبح ہونے تک ان پر حملہ نہیں کرتے تھے، چنانچہ جب صبح ہوئی تو یہودی کلہاڑے اور ٹوکریاں لے کر باہر نکلے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے۔ اللہ کی قسم! یہ تو محمد اور ان کا لشکر ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”خیبر تباہ ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر پڑیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کے لیے صبح بہت بری ہوتی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4197]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ خیبر کے نزدیک رجیع نامی وادی میں ٹھہرے۔
یہ وادی یہود اور قبیلہ غطفان کے درمیان واقع تھی۔
چونکہ یہی قبیلہ یہودیوں کا حلیف تھا، اس لیے خطرہ تھا کہ وہ ان کی مدد کے لیے میدان میں اترآئیں گے پیش بندی کے طور پر رسول اللہ ﷺ نے یہ اقدام کیا،چنانچہ غطفان نے تیاری کی اور خیبر جانے کا ارادہ بھی کیا لیکن انھیں محسوس ہوا کہ مسلمانوں نے پیچھے سے ہمارے اہل خانہ پرحملہ کردیا ہے، اس لیےوہ واپس آگئے اور اپنے گھروں میں ٹھہر گئے، اور اس طرح اہل خیبر ذلیل وخوار ہوئے، نیز یہودیوں کی عادت تھی کہ وہ ہرروز تیاری کرکے مسلح ہوکرباہر نکلتے تھے، جب دیکھتے کہ کوئی خطرہ وغیرہ نہیں ہے تو اپنے ہتھیار اتاردیتے۔
جس رات مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا، اس رات تمام یہودی سوئے رہے، ان کے کسی جانور نے حرکت نہ کی حتی کہ اس رات کسی مرغ نے بھی اذان نہ دی۔
جب صبح کے وقت یہودیوں نے مسلمانوں کودیکھا تو اپنے قلعے میں تو اپنے قلعے میں محصور ہوگئے۔
2۔
جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ یہودی آلاتِ کھیتی باڑی کا سامان لے کر نکلے ہیں جو ذلت کی علامت ہے، ان کےپاس آلات حرب (ہتھیار)
نہ تھے جو غیرت کی نشانی ہوتے ہیں توآپ نے اس سے نیک فال لی اور فرمایا:
”خیبر تباہ ہوگیا۔
“ ممکن ہے کہ آپ کو بذریعہ وحی اس کی تباہی وبربادی کا علم ہوا ہوتو آپ نے فرمایا کہ خیبرتباہ وبرباد ہوگیا۔
(فتح الباری: 584/7، 585)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4197