لیث نے ہمیں ابن شہاب سے خبر دی اور انہوں نے مالک بن اوس بن حدثان سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: میں (لوگوں کے سامنے) یہ کہتا ہوا آیا: (سونے کے عوض) درہموں کا تبادلہ کون کرے گا؟ تو حجرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔۔ اور وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھے۔۔ ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، پھر (ذرا ٹھہر کے) ہمارے پاس آنا، جب ہمارا خادم آئے گا تو ہم تمہیں تمہاری چاندی (کے درہم) دے دیں گے۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! تم انہیں چاندی دو یا ان کا سونا انہیں واپس کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "سونے کے عوض چاندی (کی بیع) سود ہے، الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ (دست بدست) ہو اور گندم کے عوض گندم سود ہے، الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو اور جو کے عوض جو سود ہے، الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو اور کھجور کے عوض کھجور سود ہے، الا یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔"
حضرت مالک بن اوس بن حدثان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں یہ کہتا ہوا آگے بڑھا، کون درہم فروخت کرنا چاہتا ہے، تو حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالی عنہ جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس تھے، کہنے لگے، ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، تو پھر ہمارے پاس اس وقت آنا، جب ہمارا خادم آ جائے، تو ہم تمہیں چاندی دے دیں گے، تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو گا، ابھی اس کو چاندی دو یا اس کا سونا، اسے لوٹا دو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”چاندی کا سونے سے تبادلہ سود ہے، الا یہ کہ دست بدست ہو (لو، دو) اور گندم کا گندم سے تبادلہ سود ہے، الا یہ کہ نقد بنقد ہو اور جَو کا جَو سے تبادلہ سود ہے، مگر جو دست بدست ہو، اور تمر کا تمر سے تبادلہ سود ہے، اگر نقد بنقد نہ ہو۔“