عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور کھجور کا کھجور سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2253]
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں چار ہی چیزوں کا ذکر ہے، لیکن ابوسعید کی روایت میں جو صحیحین میں وارد ہے، دو چیزوں چاندی اور نمک کا اضافہ ہے، اس طرح ان چھ چیزوں میں تفاضل (کمی بیشی) اور نسیئہ (ادھار) جائز نہیں ہے، اگر ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے تو درست ہے، اور اگر ایک طرف سے بھی ادھار ہو تو یہ سود ہو جائے گا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2253
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) خوردنی اشیاء کی اگر جنس ایک ہو تو اور قسمیں مختلف ہوں تو ان کا ایک دوسرے سے تبادلہ دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔
(الف) دونوں طرف سے برابر مقدار میں چیزدی جائے، مثلاً: ایک صاع کھجوروں کے بدلے میں ایک صاع دوسری قسم کی کھجوریں لی جا سکتی ہیں لیکن ایک صاع کےبدلے میں دوصاع کھجورین لینا یا دینا درست نہیں۔
(ب) تبادلہ نقد ہونا چاہیے، یعنی مجلس میں دونوں طرف سے چیز وصول کر لی جائے۔
(2) سونے چاندی کا بھی یہی حکم ہے۔ سونے کے بدلے میں سونا دست بدست اور برابر وزن میں لیا دیا جانا چاہیے۔
(3) اگر جنس مختلف ہوتو وزن اور مقدار میں کمی بیشی جائز ہے، مثلاً: گندم کےبدلے جو، یا سونے کے بدلے میں چاندی کے تبادلے میں مقدار برابر ہونا ضروری نہیں، تاہم تبادلہ دونوں طرف سے فوری ادائیگی کی صورت میں ہونا ضروری ہے۔
(4) اگر ایک شخص کے پاس ادنیٰ قسم کی گندم ہے اور وہ اعلیٰ قسم کی گندم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ اپنی گندم نقد رقم کے عوض فروخت کر دی جائے، پھر ان پیسوں سے مطلوبہ گندم خرید لی جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2253
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 511
´ایک ہی جنس میں خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ یا کم لینا سود ہے` «. . . الذهب بالورق ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء. والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء .» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا چاندی کے بدلے میں سود ہے سوائے اس کے کہ نقد نقد ہو اور گیہوں گیہوں کے بدلے میں سود ہے سوائے اس کے کہ نقد نقد ہو اور کھجور کھجور کے بدلے میں سود ہے اِلا یہ کہ نقد نقد ہو اور جو جو کے بدلے میں سود ہے اِلا یہ کہ نقد نقد ہو۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 511]
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 636/2، 637 ح 1370، ك 31 ب 17 ح 38، التمهيد 281/6، 282، الاستذكار: 1290 ● أخرجه البخاري 2174، من حديث مالك به ورواه مسلم 1586، من حديث ابن شهاب به و صرح بالسماع] تفقه: ➊ ایک ہی جنس میں خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ یا کم لینا سود ہے۔ ➋ صحیح خبر واحد حجت ہے۔ ➌ ایک ہی جنس میں خرید و فروخت کرتے وقت ادھار جائز نہیں ہے۔ ➍ صحابۂ کرام امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے جذبے سے سرشار تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین ➎ بعض اوقت ایک صحیح حدیث بہت بڑے عالم سے بھی مخفی رہ سکتی ہے۔ ➏ صحیح حدیث کے مقابل میں کس کا قول حجت نہیں ہے۔ ➐ عدم علم کی وجہ سے اجتہادی خطا ہو سکتی ہے جس میں اجتہاد کرنے والا معذور ہوتا ہے۔ ➑ سود کی بہت سی اقسام ہیں۔ ➒ سود کے سدباب کے لئے شریعت اسلامیہ نے دقیق اہمتام کر رکھا ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 10
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4562
´کھجور کے بدلے کھجور کمی زیادتی کے ساتھ بیچنے کا بیان۔` عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا، چاندی کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، کھجور کھجور کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، گی ہوں گیہوں کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو، جو جو کے بدلے سود ہے، سوائے اس کے کہ نقدا نقد ہو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4562]
اردو حاشہ: (1) اس حدیث میں وہ سود بیان کیا گیا ہے جس کا تعلق خرید و فروخت سے ہوتا ہے۔ سود کی دوسری قسم وہ ہے جس کا تعلق لین دین، یعنی تھوڑی چیز قرض دے کر زیادہ چیز لینے کی شرط لگانا۔ اسے قرض کا سود کہتے ہیں۔ خرید و فروخت میں سود یہ ہے کہ دونوں طرف ایک ہی جنس ہو مگر ان میں کمی بیشی کی جائے یا ادھار ہو، سودا نقد نہ ہو، جیسے مندرجہ بالا روایت میں مثالیں دے کر واضح کر دیا گیا ہے، یا پھر جنس تو مختلف ہو مگر سودا ادھار ہو، جیسے کہ پہلی مثال میں صراحت ہے کہ سونا چاندی کے عوض بھی سود ہے جبکہ سودا نقد نہ ہو کیونکہ چیزوں اور جنسوں کے بھاؤ بدلتے رہتے ہیں، لہٰذا جب دونوں طرف ایک ہی جنس ہو یا مختلف جنسیں ہوں، ادھار قطعاََ نہیں ہونا چاہیے، البتہ اگر اجناس مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے۔ اگر سودا روپے پیسے کے ساتھ کسی جنس کا ہو، مثلاََ: کھجور، گندم، جو وغیرہ کا تو اس میں ادھار بھی جائز ہے۔ (2)”مگر نقد“ عربی میں لفظ ہیں: إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ یعنی دونوں ایک دوسرے سے کہیں لے بھئی اپنا مال۔ جن دونوں یہ کہیں تو لازماََ سودا نقد ہوگا، اس لیے لازم معنیٰ کیا گیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4562
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2259
´سونے کو چاندی کے بدلے بیچنے کا بیان۔` عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو چاندی سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد۔“ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے سنا: یاد رکھو کہ سونے کو چاندی سے یعنی باوجود اختلاف جنس کے ادھار بیچنا «ربا»(سود) ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2259]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) سونے چاندی کا باہمی تبادلے دونوں طرف سے فوری ادائیگی کی شرط سے جائز ہے۔
(2) اگر یہ شرط مفقود ہو تو سونے کا چاندی سے تبادلہ شرعاً منع ہے۔
(3) حضرت سفیان بن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمانا ”یاد رکھو۔“ اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لیے تھا کہ مختلف اجناس کے تبادلے میں بھی بعض صورتیں ممنوع ہیں‘ لہٰذا ان کا خیال رکھا جائے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2259
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2260
´سونے کو چاندی کے بدلے بیچنے کا بیان۔` مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ میں یہ کہتے ہوئے آیا کہ کون درہم کی بیع صرف کرتا ہے؟ یہ سن کر طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بولے، اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے: لاؤ مجھے اپنا سونا دکھاؤ، اور دے جاؤ، پھر ذرا ٹھہر کے آنا، جب ہمارا خزانچی آ جائے گا تو ہم تمہیں درہم دے دیں گے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! یا تو اس کی چاندی دے دو، یا اس کا سونا اسے لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”چاندی کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو۔“[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2260]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں مسئلہ معلوم نہیں تھا حتی کہ حضرت عمر ؓ نے وضاحت فرمائی‘ اس لیے کسی کے بہت بڑا عالم ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو اسے معلوم نہ ہو‘ جس سے اس سے غلطی کا صدور ممکن نہ ہو۔
(2) اگر ایک آدمی سے غلطی ہو جائے تو دوسرے آدمی کو چاہیے کہ اسے بتا دے کہ صحیح مسئلہ اس طرح ہے۔
(3) تاکید کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔
(4) کسی کو ایک کام کا حکم دینے کے لیے یا منع کرنے کے لیے قسم کے لفظ سے کہنا جائز ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2260
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1243
´صرف کا بیان۔` مالک بن اوس بن حدثان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں (بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا: درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا؟ تو طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے کہا اور وہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے پاس تھے: ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آ جائے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ (یہ سن کر) عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1243]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: چاندی کے بدلے سونا، اور سونا کے بدلے چاندی کم وبیش کرکے بیچنا جائز تو ہے، مگر نقدانقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے، نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم وبیش کرکے نہیں بیچ سکتے، دیکھیے: حدیث (رقم: 1240)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1243
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:12
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: تم اس سے الگ نہ ہونا، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے، ”چاندی کے عوض میں سونے کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ گندم کے عوض گندم کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ جو کے عوض جو کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔ کھجور کے عوض کھجور کا لین دین سود ہے ماسوائے اس کے جو دست بدست ہو۔“۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:12]
فائدہ: اس حدیث میں خرید و فروخت کے بعض اہم مسائل بیان ہوئے ہیں، جن کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے۔ سونے اور چاندی کی ایک دوسرے کے بدلے خرید و فروخت کرنے میں فوری ادائیگی شرط ہے، ورنہ سود ہے، یعنی ان دونوں جنسوں کے باہمی تبادلے میں ادھار منع ہے، اور یہ ادھار خواہ تھوڑی مدت کے لیے ہو یا زیادہ مدت کے لیے ہو۔ اسی طرح گندم کے بدلے گندم، جو کے بدلے جو، اور کھجور کے بدلے کھجور ادھار فروخت کرنا منع ہے اور یہ سود ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 12
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2134
2134. حضرت مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نقدی کس کے پاس ہے؟ حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا: میرے پاس ہے تاآنکہ میرا اخزانچی غابہ جنگل سے واپس آجائے۔ (راوی حدیث)حضرت سفیان نے کہا کہ ہم نے اس حدیث کو اسی طرح اپنے شیخ امام زہری سے محفوظ کیا ہے، اس میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں۔ مالک بن اوس ؓ فرماتے ہیں۔ انھوں نے حضرت خطاب ؓ سے سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا سود ہے مگریہ کہ دست بدست ہو۔ گندم کو گندم کے عوض بیچنا بھی سود ہے مگر جب نقد بنقد ہو، اسی طرح کھجور کو کھجورکے بدلے اور جو کو جو کے بدلے فروخت کرنا سودہے مگر جب ہاتھوں ہاتھ ہو(تو جائز ہے۔)“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2134]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے یہ نکلا کہ جو اور گیہوں علیحدہ علیحدہ قسمیں ہیں۔ امام شافعی ؒ اور امام ابوحنيفہ ؒ اور امام احمد ؒ اور جملہ اہل حدیث کا یہی قول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2134
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2170
2170. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”گندم کے بدلے گندم فروخت کرنا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جو کے عوض جو بیچنا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو، اور کھجور کے عوض کھجور فروخت کرنا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2170]
حدیث حاشیہ: مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور نمک بیچنا نمک کے بدلے بیا ج ہے مگر ہاتھوں ہاتھ۔ بہرحال جب ان میں سے کوئی چیز اپنی جنس کے بدل بیچی جائے تو یہ ضروری ہے کہ دونوں ناپ تول میں برابر ہوں، نقدا نقد ہوں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2170
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2174
2174. حضرت مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھے سو دینار کے عوض ریزگاری کی ضرورت پیش آئی تو مجھے حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے بلایا۔ ہم آپس میں نرخ کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ بالآخر انھوں نے مجھ سے بیع صرف یعنی درہم دینے کا معاملہ طے کرلیا۔ انھوں نے سونا یعنی دینار لیے اور ہاتھوں میں لے کر انھیں الٹ پلٹ کرکے دیکھنا شروع کردیا۔ پھر کہا: اس قدر انتظار کروکہ میرا خزانچی مقام غابہ سے آجائے۔ حضرت عمر ؓ بھی یہ گفتگو سن رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم!جب تک در اہم وصول نہ کرلو اس سے جدا نہ ہونا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”سونا سونے کے عوض فروخت کرنا سود ہے جب تک دست بدست نہ ہو۔ اور گندم کو گندم کے عوض فروخت کرنا سود ہے۔ مگر نقد بنقد سودا کرنا جائز ہے۔ اسی طرح جو کی بیع جو کے ساتھ سود ہوگی جب تک دست بدست نہ ہو۔ اور کھجور کی بیع بھی کھجور کے ساتھ سود ہے جب تک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2174]
حدیث حاشیہ: لفظ ہاء و ہاءکی لغوی تحقیق علامہ شوکانی ؒیوں فرماتے ہیں: (إلَّا هَاءَ وَهَاءَ) بِالْمَدِّ فِيهِمَا وَفَتْحِ الْهَمْزَةِ وَقِيلَ: بِالْكَسْرِ وَقِيلَ: بِالسُّكُونِ، وَحُكِيَ الْقَصْرُ بِغَيْرِ هَمْزٍ، وَخَطَّأَهَا الْخَطَّابِيِّ وَرَدَّ عَلَيْهِ النَّوَوِيُّ وَقَالَ: هِيَ صَحِيحَةٌ لَكِنْ قَلِيلَةٌ وَالْمَعْنَى خُذْ وَهَاتِ وَحُكِيَ بِزِيَادَةِ كَافٍ مَكْسُورَةٍ وَيُقَالُ: هَاءِ بِكَسْرِ الْهَمْزَةِ بِمَعْنَى هَاتِ وَبِفَتْحِهَا بِمَعْنَى خُذْ، وَقَالَ ابْنُ الْأَثِيرِ: هَاءَ وَهَاءَ أَنْ يَقُولَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الْبَيِّعَيْنِ هَاءَ فَيُعْطِيَهُ مَا فِي يَدِهِ وَقِيلَ: مَعْنَاهُمَا خُذْ وَأَعْطِ قَالَ: وَغَيْرُ الْخَطَّابِيِّ يُجِيزُ فِيهِ السُّكُونَ. وَقَالَ ابْنُ مَالِكٍ: هَاءَ اسْمُ فِعْلٍ بِمَعْنَى خُذْ، وَقَالَ الْخَلِيلُ: هَاءَ كَلِمَةٌ تُسْتَعْمَلُ عِنْدَ الْمُنَاوَلَةِ وَالْمَقْصُودُ مِنْ قَوْلِهِ: هَاءَ وَهَاءَ أَنْ يَقُولَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْ الْمُتَعَاقِدَيْنِ لِصَاحِبِهِ: هَاءَ فَيَتَقَابَضَانِ فِي الْمَجْلِسِ (نیل) خلاصہ مطلب یہ ہے کہ لفظ ہاءمد کے ساتھ اور ہمزہ کے فتح اور کسرہ ہر دو کے ساتھ مستعمل ہیں بعض لوگوں نے اسے ساکن بھی کہا ہے۔ اس کے معنی خذ (لے لے) اور ہات (یعنی لا) کے ہیں۔ اور ایسا بھی کہا گیا ہے کہ ہاءہمزہ کے کسرہ کے ساتھ (لا) کے معنی میں ہے اور فتح کے ساتھ خذ (پکڑ) کے معنی میں ہے۔ ابن اثیر نے کہا کہ ہاءو ہاءکہ خرید و فروخت کرنے والے ہر دو ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ خریدار روپے دیتا ہے اور تاجر مال ادا کرتا ہے اس لیے اس کا ترجمہ ہاتھوں ہاتھ کیا گیا، گویا ایک مجلس میں ان ہر دو کا قبضہ ہو جاتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2174
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2134
2134. حضرت مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نقدی کس کے پاس ہے؟ حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا: میرے پاس ہے تاآنکہ میرا اخزانچی غابہ جنگل سے واپس آجائے۔ (راوی حدیث)حضرت سفیان نے کہا کہ ہم نے اس حدیث کو اسی طرح اپنے شیخ امام زہری سے محفوظ کیا ہے، اس میں کسی لفظ کا اضافہ نہیں۔ مالک بن اوس ؓ فرماتے ہیں۔ انھوں نے حضرت خطاب ؓ سے سنا، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سونے کو چاندی کے عوض فروخت کرنا سود ہے مگریہ کہ دست بدست ہو۔ گندم کو گندم کے عوض بیچنا بھی سود ہے مگر جب نقد بنقد ہو، اسی طرح کھجور کو کھجورکے بدلے اور جو کو جو کے بدلے فروخت کرنا سودہے مگر جب ہاتھوں ہاتھ ہو(تو جائز ہے۔)“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2134]
حدیث حاشیہ: ایک کرنسی کو دوسری کرنسی کے بدلے خریدوفروخت کرنا "صرف" کہلاتا ہے۔ بیع صرف میں قبضہ اور دست بدست ہونا شرط ہے۔ اگر دونوں عوض ایک جنس ہوں تو کسی بھی طرف زیادہ یاکم لینا حرام ہے،نیز یہ سودا نقد بنقد ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر جنس مختلف ہوتو زیادتی اور کمی تو جائز ہے لیکن یہ خریدوفروخت دست بدست ہونی چاہیے۔ دراصل حضرت مالک بن اوس ؓ کے پاس سودینار تھے وہ ان کے بدلے درہم لینا چاہتے تھے۔ ان کا حضرت طلحہ سے سودا طے ہوا لیکن حضرت طلحہ ؓ نے فرمایا اس وقت میرے پاس درہم موجود نہیں ہیں،میرا خزانچی غابہ سے آئے گا تو آپ کو درہم فراہم کردیے جائیں گے۔ حضرت عمر ؓ یہ باتیں سن رہے تھے، انھوں نے فرمایا: تم اس وقت تک الگ الگ نہ ہو جب تک اس سے دراہم وصول نہ کرلو کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے مگر جب دست بدست ہوتو جائز ہے۔ “ والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2134
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2170
2170. حضرت عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”گندم کے بدلے گندم فروخت کرنا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔ جو کے عوض جو بیچنا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو، اور کھجور کے عوض کھجور فروخت کرنا سود ہے مگر یہ کہ ہاتھوں ہاتھ ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2170]
حدیث حاشیہ: (1) اس روایت میں اختصار ہے۔ تفصیلی روایت حسب ذیل ہے: ”سونا سونے کے بدلے۔ چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے،جوجو کے بدلے،کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے یہ تمام اشیاء برابربرابراور نقد بنقد فروخت کی جائیں۔ جو زیادہ لے یا زیادہ دے تو اس نے سودی کاروبار کیا۔ سود لینے والا اور دینے والا دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ “(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4061(1587)(2) جمہور فقہاء کے نزدیک سود کی دو قسمیں ہیں: ٭ربا الفضل: ایک جنس کی دو اشیاء کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا۔ ٭ربا النسيئه: ان میں کمی بیشی تو نہ ہو لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سےادھار کا معاملہ ہو۔ حدیث بالا میں غذائی اجناس کے باہمی تبادلے کا بیان ہے کہ ہم جنس اشیاء کا تبادلہ اس صورت میں جائز ہے کہ جب برابر برابر اور نقد بنقد ہوں۔ اگر ایک جنس کا دوسری جنس سے تبادلہ کرنا ہوتو پھر کمی بیشی کی اجازت ہے بشرطیکہ سودا نقد بنقد ہو۔ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4063(1587) احادیث میں صرف چھ اشیاء کے تبادلے کا ذکرہے: سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک۔ ظاہری حضرات ان چھ اشیاء کےلیے اس حکم کو محدود کرتے ہیں لیکن باقی تمام مکاتب فکر دوسری اشیاء کو بھی ان پر قیاس کرتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہی نقطہ نظر صحیح ہے کیونکہ پاکستان اور اس کے گرد ممالک میں جس طرح گندم بنیادی نقدائی جنس ہے،اسی طرح مشرق بعید(ملائشیا،انڈونیشیا،جاپان، کوریا وغیرہ) میں چاول خوراک کا بنیادی حصہ ہے۔ عرب اور ارد گرد کے ممالک میں جو حیثیت کھجور کی ہے پاکستان کے شمالی حصوں بلتستان وغیرہ میں وہی حیثیت خوبانی کی اور بحیرہ روم کے علاقوں میں کشمش کی ہے،اس لیے ان اشیاء کو گندم،جو اور کھجور پر قیاس کرنا چاہیے۔ بہر حال ہم جنس غذائی اشیاء کا تبادلہ کرنے میں شرطیں ہیں: برابر برابر ہوں اور نقد بنقد ہوں۔ اور اگر مختلف اجناس کا تبادلہ کرنا ہوتو ایک شرط ہے کہ سودا نقد بنقد ہو ان میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2170
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2174
2174. حضرت مالک بن اوس ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ مجھے سو دینار کے عوض ریزگاری کی ضرورت پیش آئی تو مجھے حضرت طلحہ بن عبیداللہ ؓ نے بلایا۔ ہم آپس میں نرخ کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔ بالآخر انھوں نے مجھ سے بیع صرف یعنی درہم دینے کا معاملہ طے کرلیا۔ انھوں نے سونا یعنی دینار لیے اور ہاتھوں میں لے کر انھیں الٹ پلٹ کرکے دیکھنا شروع کردیا۔ پھر کہا: اس قدر انتظار کروکہ میرا خزانچی مقام غابہ سے آجائے۔ حضرت عمر ؓ بھی یہ گفتگو سن رہے تھے۔ انھوں نے فرمایا: اللہ کی قسم!جب تک در اہم وصول نہ کرلو اس سے جدا نہ ہونا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”سونا سونے کے عوض فروخت کرنا سود ہے جب تک دست بدست نہ ہو۔ اور گندم کو گندم کے عوض فروخت کرنا سود ہے۔ مگر نقد بنقد سودا کرنا جائز ہے۔ اسی طرح جو کی بیع جو کے ساتھ سود ہوگی جب تک دست بدست نہ ہو۔ اور کھجور کی بیع بھی کھجور کے ساتھ سود ہے جب تک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:2174]
حدیث حاشیہ: (1) حضرت عمر ؓ کا استدلال اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے جب حدیث کے الفاظ اس طرح ہوں: ”سونا چاندی کے عوض فروخت کرنا سود ہے مگر جبکہ نقد بنقد ہو“ چنانچہ ایک دوسری روایت میں بعینہ یہ الفاظ مروی ہیں جسے امام بخاری ؒ نے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2134) (2) سونے کو چاندی کے عوض یا اس کے برعکس تبدیل کرنا بیع صرف کہلاتا ہے۔ اس میں فوری طور پر قبضہ شرط ہے۔ ادھار کرنا سود ہے، اس لیے حضرت عمر ؓ نے حضرت مالک بن اوس ؓ کو فوری قبضہ کرنے کا حکم دیا۔ (3) حافظ ابن حجر ؓ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گندم اور جو الگ الگ جنس ہیں جبکہ امام مالک اور اوزاعی نے انھیں ایک ہی جنس قرار دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے۔ : گندم کو جو کے بدلے جس طرح چاہو فروخت کرو بشرطیکہ سودا نقد بنقد ہو۔ (السنن الکبریٰ للبیھقي: 277/5) یہ حدیث صحیح اور صریح ہے کہ یہ دونوں الگ الگ اجناس ہیں۔ (فتح الباري: 478/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2174