8. باب: جو پانی جنگل میں ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا حرام ہے جب لوگوں کو اس کو احتیاج ہو گھاس چرانے میں اور اس کا روکنا منع ہے اور نر کدانے کی اجرت لینا منع ہے۔
روح بن عبادہ نے ہمیں خبر دی، کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوزبیر نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی جفتی فروخت کرنے، کاشتکاری کے لیے پانی اور زمین کو فروخت کرنے سے منع فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ساری باتوں سے منع فرمایا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی جفتی کو بیچنے سے، پانی فروخت کرنے، زمین بٹائی پر دینے سے منع فرمایا ہے، ان چیزوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4005
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ائمہ ثلاثہ (امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام شافعی اور جمہور کے نزدیک نر کو جفتی کے لیے اجرت اور کرایہ دینا جائز نہیں ہے لیکن امام مالک کے نزدیک یہ نص تحریمی (حرمت کے لیے نہیں ہے) بلکہ نص تنزیہی ہے، یعنی اچھا اور پسندیدہ طرز عمل نہیں ہے، بٹائی کا مسئلہ پیچھے گزر چکا ہے، معلوم ہوتا ہے، نر کی جفتی کو آمدن کا ذریعہ بنانا جائز نہیں ہے، اگر وہ نر کو چارہ ڈالنے یا خوراک مہیا کرنے کےلیے کہتا ہے تاکہ بار بار جفتی کرنے سے جو کمزوری پیدا ہوتی ہے، اس کا ازالہ ہو سکے تو یہ بیچنا نہیں ہو گا۔