الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
8. باب تَحْرِيمِ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ الَّذِي يَكُونُ بِالْفَلاَةِ وَيُحْتَاجُ إِلَيْهِ لِرَعْيِ الْكَلإِ وَتَحْرِيمِ مَنْعِ بَذْلِهِ وَتَحْرِيمِ بَيْعِ ضِرَابِ الْفَحْلِ:
8. باب: جو پانی جنگل میں ضرورت سے زیادہ ہو اس کا بیچنا حرام ہے جب لوگوں کو اس کو احتیاج ہو گھاس چرانے میں اور اس کا روکنا منع ہے اور نر کدانے کی اجرت لینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4004
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، جَمِيعًا عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ فَضْلِ الْمَاءِ ".
) وکیع اور یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچ جانے والے پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت سے زائد پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1565
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح مسلمعن بيع فضل الماء
   سنن ابن ماجهعن بيع فضل الماء
   سنن النسائى الصغرىنهى عن بيع الماء

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4004 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4004  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ پانی فروخت کرنا جائز نہیں ہے،
جیسا کہ حافظ ابن حزم اور امام شوکانی کا رجحان معلوم ہوتا ہے،
لیکن جمہور امت کے نزدیک دوسری احادیث کی روشنی میں پانی پر ملکیت ثابت ہے،
اس لیے اس کی خریدوفروخت بھی جائزہے،
اور جس پانی کو فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے،
وہ،
وہ پانی ہے جو ان نہروں یا چشموں کا ہے،
جس پر کسی کی ملکیت نہیں ہے،
اگر کوئی وہاں سے اپنے برتن میں بھر لایا ہے،
تو وہ بیچ سکتا ہے،
امام شوکانی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے،
جس میں ہے،
نهي عن بيع الماء،
آپﷺ نے پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا،
اس میں فضل (لذائد)
کی قید نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4004   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4664  
´پانی بیچنے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4664]
اردو حاشہ:
(1) پانی، انسانوں اور جانوروں کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر بقا ممکن نہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے وافر پانی مفت مہیا فرمایا ہے۔ اگر پانی اپنی پیاس سے زائد ہو تو پیاسے کو مفت دینا فرض ہے اور اگر اپنے وضو اور غسل وغیرہ کی ضروریات سے زائد ہو تو غسل اور وضو وغیرہ کے لیے مفت دینا ضروری ہے۔ ہاں، کارو باری مقاصد کے لیے پانی مطلوب ہے تو بیچا جا سکتا ہے، مثلاً: زرعی ضروریات یا برف وغیرہ بنانے کے لیے۔ اسی طرح اگر پانی کے حصول میں اخراجات کرنے پڑتے ہوں یا محنت کرنا پڑتی ہو، مثلاً: دور سے اٹھا کر یا لاد کر لایا گیا ہو وغیرہ تو بھی اپنے اخراجات اور محنت کے مطابق معاوضہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ یہ پانی کی قیمت نہیں ہوتی بلکہ اخراجات اور محنت کا معاوضہ ہوتا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں، البتہ کسی پیاسے انسان یا حیوان کو پانی پینے سے نہیں روکا جا سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4664   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2477  
´پانی بیچنے کی ممانعت۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد پانی بیچنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2477]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دریاوں اورندی نالوں سےآنے والا پانی انسان کو بلاقیمت حاصل ہوتا ہے جس سے کاشت کاری کی جاتی ہے لہٰذا اس پر سب لوگوں کا حق ہے۔

(2)
پانی کے راستے میں جس کی زمین پہلے آتی ہو اسے حق ہے کہ پہلے اپنی فصل کو پانی دے۔
مناسب حد تک پانی دے کر دوسرے آدمی کی زمین کےلیے پانی چھوڑدینا چاہیے جیسے باب: 20 میں آ رہا ہے۔

(3)
جب پانی ایک جگہ سےدوسری جگہ لےجایا جائے تو وہاں جا کر مناسب قیمت پربیچا جا سکتا ہے جس طرح جنگل سے بلاقیمت لکڑی لا کر شہر میں بیچی جا سکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2477