سلیمان بن بلال نے کہا: مجھے یحییٰ نے عبید بن حنین سے خبر دی کہ انہوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے کہا: میں نے سال بھر کے انتظار کیا، میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ایک آیت کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا تھا مگر ان کی ہیبت کی وجہ سے ان سے سوال کرنے کی ہمت نہ پاتا تھا، حتی کہ وہ حج کرنے کے لیے روانہ ہوئے، میں بھی ان کے ساتھ نکلا، جب لوٹے تو ہم راستے میں کسی جگہ تھے کہ وہ قضائے حاجت کے لیے پیلو کے درخت کی طرف چلے گئے، میں ان کے انتظار میں ٹھہر گیا، حتی کہ وہ فارغ ہو گئے، پھر میں ان کے ساتھ چل پڑا، میں نے عرض کی: امیر المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں سے وہ کون سی دو خواتین تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا کر لیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا: وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہن تھیں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں ایک سال سے اس کے بارے میں آپ سے پوچھنا چاہتا تھا مگر آپ کے رعب کی وجہ سے ہمت نہ پاتا تھا۔ انہوں نے کہا: ایسا نہیں کرنا، جو بات بھی تم سمجھو کہ مجھے علم ہے، اس کے بارے میں مجھ سے پوچھ لیا کرو، اگر میں جانتا ہوا تو تمہیں بتا دوں گا۔ کہا: اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! جب ہم جاہلیت کے زمانے میں تھے تو عورتوں کو کسی شمار میں نہ رکھتے تھے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو نازل کیا، سو نازل کیا، اور جو (مرتبہ) انہیں دینا تھا سو دیا۔ انہوں نے کہا: ایک مرتبہ میں کسی معاملے میں لگا ہوا تھا، اس کے متعلق سوچ بچار کر رہا تھا کہ مجھے میری بیوی نے کہا: اگر آپ ایسا ایسا کر لیں (تو بہتر ہو گا۔) میں نے اسے جواب دیا: تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اور یہاں (اس معاملے میں) تمہیں کیا دلچسپی ہے؟ اور ایک کام جو میں کرنا چاہتا ہوں اس میں تمہارا تکلف (زبردستی ٹانگ اڑانا) کیسا؟اس نے مجھے جواب دیا: ابن خطاب! آپ پر تعجب ہے! آپ یہ نہیں چاہتے کہ آپ کے بارے آگے بات کی جائے، جبکہ آپ کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پلٹ کر جواب دیتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر اس سے ناراض رہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں (اسی وقت) اپنی چادر پکڑتا ہوں اور اپنی جگہ سے نکل کھڑا ہوتا ہوں، یہاں تک کہ حفصہ کے پاس پہنچتا ہوں۔ جا کر میں نے اس سے کہا: بٹیا! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جواب دیتی ہو کہ وہ سارا دن ناراض رہتے ہیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اللہ کی قسم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہیں۔ میں نے کہا: جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی سے ڈرا رہا ہوں، میری بیٹی! تمہیں وہ (عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے رویے کی بنا پر) دھوکے میں نہ ڈال دے جسے اپنے حسن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے سے محبت پر ناز ہے۔ پھر میں نکلا حتی کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آیا، کیونکہ میری ان سے قرابت داری تھی۔میں نے ان سے بات کی تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے مجھے جواب دیا: ابن خطاب تم پر تعجب ہے! تم ہر کام میں دخل اندازی کرتے ہو حتی کہ تم چاہتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی ازواج کے مابین بھی دخل دو؟ انہوں نے مجھے اس طرح آڑے ہاتھوں لیا کہ جو (عزم) میں (دل میں) پا رہا تھا (کہ میں ازواجِ مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب دینے سے روک لوں گا) مجھے توڑ کر اس سے الگ کر دیا۔ چنانچہ میں ان کے ہاں سے نکل آیا۔ میرا ایک انصاری ساتھی تھا، جب میں (آپ کی مجلس سے) غیر حاضر ہوتا تو وہ میرے پاس (وہاں کی) خبر لاتا اور جب وہ غیر حاضر ہوتا تو میں اس کے پاس خبر لے آتا۔ ہم اس زمانے میں غسان کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ سے ڈر رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر چڑھائی کرنا چاہتے ہے۔ اس (کی وجہ) سے ہمارے سینے (اندیشوں سے) بھرے ہوئے تھے۔ (اچانک ایک دن) میرا انصاری دوست آ کر دروازہ کھٹکھٹانے لگا اور کہنے لگا: کھولو، کھولو! میں نے پوچھا: غسانی آ گیا ہے؟ اس نے کہا: اس سے بھی زیادہ سنگین معاملہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ میں نے کہا: حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھن کی ناک خاک آلود ہو! پھر میں اپنے کپرے لے کر نکل کھڑا ہوا، حتی کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں) حاضر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانے میں تھے جس پر سیڑھی کے ذریعے چڑھ کر جانا ہوتا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سیاہ فام غلام سیڑھی کے سرے پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے کہا: یہ عمر ہے (خدمت میں حاضری کی اجازت چاہتا ہے)، تو مجھے اجازت عطا ہوئی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ساری بات بیان کی، جب میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بات پر پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے۔ آپ ایک چٹائی پر (لیٹے ہوئے) تھے، آپ کے (جسم مبارک) اور اس (چٹائی) کے درمیان کچھ نہ تھا۔ آپ کے سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ تھا جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ آپ کے پاؤں کے قریب کیکر کی چھال کا چھوٹا سا گٹھا پڑا تھا اور آپ کے سر کے قریب کچھ کچے چمڑے لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے تو رو پڑا۔ آپ نے پوچھا: "تمہیں کیا رلا رہا ہے؟" عرض کی: اے اللہ کے رسول! کسریٰ اور قیصر دونوں (کفر کے باوجود) اُس ناز و نعمت میں ہیں جس میں ہیں اور آپ تو اللہ کے رسول ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہیں پسند نہیں کہ ان کے لیے (صرف) دنیا ہو اور تمہارے لیے آخرت ہو
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ میں سال بھر یہ ارادہ کرتا رہا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک آیت کا مفہوم پوچھوں، لیکن ان کی ہیبت کی بنا پر ان سے پوچھ نہ سکا حتی کہ وہ حج کے لیے نکلے اور میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب واپس پلٹے، تو وہ راستہ کے کسی حصہ پر اپنی ضرورت (قضائے حاجت) کے لیے پیلو کے درخت کی طرف ہٹ گئے، (مڑ گئے) میں بھی ان کی فراغت کے انتظار میں ٹھہر گیا۔ پھر ان کے ساتھ چل پڑا۔ تو میں نے کہا، اے امیر المومنین! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے وہ دو کون سی ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایکا یا اتحاد کر لیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا، وہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنھما ہیں۔ تو میں نے ان سے کہا، اللہ کی قسم! میں ایک سال سے آپ سے اس کے بارے میں پوچھنے کا ارادہ کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کے رعب کی بنا پر ہمت نہیں کر سکا، انہوں نے کہا، ایسا مت کرو، جس چیز کے بارے میں تم یہ سمجھو کہ مجھے اس کا علم ہے تو مجھ سے پوچھ لو، اگر مجھے علم ہو گا تو میں تمہیں بتا دوں گا، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، اللہ کی قسم! ہم جاہلیت کے دور میں عورت کو کسی شمار قطار میں نہیں سمجھتے تھے (انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے) حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں جو اتارنا چاہا، اتارا اور ان کو جو دینا تھا، دیا (ان کے حقوق مقرر فرمائے) اور انہوں نے بتایا۔ اس اثنا میں کہ میں ایک معاملہ پر غوروفکر یا سوچ و بچار کر رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھے کہہ دیا، اگر آپ ایسا، ایسا کر لیں تو بہتر ہے۔ تو میں نے اس سے کہا، تجھے میرے معاملہ سے کیا دلچسپی یا تعلق ہے؟ اور جو کام میں کرنا چاہتا ہوں، تجھے اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس نے مجھ سے کہا، تم پر حیرت ہے، اے خطاب کے بیٹے! آپ باہمی گفتگو کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، حالانکہ تیری بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہے، جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر ناراض رہتے ہیں، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے اسی وقت اپنی چادر اٹھائی اور نکل کھڑا ہوا، حتی کہ حفصہ کے پاس پہنچ گیا، اور اس سے پوچھا، اے میری بیٹی! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا جواب دیتی ہو جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن بھر ناراض رہتے ہیں۔ تو حفصہ نے کہا، اللہ کی قسم! ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہیں۔ تو میں نے کہا، جان لو میں تمہیں، اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی ناراضگی سے ڈراتا ہوں۔ اے میری بیٹی! تمہیں یہ (عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) جو اپنے حسن و جمال پر نازاں ہے، دھوکا میں نہ ڈال دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس سے نکل کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس گیا۔ کیونکہ وہ میری عزیزہ تھیں، اور میں نے ان سے گفتگو کی۔ تو ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے کہا، تجھ پر تعجب ہے، اے خطاب کے بیٹے! تو ہر چیز میں دخل دیتا ہے، حتی کہ یہ بھی چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے درمیان دخل دے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، تو اس نے مجھے اس طرح نشانہ بنایا کہ میں دل میں جو پاتا تھا اس سے پھیر دیا گیا۔ میں نے اس سلسلہ میں مزید گفتگو نہ کی۔ اور میں اس کے ہاں سے نکل گیا اور میرا ایک انصاری ساتھی تھا جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے غیر حاضر ہوتا تو وہ آ کر مجھے (دن بھر کی) باتیں بتاتا اور جب وہ غیر حاضر ہوتا تو میں اسے جا کر باتیں بتاتا۔ اور ہم ان دنوں ایک غسانی بادشاہ سے خوف زدہ تھے، ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہم پر حملہ آور ہونا چاہتا ہے۔ اس سے ہمارے سینے خوف سے لبریز (بھرے ہوئے) تھے۔ تو میرا انصاری ساتھی آیا، دروازہ پر دستک دی اور کہا، کھولو، کھولو، میں نے پوچھا کیا غسانیوں نے حملہ کر دیا ہے؟ تو اس نے کہا، اس سے بھی سنگین واقعہ رونما ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے الگ تھلگ ہو گئے ہیں۔ تو میں نے کہا، حفصہ اور عائشہ کا ناک خاک آلود ہو، پھر میں نے اپنے کپڑے لیے اور نکل کھڑا ہوا حتی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پہنچ گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالا خانہ میں تھے، جس تک سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیاہ فام غلام سیڑھی کے سرے پر بیٹھا تھا۔ میں نے کہا، میں عمر ہوں (اجازت چاہتا ہوں) تو مجھے اجازت مل گئی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مذکورہ بات چیت سنائی، تو جب میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بات پر پہنچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا دیے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ اس کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کوئی بچھونا نہ تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کے پاس کیکر کے پتے جمع تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے پاس کچے چمڑے لٹک رہے تھے، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر چٹائی کے نشان دیکھے اور میں رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں روتے ہو؟“ تو میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ کسریٰ اور قیصر کس قدر آرام و سہولت میں ہیں۔ اور آپ اللہ کے رسول ہیں (اور اس قدر تنگی)۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان دونوں کو دنیا نصیب ہو اور تمہارے حصہ میں آخرت آئے؟“