یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے حدیث بیان کی (کہا) مجھے ابو زبیر نے خبرد ی کہ انھوں نے جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا انھوں نے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج و عمرے میں سات آدمی ایک قربانی میں شریک ہوئے تو ایک آدمی نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پو چھا کیا احرام کے وقت سے ساتھ لائے گئے قربانی کے جانوروں میں بھی اس طرح شراکت کی جا سکتی ہے جیسے بعد میں خریدے گئے جا نوروں میں شراکت ہو سکتی ہے؟ انھوں نے جواب دیا: وہ بھی ساتھ لائے گئے قربانی کے جانوروں ہی کی طرح ہیں۔ اور جابر رضی اللہ عنہ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے انھوں نے کہا: ہم نے اس دن ستر اونٹ نحر کیے ہم سات سات آدمی (قربانی کے ایک) اونٹ میں شر یک ہوئے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں حج اور عمرہ میں سات آدمی ایک ہدی میں شریک ہوئے، ایک آدمی نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ ہدی میں اتنے ہی شریک کیے جائیں گے، جتنے اونٹ میں شریک کیے جائیں گے، انہوں نے جواب دیا، جزور (اونٹ) بھی بدنہ (ہدی) ہی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حدیبیہ میں موجود تھے، وہ بیان کرتے ہیں، ہم نے اس دن ستر (70) اونٹ نحر کیے، ایک اونٹ میں ہم سات افراد شریک تھے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3188
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: بدنہ یا ہدی سے مراد وہ گائے اور اونٹ ہے جو احرام باندھتے وقت ساتھ لیا جائے اور جزور (اونٹ) وہ ہے جو قربانی کے وقت خریدا جائے لیکن قربانی میں دونوں کا حکم ایک ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3188
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 347
´گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں` «. . . عن جابر بن عبد الله انه قال: نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة . . .» ”. . . سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ”ہم نے حدیبیہ والے سال، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات آدمیوں کے طرف سے اونٹ اور سات آدمیوں کی طرف سے گائے (بطور قربانی) ذبح کی . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 347]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1318/350، من حديث ما لك به وصرح ابوالزبير بالسماع عند احمد 378/3 ح 15043]
تفقه ➊ گائے اور اونٹ کی قربانی میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور دوسری حدیث کی رو سے اونٹ کی قربانی میں دس افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ ديكهئے: [سنن الترمذي: 1501، وسند حسن، سنن النسائي:4397، سنن ابن ماجه: 3131] ➋ حدیبیہ والا سال 6 ہجری ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 147/12] ➌ اگر قربانی کے حصہ داروں میں سے ایک شخص ذمی (غیرمسلم) ہو تو علماء کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جائز ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے۔ راجح یہی ہے کہ ذمی کو قربانی میں شریک نہ کیا جائے۔ ➍ اگر قربانی کے حصہ داروں میں سے کوئی شخص بدعتی ہے جس کی بدعت بدعت مکفرہ نہیں تو قربانی جائز ہے اور بہتر یہی ہے کہ ذبح کرنے والا صحیح العقیدہ ہو اور کسی بدعتی کو قربانی میں شریک نہ کیا جائے۔ ➎ ساری قربانی ایک شخص کی طرف سے بھی ہو سکتی ہے۔ ➏ اگر گائے یا اونٹ میں مثلاً چھ آدمی شریک ہوں تو ایک آدمی کو دو حصے لینے چاہیئں اور یہ نہ کیا جائے کہ ساتویں حصے کو چھ آدمیوں پر تقسیم کر دیا جائے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ➐ اگر کسی عذر کی وجہ سے آدمی حرم نہ جا سکے تو اس کی طرف سے قربانی خارج حرم بھی جائز ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ حدود حرم میں یہ قربانی کی جائے۔ ➑ سارے گھرو کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کافی ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 1505، وسنده حسن وقال: ”حسن صحيح“] ● سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم سارے گھر کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتے تھے۔ [الموطأ 486/2 ح 1069، وسنده صحيح، والسنن الكبريٰ للبيهقي 268/9] ● اس پر قیاس کرتے ہوئے سارے گھر کی طرف سے گائے کا ایک حصہ کافی ہے۔ «والله اعلم» ➒ حج کے علاوہ قربانی کرنا سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ دیکھئے: [الموطأ 487/2 قال مالك: الضحية سنة وليست بواجبة ولا أحب لأحد ممن قوي على ثمنها أن يتركها] ➓ اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کے حکم میں ہے یعنی گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ دیکھئے کتاب [الاجماع لا بن المنذر 91] لیکن دیگر دلائل اور احتیاط کی رو سے بہتر یہی ہے کہ اس کی قربانی نہ کی جائے۔ «والله أعلم»
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 106
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4398
´ایک گائے میں کتنے لوگوں کی طرف سے قربانی کافی ہے۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج) تمتع کر رہے تھے تو ہم سات لوگوں کی طرف سے ایک گائے ذبح کرتے اور اس میں شریک ہوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4398]
اردو حاشہ: یہ شرکت قربانی ہی میں ہو سکتی ہے عقیقے میں نہیں کیونکہ قربانی کا ایک ہی دن معین ہے جبکہ عقیقہ ہر بچے کی پیدائش کے حساب سے کیا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4398
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2809
´گائے بیل اور اونٹ کی قربانی کتنے آدمیوں کی طرف سے کفایت کرتی ہے؟` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ نحر کئے، اور گائے بھی سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2809]
فوائد ومسائل: 1۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ گائے بیل اونٹ۔ اور اونٹنی کی قربانی رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے۔ تو ان کا گوشت بھی حلال اور طیب ہے۔ لہذا ان جانوروں کا گوشت کھانا درست ہے۔
2۔ اونٹنی اور گائے کا دودھ بھی طیب اور حلال ہے۔ اس لئے ان جانوروں کا دودھ پینا بھی درست ہے۔
3۔ مذکورہ احادیث میں قربانی کے موقع پر گائے اور اونٹ میں سات سات افراد کے شریک ہونے کا ذکر ہے۔ جبکہ جامع الترمذی اور سنن ابن ماجہ کی روایات میں گائے میں سات اور اونٹ میں دس افراد شریک ہونے کا ذکر موجود ہے۔ لیکن دونوں قسم کی روایات میں باہم کوئی تعارض نہیں۔ کیونکہ اونٹ میں دس افراد کی شرکت کا واقعہ قربانی کے موقع کا ہے۔ جب کہ سات افراد کی شرکت کا تعلق حج وعمرہ سے ہے۔ بنا بریں حج وعمرہ میں گائے اور اونٹ میں صرف سات سات افراد ہی شریک ہوں گے۔ جبکہ عام قربانی میں گائے میں سات اور اونٹ میں دس افراد شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ فرق احادیث سے ثابت ہے۔ بعض لوگ عقیقوں کے حصے بنا کر ایک گائے میں کئ کئی عقیقے کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایسا کرنا نص کے بھی خلاف ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2809
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3132
´اونٹ اور گائے کی قربانی کتنے لوگوں کی طرف سے کافی ہو گی؟` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں اونٹ کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر کیا، اور گائے کو بھی سات آدمیوں کی طرف سے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3132]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ میں دس آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ اور دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ میں سات آدمی شریک ہوسکتے ہیں۔ امام مسلم ؒ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے متعدد احادیث روایت کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حج میں بھی اور عمرے میں بھی سات آدمیوں کو ایک اونٹ میں شریک کیا۔ (صحيح مسلم، الحج، باب جوازالاشتراك في الهدي وإجزاء البدنة والبقرة كل واحدة منهما عن سبعة، حديث: 1318) لیکن ان احادیث میں باہم کوئی تعارض نہیں کیونکہ اونٹ میں دس آدمیوں کی شرکت کا واقعہ عام قربانی کے موقع کا ہے جب کہ سات آدمیوں کی شرکت کا تعلق حج وعمرہ سے ہے۔ بنابریں حج وعمرہ میں گائے اور اونٹ دونوں میں صرف سات سات افراد ہی شریک ہونگے جب کہ عام قربانی میں گائے میں سات اور اونٹ میں دس (10) افراد شریک ہوسکتے ہیں۔ یہ فرق حدیث سے ثابت ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3132
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 904
´قربانی میں اونٹ یا گائے میں شرکت کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گائے اور اونٹ کو سات سات آدمیوں کی جانب سے نحر (ذبح) کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 904]
اردو حاشہ: 1؎: جابر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث حج و عمرہ کے ”ھدی“ کے بارے میں ہے، جس کے اندر ابن عباس رضی اللہ عنہا کی اگلی حدیث قربانی کے بارے میں ہے (اور اس کی تائید صحیحین میں مروی رافع بن خدیج کی حدیث سے بھی ہوتی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مالِ غنیمت میں ایک اونٹ کے بدلے دس بکریاں تقسیم کیں، یعنی: ایک اونٹ برابر دس بکریوں کے ہے) شوکانی نے ان دونوں حدیثوں میں یہی تطبیق دی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 904
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1502
´قربانی میں اشتراک کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے موقع پر اونٹ اور گائے کو سات آدمیوں کی طرف سے نحر (ذبح) کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1502]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے لیے دیکھئے: حدیث رقم (1501) ان کی حدیث کا تعلق قربانی سے ہے، جب کہ جابر کی حدیث کا تعلق حج و عمرہ کے ہدی سے ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1502