ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی (کہا) میں نے ہشام بن حسان سے سنا وہ ابن سیرین سے خبر دے رہے تھے انھوں نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں اپنی قربانی (کے اونٹوں) کو نحر کیا اور پھر سر منڈوانے لگے تو آپ نے اپنے سر کی دائیں جا نب مونڈنے والے کی طرف کی تو اس نے اس طرف کے بال اتار دیے آپ نے طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا یا اور وہ (بال) ان کے حوالے کر دیے۔پھر آپ نے (سر کی) بائیں جا نب اس کی طرف کی اور فرمایا۔ (اس کے) بالاتاردو۔اس نے وہ بال اتاردیے تو آپ نے وہ بھی ابو طلحہ کو دے دیے اور فرمایا ان (بائیں طرف والے بالوں) کولوگوں میں تقسیم کر دو
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں، اور اپنی قربانیاں نحر کیں تو سر منڈوایا، سر مونڈنے والے کے سامنے اپنی دائیں طرف کی، اس نے اسے مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ کو طلب کیا، اور وہ بال اسے دے دئیے، پھر حجام کے سامنے بائیں طرف کر کے فرمایا: ”مونڈ۔“ اس نے اسے بھی مونڈ دیا، وہ بال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ کو دئیے، اور فرمایا: ”لوگوں میں تقسیم کر دو۔“
لما رمى رسول الله الجمرة نحر نسكه حلق ناول الحالق شقه الأيمن فحلقه ثم دعا أبا طلحة الأنصاري فأعطاه إياه ثم ناوله الشق الأيسر فقال احلق فحلقه فأعطاه أبا طلحة فقال اقسمه بين الناس
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما رمى الجمرة، ونحر نسكه، ناول الحالق شقه الأيمن، فحلقه، ثم ناوله رسول الله صلى الله عليه وسلم شقه الأيسر، فحلقه، ثم ناوله أبا طلحة وأمره أن يقسمه بين الناس
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3155
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: قربانی کے دن حج کرنے والے نے چار کام کرنے ہوتے ہیں، اور ان میں سنت طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مزدلفہ سے آ کر جمرہ عقبہ پر رمی کرے، پھرقربانی کرے، پھر سر منڈوائے یا بال کٹوائے، اس کے بعد مکہ مکرمہ جا کر طواف افاضہ کرے، متمتع اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے گا، مفرد اور قارن اگر طواف قدوم کے بعد سعی کر چکے ہیں، تو انھیں اب سعی کی ضرورت نہیں ہے، اور آئمہ اربعہ کے نزدیک سنت یہی ہے کہ سر منڈوانے والے کے سر کے دائیں جانب سے سر مونڈنے کا آغاز کیا جائے گا، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بائیں جانب سے آغاز منقول ہے، لیکن متأخرین احناف کے نزدیک امام صاحب نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال عظمت و تکریم کے حامل تھے، اس لیے ان کو لوگوں میں بانٹ دیا گیا، لیکن اب یہ مقام کسی کو حاصل نہیں ہے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال عمر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مونڈے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں طرف کے بال دوسرے لوگوں میں بانٹنے کے لیے ابو طلحہ کو دئیے تھے، اور بائیں طرف کے بال ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے لیے دئیے تھے، اس لیے ایک روایت میں اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دینے کا تذکرہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3155
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 171
´جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟` «. . . قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا حَلَقَ رَأْسَهُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعَرِهِ " . . . .» ”. . . ہم سے عباد نے ابن عون کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابن سیرین سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع میں) جب سر کے بال منڈوائے تو سب سے پہلے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال لیے تھے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْمَاءِ الَّذِي يُغْسَلُ بِهِ شَعَرُ الإِنْسَانِ:: 171]
تشریح: سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس حدیث سے انسان کے بالوں کی پاکی اور طہارت بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو تبرک کے لیے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 171
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 171
171. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے موئے مبارک لیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:171]
حدیث حاشیہ: سید المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس حدیث سے انسان کے بالوں کی پاکی اور طہارت بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو تبرک کے لیے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 171
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1981
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔` انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کی، پھر آپ منیٰ میں اپنی قیام گاہ لوٹ آئے، پھر قربانی کے جانور منگا کر انہیں ذبح کیا، اس کے بعد حلاق (سر مونڈنے والے کو بلایا)، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے داہنے حصے کو پکڑا، اور بال مونڈ دیئے ۱؎، پھر ایک ایک اور دو دو بال ان لوگوں میں تقسیم کئے جو آپ کے قریب تھے پھر بایاں جانب منڈوایا اور فرمایا: ”ابوطلحہ یہاں ہیں؟“ اور وہ سب بال ابوطلحہ کو دے دیئے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1981]
1981. اردو حاشیہ: ➊ حجامت کے مسئلے میں بھی شرعی ہدایت یہی ہے کہ پہلے دائیں جانب سے بال کاٹے جائیں۔ ➋ رسول اللہ ﷺ کےبال مبارک بال تھے جو صحابہ میں بطور تبرک متداول رہے۔ ان سے شفا بھی حاصل کی جاتی تھی۔ اور یہ صفت صرف اور صرف آپ ﷺ ہی کے بالوں کوحاصل رہی ہے۔ آج کل کئی مقامات پر سوئے مبارک بیان کیے جاتے ہیں چاہے کہ ان کی موثوق سند پیش کی جائے۔ مگر فی الواقع اس کا پیش کیا جانا ناممکن ہے۔ ➌ حصول تبرک کوئی قیاس اور من پسند مسئلہ نہیں اس کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ مبارک اشیا مبارک مقامات اور مبارک اوقات وہی ہیں جو احادیث صحیحہ میں بیان ہو چکے ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو تبرک کےمعاملے میں متنبہ اور حساس ہونا چاہے۔ یعنی جس بزرگ سمجھ لیا اس کی ہر چیز کو متبرک سمجھنا شروع کردیا یہ یکسر غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے بڑھ کر امتیوں میں کون بزرگ ہو سکتاہے؟کوئی نہیں۔ لیکن صحابہ نے صرف رسول اللہ ﷺ ہی کے بالوں وغیرہ کو متبرک سمجھا اور آپ کے علاوہ حضرت ابوبکر صدیق تک کی کسی چیز کومتبرک نہیں سمجھا۔ اور فہم دین صحابہ ہی کا معتبر ہے نہ کہ آج کل کے شرک وبدعت زدہ لوگوں کا۔ ➍ رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک کی اہمیت کا اندازہ جلیل القدر مخضرم تابعی امام عبیدہ بن عمرو سلمان کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جو امام المجدثین امیر المومنین فی الحدیث حضرت امام بخاری نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں: «لان تكون عندي شعرة منه احب الي من الدنيا ومافيها»(صحيح البخاري، الوضوء، حدیث170) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک موئے مبارک میرے پاس ہو تو یہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ اکبرکبیرا-ہم ان پاکیزہ جذبات واحساسات کی تہہ تک پہنچ سکتے ہیں، نہ ان کی قدرو منزلت کااندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔ یہ معیار کمال درجے کا معیار محبت ہے۔ یا اللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمیں بھی ایسی ہی کمال درجے کی محبت عطا فرما۔آمین۔امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس خوبصورت قول پر جو عمدہ تعلیق لگائی ہے۔ وہ بھی اپنی مثال آپ ہے(تفصیل کےلیے دیکھیئے: (سیراعلام النبلاء جلد4 ص42، 43]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1981
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1254
1254- سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ”جمرہ“ کی رمی کرلی اور قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا دایاں حصہ سر مونڈنے والے کی طرف بڑھایا اور اس نے اسے مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بایاں حصہ اس کی طرف بڑھایا تواس نے اسے بھی مونڈ دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے موئے مبارک سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے اور انہیں یہ ہدایت کی، وہ انہیں لوگوں کے درمیان تقسیم کردیں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1254]
فائدہ: مسلمان زندہ ہو یا مردہ، اس کے بال پاک ہیں، اس کے دلائل درج ذیل ہیں: امام محمد بن سیرین نے عبیدہ سے کہا: کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مبارک ہیں، جو ہمیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ یا ان کے گھر والوں کی طرف سے پہنچے ہیں، تو عبیدہ نے یہ سن کر فرمایا: ´´لان تكون عندي شعرة منه احب الى من الدنيا وما`` ”میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال (بھی) ہوتا تو یہ مجھے دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتا۔ [صحيح البخاري: 170] سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بالوں کو منڈوایا تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے، جنھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کو لیا تھا۔ [صحيح البخاري: 171] ان دونوں حدیثوں پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے: بـاب الـماء الذى يغسل به شعر الانسان ”باب اس پانی کے بارے میں جس کے ساتھ انسان کے بالوں کو دھویا جا تا ہے“۔ (کتاب الوضوء، باب: 33) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی توجیہ بیان کرتے ہوۓ لکھتے ہیں: ´´ان الشـعـر طـاهر والالما حفظوه ولا تمنى عبيدة ان يكون عنده شعرة واحدة مـنـه واذ كـان طـاهـرا فـالماء الذي يغسل به طاهر`` ”بال پاک ہیں، وگرنہ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان کی حفاظت نہ کرتے، اور عبیدہ (تابعی) تمنا نہ کرتے کہ ان کے پاس بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام کا ایک بال ہوتا، جب بال پاک ہیں تو اس پانی میں جس میں ان کو دھویا گیا ہو، وہ بھی پاک ہے“[فتـح البـاري:363/1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: جمہور علماء بھی بالوں کو پاک سمجھتے ہیں، اور یہی ہمارے نزدیک صحیح ہے۔ (فتـح الـبـاری 1 / 364) ام المؤمنین سیدنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال تھے، جسے انہوں نے ایک چھوٹے پیالے میں رکھا ہوا تھا، یہ بال مہندی کی وجہ سے سرخ تھے، جب کسی شخص کو نظر لگ جاتی یا وہ بیمار ہو جاتا تو وہ اپنا پانی کا برتن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیج دیتا، (آپ اس پانی کے برتن میں بال ڈبو دیتیں) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے (بشرطیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کہیں سے مل جائیں)[بـخـاري: 5896 وفتح الباري:353/10] یاد رہے کہ بعض شہروں میں بعض بالوں کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے، جو کہ ثابت نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1252
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6043
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ سرمونڈنے والا آپﷺ کے بال مونڈ رہا تھا اور آپ کےساتھی، آپ کو گھیرے ہوئے تھے اور وہ چاہتے تھے، آپ کا بال کسی آدمی کے ہاتھ میں گرے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6043]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے صحابہ کرام کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت مندانہ تعلق و ربط ثابت ہوتا ہے کہ وہ آپﷺ کے بال بھی زمین پر گرنا گوارا نہیں کرتے تھے، ان کو بھی پیار و محبت سے سنبھال کر رکھتے تھے اور اپنے لیے باعث برکت خیال کرتے تھے، علامہ عینی نے لکھا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنی ٹوپی میں آپ کا بال رکھا ہوا تھا اور جہاد میں اس ٹوپی کو پہن کر جاتے تھے اور بال کی برکت سے، اللہ کی نصرت و مدد کے طالب ہوتے تھے۔ (عمدة القاري، ج: 3 ص 37 طبعہ منیریہ)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6043
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:171
171. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، جب نبی اکرم ﷺ نے اپنا سر منڈوایا تو سب سے پہلے حضرت ابوطلحہ ؓ نے آپ کے موئے مبارک لیے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:171]
حدیث حاشیہ: 1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کیا تھا کہ انسان کے بال بدن سے الگ ہونے کے بعد بھی پاک ہیں، اگر پانی میں گرجائیں تو پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں انھوں نے حضرت عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ کا قول پیش کیا تھا کہ ان سے سوت اور رسیاں بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ احناف کے ہاں بھی بال پاک تو ہیں لیکن ان کی حرمت وتعظیم کی بنا پر ان کے استعمال کی اجازت نہیں۔ بالوں کی طہارت کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اب ایک مرفوع روایت پیش کی ہے۔ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کے تبرکات کا ذکر ہے۔ استدلال بایں طور ہے کہ اگر بال ناپاک ہوتے تو اسے بطور تبرک کیوں رکھا جاتا، لیکن اس استدلال پر اشکال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے عام انسانی بالوں کی طہارت کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے کیونکہ دعویٰ عام اوردلیل خاص ہے۔ اس بنا پر یہ تقریب ناتمام ہے۔ لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مذاقِ استدلال کے اعتبار سے یہ درست ہے کیونکہ یہاں دو باتیں ہیں، ایک بالوں کی طہارت اور دوسرا ان سے تبرک حاصل کرنا۔ اب یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی طہارت، آپ کی خصوصیت ہے، اس خصوصیت کے لیے دلیل درکار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کے وقت بھی اس خصوصیت کا ذکر نہیں فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انسانوں کے بال جسم سے الگ ہو کر پاک رہتے ہیں۔ رہا تبرک کا معاملہ تو مخصوص تبرک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص رہے گا۔ 2۔ مدعیان تدبر کی طرف سے احادیث میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے یہ دعویٰ کیا گیا ہے: ”امام صاحب نے جو باب باندھا تھا وہ اس پانی کے بارے میں تھا جس سے بال دھوئے جائیں یا جس میں کتے نے منہ ڈال دیا ہو، روایتوں میں اس طرح کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ “(تدبر حدیث: 274/1) پہلی بات تو یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان اشیاء سے متعلق جو وقتاً فوقتاً پانی میں گرتی رہتی ہیں شرعی حکم بتانا ہے کہ ایسی چیزیں پانی میں گرا کر اسے نجس کردیتی ہیں یا نہیں؟ یہاں پانی کا ذکرمحل وقوع کے اعتبار سے تبعاً آگیا ہے، پانی کے مسائل بیان کرنا اصل مقصود نہیں کیونکہ پانی سے متعلقہ مسائل آئندہ بیان کریں گے۔ چونکہ عام طور پر یہ چیزیں پانی میں گرتی ہیں اس لیے یہاں پانی کا ذکر کر دیا ورنہ یہ چیزیں پانی کی طرح کھانے کی چیزوں یا دودھ وغیرہ میں بھی گرتی رہتی ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں بالوں کامسئلہ بیان کیا ہے، خواہ وہ پانی میں گریں یاکھانے میں۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانی میں بالوں کے گرنے یا ڈالنے کا ذکر دوسری روایات میں موجود ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن موہب کہتے ہیں کہ مجھے میرے گھر والوں نے پانی کا ایک پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بھیجا کیونکہ ان کے پاس ایک خوبصورت چاندی کی ڈبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے۔ آپ انھیں پانی میں ڈال کر ہلاتیں پھر وہ پانی نظر بد یا بخار والے مریض کو پلایا جاتا۔ میں نے اس وقت ڈبیہ میں سرخ رنگ کے موئے مبارک دیکھے تھے۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5896) باقی رہا کتے کا پانی میں منہ ڈالنے کا معاملہ، تو اس پرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب در باب کے طور پرآئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےاور اس کے متعلق روایات بھی ذکر کی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کے متعلق اس طرح کا والہانہ اظہار عقیدت حضرات ”تدبر“ کی مزعومہ عقلیت پسندی کے خلاف تھا، اس لیے حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر”جذباتی اور جوشیلے“ ہونے کی پھبتی کسی ہے کیونکہ انھوں نے آپ کے بالوں کو محفوظ کیا تھا۔ اور جن روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں بال تقسیم کرنے پر مامور کیا تھا اور انھیں موئے مبارک اس مقصد کے لیے عطا فرمائے تھے وہ تمام روایات ان کے نزدیک محل نظر ہیں۔ (تدبرحدیث: 273/1) 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں سے یہ حسن عقیدت تنہا ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہ تھی بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسی قسم کے جذبات تھے چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جبکہ حجام آپ کے سرمبارک کو صاف کررہا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ کے گرد تھے، وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال زمین پر گرنے کے بجائے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔ “(صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6043(2325) بلکہ عروہ بن مسعود کا بیان اس سے بھی زیادہ حیران کن ہے کیونکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی محبت وعقیدت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے ہیں تو آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین زمین پر گرنے والے پانی کو لینے دوڑ پڑتے ہیں جب آپ لعاب دہن تھوکتے ہیں توجلدی سے اسے اپنے ہاتھوں اورچہروں پرمل لیتے ہیں اور جب کبھی آپ کا موئے مبارک گرتا ہے تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ “(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2731،2732، و مسند احمد: 324/4) اس مسئلہ کی مزید تفصیل كتاب اللباس میں آئے گی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 171