سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کنکریلی زمین میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے (یعنی وہاں منزل کی ہوئی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جس نیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے) آپ جانتے ہیں کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہئے) تو میں نے کہا اے لوگو! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہئے۔ کیونکہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا، امیرالمؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلَّـہِ ۚ)) یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔ (آپ عمرہ اورحج کے درمیان حلال نہیں ہوئے)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے، آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ”کیا حج کا احرام باندھا ہے؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے کیسے تلبیہ کہا ہے؟“ میں نے کہا، حاضر ہوں (لبیک) اس اہلال (احرام) کی نیت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احرام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اچھا کیا ہے، بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کرو اور احرام ختم کر کے حلال ہو جاؤ۔“ میں نے بیت اللہ، اور صفا و مروہ کا طواف کیا، پھر (اپنے قبیلہ) بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں، پھر میں نے حج کا احرام باندھا، اور میں لوگوں کو اس کا فتویٰ دیا کرتا تھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور آ گیا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اے ابو موسیٰ! یا اے عبداللہ بن قیس! اپنے بعض فتوؤں سے رک جاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا فرمان جاری کیا ہے، تو حضرت ابو موسیٰ نے کہا، اے لوگو! جسے ہم نے فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا توقف کرے، کیونکہ امیر المؤمنین آ رہے ہیں، انہیں کی اقتدا کرنا (پیروی کرنا)، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے، تو میں نے ان سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے فرمایا، اگر ہم کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوں، تو وہ ہمیں (حج اور عمرہ الگ الگ) پورا کرنے کا حکم دیتی ہے، اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک حلال نہیں ہوئے، جب تک ہدی اپنے محل پر نہیں پہنچ گئی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نحر سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔