الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْعُمْرَةِ
کتاب: عمرہ کے مسائل کا بیان
11. بَابُ مَتَى يَحِلُّ الْمُعْتَمِرُ:
11. باب: عمرہ کرنے والا احرام سے کب نکلتا ہے؟
حدیث نمبر: 1795
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" قَدِمْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَطْحَاءِ وَهُوَ مُنِيخٌ، فَقَالَ: أَحَجَجْتَ؟ , قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِمَا أَهْلَلْتَ؟ , قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَحْسَنْتَ، طُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَحِلَّ، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ، فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ حَتَّى كَانَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ، فَقَالَ: إِنْ أَخَذْنَا بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُنَا بِالتَّمَامِ، وَإِنْ أَخَذْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر بن محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طارق بن شہاب نے بیان کیا، اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطحاء میں حاضر ہوا آپ وہاں (حج کے لیے جاتے ہوئے اترے ہوئے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارا حج ہی کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور احرام کس چیز کا باندھا ہے؟ میں نے کہا میں نے اسی کا احرام باندھا ہے، جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اچھا کیا، اب بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کر لے پھر احرام کھول ڈال، چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالیں، اس کے بعد میں نے حج کا احرام باندھا۔ میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد) اسی کے مطابق لوگوں کو مسئلہ بتایا کرتا تھا، جب عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر عمل کرنا چاہے کہ اس میں ہمیں (حج اور عمرہ) پورا کرنے کا حکم ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا چاہیے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا تھا جب تک ہدی کی قربانی نہیں ہو گئی تھی۔ لہٰذا ہدی ساتھ لانے والوں کے واسطے ایسا ہی کرنے کا حکم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعُمْرَةِ/حدیث: 1795]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريطف بالبيت وبالصفا والمروة ثم حل
   صحيح البخاريطف بالبيت وبالصفا و المروة ثم أحل
   صحيح مسلمطف بالبيت وبالصفا والمروة وأحل

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 1795 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1795  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان کو بایں طور ثابت کیا ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے فرمایا:
میں نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی۔
اس کے بعد قبیلۂ قیس کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ احرام کی پابندی سے آزادی صفا اور مروہ کی سعی کے بعد ہے۔
امام بخاری کا بھی یہی مقصود ہے کہ بیت اللہ کے طواف کے بعد نہیں بلکہ صفا اور مروہ کی سعی کے بعد عمرہ کرنے والا حلال ہو گا لیکن امام بخاری کے شیخ اسحاق بن راہویہ کا موقف اس کے خلاف ہے۔
امام بخاری نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی بلکہ کتاب و سنت کی بالادستی کو مقدم رکھا ہے۔
(فتح الباري: 777/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1795   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4397  
´حجۃ الوداع کا بیان`
. . . چنانچہ میں بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کر کے قبیلہ قیس کی ایک عورت کے گھر آیا اور انہوں نے میرے سر سے جوئیں نکالیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/ بَابُ حَجَّةُ الْوَدَاعِ:/ ح: 4397]
فوائد و مسائل
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
ان کا کہنا ہے کہ عورت اور مردکا ایک دوسرے سے ایسا اختلاط جائز ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب نے تین راویات لکھ کے اہنی دانست میں ثابت کیا کہ:
غیر محرم عورت کسی مرد کو اور مرد اس کو چھو سکتے ہیں -- بخاری کی دو روایات اور مسلم کی ایک روایت ہے -
لیجئے ان کی اپنی پوسٹ سے راویت کا ترجمہ پڑھئے:
.............
عرض ہے کہ ضرورت کے تحت ایسا اختلاط جائز و مباح ہے اور اس پر یہ دلائل موجود ہیں:
1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی کام کے لئے جہاں چاہتی لے جاتی۔ [صحيح بخاري، كتاب الادب، باب الكبر، حديث 6072]
2) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا دورانِ حج کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب حجة الوداع، حديث 4397]
3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو سر پر وزن لادا ہوا آتے دیکھ کر اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھایا تھا۔ [صحيح مسلم رقم 2182، دارالسلام 5692]
مشہور محدث و امام نووی نے اس واقعہ سے استدلال لیتے ہوئے باب باندھا ہے:
«باب جواز إرداف المرأة الأجنبية إذا أعيت فى الطريق»
یعنی راستے میں تھک جانے والی اجنبی عورت کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھانے کا جواز
لہٰذا کریم اور اوبر سروس کا استعمال بلاشبہ مباح اور جائز ہے۔ «هٰذا ما عندي والله اعلم»
.......................
جی یہ تھا ان کا موقف۔۔۔۔
پہلی راویت میں لکھا ہے کہ مدینے کی لونڈیوں سے کوئی لونڈی ...اب ترجمہ کرنے والے کی مہارت دیکھیے کہ آسان سا ترجمہ (مدینے کی لونڈیوں سے ایک لونڈی) بھی کیا جا سکتا تھا ..لیکن اس طرح مقصد حاصل نہیں ہوتا تھا - کیونکہ اس طرح واضح ہو جاتا کہ وہ ایک لونڈی ایسا کیونکر کرتی تھی ... اور وہی ایسا کیوں کرتی تھی .اب ایک i بجائے کوئی لونڈی کرنے سے یہ تاثر پڑا کہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی ایسا کر لیتی تھی .. روایت کے الفاظ ہیں:
«ان كانت الامه من اماء اهل المدينه»
اور امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے:
«باب الكبر» یعنی تکبر کی برائی ..
مطلوب معنی یہ ہے کہ عورت پاگل تھی پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اہمیت دیتے۔
.دوستو! اسی لونڈی کا تذکرہ ایک اور حدیث میں بھی ہے جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک کھڑی رہی اور آپ نے اس سے ہاتھ نہیں چھڑایا .... جی ہاں یہی حدیث ہے جس سے غامدی صاحب نے بھی استدلال کرتے ہوے عورت اور مرد کا مصافحہ جائز قرار دیا تھا .....
دوستو! مدینے میں موجود یہ لونڈی اصل میں ذہنی طور پر معذور یا مجذوب تھی اور اس کی اس حالت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کے سبب اس سے ہاتھ نہ چھڑایا ... یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ پہلی حدیث میں جس میں وہ لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی نہ کسی کام سے لے جاتی ....کیا عنوان امام بخاری رحمہ اللہ نے تکبر سے اعراض باندھا ہے .. یعنی اس کو آپ کی نرمی اور شفقت اور عدم غرور پر محمول کیا ہے ...
------------------

دوسری حدیث جو سیدنا ابو موسی اشعری والی ہے خود صاحب پوسٹ کے عنوان سے ہی نہیں ملتی کہ مجبوری میں غیر محرم سے اختلاط کیا جا سکتا ہے ... سوال یہ ہے سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کیا مجبوری تھی .؟..
کیا جوئیں نکلوانا بھی کوئی ایسی مجبوری ہو جاتی ہے کہ غیر محرم سے یہ کام کروایا جائے؟
... اصل قصہ جو چھپا لیا گیا کہ ہے وہ یہ تھا کہ خاتون ان کی رضاعی خالہ تھیں ... دوستو! ایک حدیث کو پکڑ لیا جاتا ہے، اپنی مرضی کا مفھوم پیش کیا جاتا ہے، جب کہ بسا اوقات اس حدیث سے محدثین کوئی اور مفھوم مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ان کی مراد جو مفھوم ہوتا ہے، تو ضرورت کے واسطے وہ مختصر حدیث لے کے آتے ہیں ..جب کہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس "اعتراض " کی صورت میں مکمل حدیث پیش کی جا سکتی ہے یا دوسری حدیث جو اس اعتراض کو رفع کرتی ہے اس کو بیان کیا جائے گا ...مگر آجکل کے دانش ور کبھی لاعلمی سے اور کبھی مجرمانہ طور پر ادھوری احادیث لے کے آتے ہیں اور ہمارے معصوم دوست الجھ کے رہ جاتے ہیں - سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی یہی معاملہ ہے ...کہ دوسری روایت ان کے اس عورت سے رشتے کو واضح کر رہی تھی لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا - ظاہر ہے پھر "تھرتھلی " کس طرح مچتی، اور ذہنوں میں شکوک کہاں سے انڈیلے جاتے۔
------------------

تیسری راویت کا بھی یہی معاملہ ہے ...کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر محرم خاتون کو اس طرح اونٹ پر بٹھا لیں کہ اس کا جسم آپ سے چھو جائے، بھلے وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹی اور رشتے میں سالی ہی تھیں ..جب کہ انہی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی سگی چھوٹی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت ہے کہ:
اللہ کی قسم نبی کریم نے کبھی بیعت کے واسطے بھی کسی غیر محرم عورت کو نہیں چھوا۔
دوستو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر ایک کجاوہ دھرا ہوتا تھا اس کے پیچھے باقاعدہ ٹیک کے لیے اونچی لکڑی ہوتی تھی ...
یوں اگر کوئی پیچھے بٹھ بھی جائے، بیچ میں لکڑی کی رکاوٹ موجود رہتی تھی ... جیسا کی بخاری حدیث نمبر [5967] میں، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کی کفیت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں:
«ليس بيني و بينه الا آخره الرحل»
میرےاور آپ کے درمیان سواے کجاوۓ کی لکڑی کے بیچ کچھ نہ تھا۔
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے کہ جسم میں کوئی لوہے کی کنگھی داخل ہو ے زخمی کر دے۔ اب خود ہی سوچئے کہ اس تعلیم دینے کے بعد کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود آپ ہی اس کا اہتمام نہ کریں۔
جہاں تک تعلق ہے امام نووی رحمہ اللہ کے کے باب کا جو انہوں نے حدیث پر باندھا ہے تو اس سے کس کو انکار ہے .. بنا چھوے، اور جسم ملائے کسی خاتون کو ساتھ بٹھا لینا جائز ضرور ہے .. لیکن یاد رکھیے اس جواز کی صورت وہی ہو گی جو دوسری احادیث کی بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو گی۔۔۔۔
ابوبکر قدوسی -
   محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4397  
4397. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں بطحائے مکہ میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: "تم نے حج کا احرام باندھا ہے؟" میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی؟" میں نے کہا: لبیک کہتے وقت میں نے نیت کی تھی کہ وہی احرام باندھتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ آپ نے فرمایا: "اچھا، بیت اللہ کا طواف کرو، صفا و مروہ کی سعی کرو، پھر احرام کھول دو۔" چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4397]
حدیث حاشیہ:
اسی قسم کے احرام کو حج تمتع کا احرام کہا جاتا ہے۔
آپ کا احرام حج قران کا تھا مگر ان کے لیے آپ نے حج تمتع ہی کو آسان خیال فرمایا۔
اب بھی حج تمتع ہی بہتر ہے کیونکہ اس میں حاجی کو آسانی ہوجاتی ہے۔
بعض لوگوں نے حج بدل والوں کے لیے حج قران کی شرط لگائی ہے جس کی دلیل نہیں ملی، واللہ اعلم با لصواب۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4397   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4397  
4397. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں بطحائے مکہ میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: "تم نے حج کا احرام باندھا ہے؟" میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: "احرام باندھتے وقت کیا نیت کی تھی؟" میں نے کہا: لبیک کہتے وقت میں نے نیت کی تھی کہ وہی احرام باندھتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ کا ہے۔ آپ نے فرمایا: "اچھا، بیت اللہ کا طواف کرو، صفا و مروہ کی سعی کرو، پھر احرام کھول دو۔" چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4397]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان سے اس طرح مناسبت ہے کہ یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔
جب حضرت موسیٰ اشعری ؓ یمن سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ اس وقت بطحائے مکہ، یعنی خیف بنو کنانہ میں تشریف فرماتھے۔
چونکہ ان کے پاس قربانی نہ تھی، اس لیےرسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کے طواف اور صفا مروہ کی سعی کے بعد حلال ہوجائیں، چنانچہ انھوں نے تعمیل ارشاد کرتے ہوئے صفا مروہ کی سعی کے بعد احرام کھول دیا اور اپنی عزیزہ کے ہاں گئے وہاں کنگھی پٹی کی۔

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، اس لیے آپ احرام کی پابندیوں سے آزاد نہ ہوئے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4397