عبد الرحمٰن ابن سلمہ ماجثون نے عبد الرحمٰن بن قاسم سے انھوں نے اپنے والد (قاسم) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی۔ (انھوں نے) کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور حج ہی کا ذکر کر رہے تھے۔جب ہم سرف کے مقام پر پہنچے تو میرے ایام شروع ہو گئے۔ (اس اثنا میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے (حجرے میں) داخل ہو ئے تو میں رو رہی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمھیں کیا رلا رہا ہے؟ میں نے جواب دیا، اللہ کی قسم! کاش میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی۔آپ نے پوچھا: تمھارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ کہیں تمھیں ایام تو شروع نہیں ہو گئے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "یہ چیز تو اللہ نے آدم ؑ کی بیٹیوں کے لیے مقدر کر دی ہے۔تم تمام کام ویسے کرتی جاؤ جیسے (تمام) حاجی کریں مگر جب تک پاک نہ ہو جاؤ بیت اللہ کا طواف نہ کرو۔انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے کہا: جب میں مکہ پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے فرمایا: " تم اسے (حج کی نیت کو بدل کر) عمرہ کر لو۔جن کے پاس قربانیا ں تھیں ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (اسی کے مطا بق عمرے کا) تلبیہ پکارنا شروع کر دیا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا اور قربانیاں (صرف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و عمر اور (بعض) اصحاب ثروت رضوان اللہ عنھم اجمعین (ہی) کے پاس تھیں۔جب وہ چلے تو انھوں نے (حج) کا تلبیہ پکارا۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: جب قر بانی کا دن آیا تو میں پاک ہو گئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تو میں نے طواف (افاضہ) کر لیا۔ (انھوں نے) کہا: ہمارے پاس گا ئے کا گو شت لا یا گیا میں نے پو چھا: یہ کیا ہے؟ انھوں (لا نے والوں) نے جواب دیا کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گا ئے کی قر بانی دی ہے۔جب (مدینہ کے راستے منیٰ کے فوراً بعد کی منزل) محصب کی رات آئی تو میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول! لوگ حج اور عمرہ (دونوں) کر کے لوٹیں اور میں (اکیلا) حج کر کے لوٹوں؟ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے بھائی) عبد الرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا انھوں نے مجھے اپنے اونٹ پر ساتھ بٹھایا۔(انھوں نے) کہا: مجھے یا د پڑ تا ہے کہ میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی (راستے میں) میں اونگھ رہی تھی اور میرا منہ (بار بار) کجاوے کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا تھا حتیٰ کہ ہم تنعیم پہنچ گئے۔پھر میں نے وہاں سے اس عمرے کے بدلے جو لوگوں نے کیا تھا (اور میں اس سے محروم رہ گئی تھی) عمرے کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ پکارا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہمیں صرف حج پیش نظر تھا، حتی کہ ہم مقام سرف پر پہنچے تو مجھے حیض شروع ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، کیوں رو رہی ہو؟ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! میری خواہش ہے کہ میں اس سال حج کے لیے نہ نکلتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے کیا ہوا؟ شاید تمہیں حیض شروع ہو گیا ہے؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایسا معاملہ ہے جو اللہ نے آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لازم ٹھہرایا ہے، جو کام حاجی کرتے ہیں، تم بھی کرو، صرف اتنی بات ہے کہ جب تک پاک نہ ہو جاؤ، بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔“ تو جب میں مکہ پہنچی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا: ”اپنے حج کو عمرہ بنا ڈالو۔“ تو تمام لوگ ان کے سوا جن کے پاس ہدی تھی، حلال ہو گئے اور ہدی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمر اور اصحاب ثروت رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس تھی، پھر جب وہ منیٰ کی طرف چلے تو انہوں نے احرام باندھ لیا تو جب قربانی کا دن آ گیا، میں پاک ہو گئی، (حیض آنا بند ہو گیا) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کا حکم دیا، پھر ہمارے پاس گائے کا گوشت لایا گیا تو میں نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کی طرف سے ہدی میں گائے ذبح کی ہے، جب مَحصَب کی رات ہوئی، میں نے عرض کیا، لوگ الگ حج اور عمرہ کر کے لوٹیں گے اور میں صرف حج کر کے لوٹوں گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا، اس نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے سوار کر لیا، مجھے اچھی طرح یاد ہے، میں نو عمر لڑکی تھی، مجھے اونگھ آ جاتی تو میرا چہرہ پالان کی پچھلی لکڑی سے ٹکراتا، حتی کہ ہم تنعیم پہنچ گئے، میں نے وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا جو لوگوں کے اس عمرہ کی جگہ تھا، جو انہوں نے کیا تھا۔