حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا۔یاکسی اور شخص سے پوچھا اور وہ سن رہے تھے:۔"اےفلاں!کیا تم نے اس مہینے کے وسط میں روزے رکھے ہیں؟"اس نے جواب دیا نہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"تو جب (رمضان مکمل کرکے) روزے ترک کروتو (ہرمہینے) دو دن کے روزے رکھتے رہو۔"
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا کسی اور شخص سے پوچھا، جبکہ وہ سن رہے تھے: ”اے فلاں شخص! کیا تم نے اس ماہ کے آخر میں روزے رکھے ہیں؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب افطار کرو تو روزے اور رکھو۔“(آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سوال شعبان کے روزوں کے بارے میں سوال کیا تھا)-
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2745
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جمہور اہل لغت اور اہل حدیث کے نزدیک (سَرَرُ) سے مراد مہینہ کے آخری ایام ہیں، کیونکہ ان میں چاند چھپ جاتا ہے، بعض کےنزدیک اس سے مراد مہینہ کے ابتدائی دن ہیں اور بعض کے نزدیک یہ (سرة السئ)(اس کا وسط ودرمیان) سے ماخوذ ہے اور ایام ابیض مراد ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2745
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2328
´رمضان کے استقبال کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے پوچھا: ”کیا تم نے شعبان کے کچھ روزے رکھے ہیں ۱؎؟“، جواب دیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب (رمضان کے) روزے رکھ چکو تو ایک روزہ اور رکھ لیا کرو“، ان دونوں میں کسی ایک راوی کی روایت میں ہے: ”دو روزے رکھ لیا کرو۔“[سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2328]
فوائد ومسائل: (1) یہ حدیث بظاہر گزشتہ حدیث سے متعارض ہے جس میں ہے کہ رمضان شروع ہونے سے پہلے ایک دو دن کے روزے مت رکھو۔ مگر ان میں جمع کی صورت یہ ہے کہ یہ رخصت اور تاکید اس شخص کے لیے ہے جس نے کسی روزے کی نذر مانی ہو یا وہ پہلے سے خاص دن کے روزے رکھنے کا عادی ہو تو اسے چاہیے کہ حسب معمول اپنے روزے رکھے۔ مگر کوئی سابقہ عادت یا نذر کے بغیر بطور نفل کے استقبالی روزہ رکھنا چاہیے تو اجازت نہیں ہے۔
(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شخص کو رمضان کے بعد ایک یا دو روزے رکھنے کی تاکید فرمائی، وہ شخص مہینے کے آخر میں روزے رکھا کرتا تھا، لیکن اس نے شعبان کے آخر میں اس لیے روزے چھوڑ دیے تھے کہ کہیں استقبالِ رمضان کے ذیل میں نہ آ جائیں جو ممنوع ہیں۔
(3) لفظ (سَرَر) کے مختلف معانی مندرجہ ذیل روایت کے بعد مذکور ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2328
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1983
1983. حضرت عمران بن حصین ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ان سے سوال کیا۔ یا کسی اورشخص سے آپ نے دریافت کیا جبکہ حضرت عمران ؓ سن رہے تھے۔ آپ نے فرمایا: ”اے ابو فلاں! کیا تو نے اس مہینے کے آخر میں روزے نہیں رکھے؟“۔۔۔ ابو نعمان نے کہا کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے ماہ رمضان کے متعلق دریافت کیا۔۔۔ اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”جب تم رمضان کے روزوں سے فارغ ہوجاؤ تو دو دن روزے رکھ لینا۔“(راوی حدیث) حلت نے رمضان کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ امام بخاری ؒ کہتے ہیں کہ ثابت نے مطرف سے، انھوں نے حضرت عمران بن حصین ؓ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کیا تو نے شعبان کے آخر میں روزے نہیں رکھے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1983]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ نے عنوان میں مطلق طور پر مہینے کا آخر کا ذکر کیا ہے جبکہ حدیث میں ماہ شعبان کے آخر کار ذکر ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک مطلق طور پر ہر مہینے کے آخر میں روزہ رکھنا مشرو ع ہے تاکہ انسان کو اس کی عادت پڑ جائے۔ جبکہ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رمضان سے پہلے ایک دو دن کا روزہ رکھنا منع ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب بطور استقبال رکھے جائیں اگر استقبال کی نیت نہ ہو بلکہ انسان کی عادت ہو تو شعبان کے آخر میں روزے رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1983