یحییٰ بن یحییٰ، مالک ابن شہاب، حضرت ابو عبید مولی بن ازہر سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں عید کے دن حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا تو آپ آئے اور نماز پڑھی پھر نماز سے فارغ ہوکر لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا کہ یہ وہ دن ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک وہ دن ہے کہ جس دن تم افطار کرتے ہو اور دوسرا وہ دن ہے کہ جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اقتداء میں پڑھی وہ تشریف لائے نماز پڑھائی پھر نماز سے فارغ ہو کر لوگوں کو خطاب فرمایا اور کہا یہ دو دن وہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک وہ دن جو تمھارے روزے چھوڑنے کا دن ہے اور دوسرا وہ دن ہے جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2671
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوا یوم الفطر کا روزہ اس لیے منع ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے رمضان کے بعد ”فطر کا دن“ یعنی روزہ نہ رکھنے اور کھانے پینے کا دن قراردیا ہے اس لیے اس دن روزہ رکھنے میں منشاء الٰہی کی مخالفت ہے اور یوم النحر کا روزہ اس لیے منع کیاکہ وہ قربانی کاگوشت کھانے کا دن ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ ہے کہ اس دن جو قربانیاں اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کے حصول کے لیے کی جائیں، اس کے بندے ان قربانیوں کا گوشت، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ضیافت سمجھ کر خوش خوش کھائیں اور وہ انسان بلاشبہ بڑا متکبر اور نمک حرام ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی عام دعوت کے دن، دانستہ روزہ رکھ لے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2671
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 219
´نماز عید سے پہلے خطبہ نہیں دینا چاہئے` «. . . ثم شهدت العيد مع على بن ابى طالب وعثمان محصور فجاء فصلى ثم انصرف فخطب . . .» ”. . . پھر میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ کی نماز پڑھی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ محاصرے میں تھے انہوں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) نے آ کر نماز پڑھائی پھر فارغ ہو کر خطبہ دیا . . .“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 219]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1990، ومسلم 1137، من حديث مالك به]
تفقه ➊ عید کی نماز کے بعد خطبہ عید مسنون ہے لہٰذا نماز عید سے پہلے خطبہ نہیں دینا چاہئے۔ ➋ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا تھے۔ ➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبے سے پہلے نماز عید پڑھاتے تھے۔ اس مفہوم کی روایات درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے بھی مروی ہیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم 885/2، [2045] نيز ديكهئے صحيح البخاري 977] جابر بن عبد اللہ الانصاری [صحيح بخاري: 961 وصحيح مسلم: 885] عبداللہ بن عمر [صحيح بخاري: 957، صحيح مسلم: 888] ابوسعید الحذری [صحيح بخاري: 956، صحيح مسلم: 889] براء بن عازب [صحيح بخاري: 983، وصحيح مسلم: 1961 [5075] ] انس بن مالك [صحيح بخاري: 984، صحيح مسلم: 1962 [5080] ] جندب [صحيح بخاري: 985، صحيح مسلم: 1960 [5067] ] رضي الله عنهم اجمعين۔ معلوم ہوا کہ یہ حدیث متواتر ہے پھر بھی بعض لوگ ایسے تھے جو نماز عید سے پہلے خطبہ دیتے تھے۔ ان لوگوں کا یہ عمل احادیث صحیحہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے باطل ہے۔ ➍ اگر جمعہ اور عید اکٹھے ہو جائیں یعنی جمعہ کے دن عید ہو تو جمعہ میں اختیار ہے چاہے جمعہ پڑھے یا نماز ظہر ادا کرے۔ ایاس بن ابی رملہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاں حاضر تھا اور وہ سیدنا زید بن ارقم سے پوچھ رہے تھے کہ کیا تمہاری موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کبھی دو عیدیں (جمعہ اور عید) ایک ہی دن میں اکٹھی ہوئی ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! آپ (معاویہ رضی اللہ عنہ) نے پوچھا: تو آپ نے کیسے کیا؟ (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) عید کی نماز پڑھی پھر جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا: «مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّيْ» جو پڑھنا چاہتا ہے پڑھ لے۔ [سنن ابي داؤد: 1070، وسنده حسن، سنن النسائي: 1592، سنن ابن ماجه: 1310] یاد رہے کہ نماز ظہر کی ادائیگی اسی طرح فرض ہے جس طرح عام دنوں میں ہے لہٰذا بعض الناس کا یہ کہنا کہ ”عید اور جمعہ اکٹھے ہونے کی صورت میں نماز ظہر میں بھی اختیار ہے، چاہے پڑھو یا نہ پڑھو۔“ صحیح نہیں ہے۔ ➎ جمعہ اور عید ایک ہی دن میں دو عیدوں کا اجتماع ہے اور باعث مزید مسرت و سعادت ہے، اسے نامبارک سمجھنا جہالت و بدعت ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 73
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1722
´عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔` ابوعبید (سعد بن عبید الزہری) کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید میں حاضر ہوا تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز عید شروع کی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ایک تو عید الفطر، دوسرے عید الاضحی، رہا عید الفطر کا دن تو وہ تمہارے روزے سے افطار کا دن ہے، اور رہا عید الاضحی کا دن تو اس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1722]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) نماز عید کا خطبہ نماز کے بعد ہو تا ہے (2) عید کے خطبے میں عید کے متعلق مسائل بیا ن کرنے چاہیں۔
(3) عیدین کے دن روزہ رکھنا منع ہے کیو نکہ اس دن روزہ رکھنا گویا مسلمانو ں کی اجتماعی خوشی سے لاتعلق ہونے کا اظہا ر ہے جو ایک مسلمان کا کام نہیں۔
(4) عید الفطر کے دن روزہ رکھنے سے عملی طور پر روزوں سے فا رغ نہ ہو نے کا اظہار ہو تا ہے اس طر ح گویا کہ اللہ کے مقرر کردہ فرض میں خود ساختہ اضافہ کر دیا جاتا ہے جو بہت برا فعل ہے (5) جس طرح قربانی کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اس طرح قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ کچھ کھا پی لینا بھی اللہ کی نعمت کا شکر ہے اس دن روزہ رکھنا اس شکر سے پہلوتہی اور اللہ کی نعمت کی نا شکر ی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1722
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 771
´عیدالفطر اور عید الاضحی کے دن روزہ رکھنے کی حرمت کا بیان۔` عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ کے مولیٰ ابو عبید سعد کہتے ہیں کہ میں عمر بن الخطاب رضی الله عنہ کے پاس دسویں ذی الحجہ کو موجود تھا، انہوں نے خطبے سے پہلے نماز شروع کی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دو دنوں میں روزہ رکھنے سے منع فرماتے سنا ہے، عید الفطر کے دن سے، اس لیے کہ یہ تمہارے روزوں سے افطار کا دن اور مسلمانوں کی عید ہے اور عید الاضحی کے دن اس لیے کہ اس دن تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاؤ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 771]
اردو حاشہ: 1؎: علماء کا اجماع ہے کہ ان دونوں دنوں میں روزہ رکھنا کسی بھی حال میں جائز نہیں خواہ وہ نذر کا روزہ ہو یا نفلی روزہ ہو یا کفارے کا یا ان کے علاوہ کوئی اور روزہ ہو، اگر کوئی تعیین کے ساتھ ان دونوں دنو ں میں روزہ رکھنے کی نذرمان لے تو جمہور کے نزدیک اس کی یہ نذر منعقد نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی قضا اس پر لازم آئے گی اور امام ابو حنیفہ کہتے ہیں نذر منعقد ہو جائے گی لیکن وہ ان دونوں دنوں میں روزہ نہیں رکھے گا، ان کی قضا کرے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 771
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:8
ابوعبید بیان کرتے ہیں: میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ عید کی نماز میں شریک ہوا انہوں نے خطبہ دینے سے پہلے نماز ادا کی پھر یہ بات بیان کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو دنوں کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ عید الفطر کا دن اور عید الاضحیٰ کا دن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر: 8]
فائدہ: اس حدیث مبارکہ میں عید کے دن روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے، اس کی اہم وجوہات میں سے چند ایک یہ ہیں: (الف): یہ دونوں دن خوشی کے ہیں۔ (ب) عید الفطر کا دن روزوں کے اختتام پر آ تا ہے، اگر کوئی اس دن بھی روزہ رکھے گا تو گویا وہ اختتام رمضان کو تسلیم نہیں کرتا بلکہ اس پر اضافہ کر رہا ہے۔ (ج): عیدالاضحیٰ کے دن قربانی کی جاتی ہے، اور قربانی کا گوشت وافر موجود ہوتا ہے، اس گوشت سے کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر ادا کرنے کے مترادف ہے، اس لیے اس دن بھی روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ (د): اہم بات یہ ہے کہ مسلمان پر اتباع فرض ہے، چاہے کسی کام کی حکمت معلوم ہو یا نہ ہو۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر عید کے دن جمعہ بھی ہو تو خطیب جمعہ کا خطبہ دے گا اور عامۃ الناس کو رخصت ہے، جو پڑھنا چاہیں پڑھ لیں اور جو نہ پڑھنا چاہیں وہ نہ پڑھیں، اگر تمام محلے والے اتفاق کر لیں کہ ہم جمعہ ادا نہیں کریں گے، تب خطیب بھی جمعہ کا خطبہ نہ دے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کے دن عید آئی تو انہوں نے عید پڑھائی اور جمعہ نہ پڑھایا، اس واقعہ کی خبر جب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو انہوں نے فرمایا: ان کا یہ عمل سنت کے موافق ہے۔ (اس کو ابن خزیمہ (1465) نے صحیح اور حاکم (296/1) نے علی شرط الشیخین کہا ہے)، نیز دیکھیں: [البدر المنير: 106/5، القول المقبول، ص: 619ء 620] ، اس صورت میں نماز جمعہ نہ پڑھنے والے نماز ظہر ادا کریں گے۔ اس حدیث میں ہے کہ قربانی کا گوشت تین دنوں سے اوپر کھانا منع ہے، یاد رہے کہ پہلے یہی حکم تھا، لیکن بعد میں اس کی اجازت مل گئی تھی، اور پہلا حکم منسوخ ہو گیا تھا، جیسا کہ امام حمیدی نے خود اس کی وضاحت کر دی ہے، اس کی مزید وضاحت صحيح مسلم (1972) میں موجود ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 8
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1990
1990. حضرت ابوعبید مولی ابن ازہر سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ میں عید کے دن حضرت عمر ؓ کے پاس تھا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے دو دنوں میں روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے: ایک تمہارا روزوں کو افطار کرنے کا دن (عیدالفطر کا) اور دوسرا دن وہ ہے جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو۔ ابو عبداللہ (امام بخاری) نے ابو عبید کے متعلق فرمایا کہ مولی ابن ازہر اور مولی عبدالرحمان بن عوف دونوں طرح کہنا صحیح ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1990]
حدیث حاشیہ: بعض نسخوں میں اس کے بعد اتنی عبارت زائد ہے قال أبوعبداللہ قال ابن عیینة من قال مولی ابن أزهر فقد أصاب ومن قال مولی عبدالرحمن بن عوف فقد أصاب یعنی امام بخاری ؒ نے کہاکہ سفیان بن عیینہ نے کہا جس نے ابوعبداللہ کو ازہر کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا، اور جس نے عبدالرحمن بن عوف ؓ کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن ازہر اور عبدالرحمن بن عوف ؓ دونوں اس غلام میں شریک تھے۔ بعض نے کہا درحقیقت وہ عبدالرحمن بن عوف کے غلام تھے۔ مگر ابن ازہر کی خدمت میں رہا کرتے تھے تو ایک کے حقیقتاً غلام ہوئے دوسرے کے مجازاً۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1990