یحییٰ بن یحییٰ، ابو معشر، عطار، حضرت خالد بن ذکوان کہتے ہیں کہ میں نے ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی بستی میں اپنا نمائندہ بھیجا پھر آکر بشر کی حدیث کی طرح روایت ذکر کی سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ ہم ان بچوں کے لئے روئی کی گڑیاں بناتے تاکہ وہ ان سے کھیلیں اور وہ ہمارے ساتھ مسجد میں جاتے تو جب وہ ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انہیں وہ گڑیاں دے دیتے اور وہ ان سے کھیل میں لگ کر روزہ بھول جاتے یہاں تک کہ ان کا روزہ پورا ہوجاتا۔
خالد بن ذکوان رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جب ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عاشورہ کے روزہ کے بارے میں پوچھا؟ انھوں نے بتایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارکی بستیوں میں اپنے پیغام بر بھیجے بشر کی طرح حدیث بیان کی، بس اتنا فرق ہے کہ اس نے کہا: ہم ان کے لیے روئی کی گڑیا بناتے اور اسے اپنے ساتھ لے جاتے تو جب وہ ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انہیں وہ گڑیا غافل کرنے کے لیے دے دیتے تاکہ وہ اپنا روزہ پورا کرلیں یا حتی کہ وہ اپنا روزہ پورا کر لیتے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2670
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت سلمہ بن اکوع اور حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آمد کے بعد، جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور اس کا مسلمانوں کو عمومی حکم دینے کے لیے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جہاں انصار رہتے تھے یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو، وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جنھوں نے کچھ کھا پی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں پئیں، بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں اور پھر انصار نے اس کا اس قدراہتمام کیا کہ انہوں نے چھوٹے بچوں کو بھی روزے رکھوائے اور ان کو مشغول اور مصروف کرنے کے لیے تاکہ وہ کھانے پر اصرار نہ کریں، روئی کے کھلونے تیار کر کے ان کو بہلایا، احناف نے اس تاکیدی حکم سے عاشورہ کی فرضیت پر استدلال کیا ہے اور اس سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ فرض روزے کے لیے بھی رات کو نیت کرنا ضروری نہیں ہے، باقی ائمہ کے نزدیک فرض روزے کے لیے رات کو نیت ضروری ہے اور اگرعاشورہ کا روزہ فرض ہوتا تو اس کی بھی رات کو نیت کی جاتی، اس کی تاکید اور اہتمام کا لوگوں کو پہلے پتہ ہی نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے بعد اس کا اعلان کروایا، اس لیے اس کی نیت رات کو ممکن نہ تھی۔ اس لیے اس سے صرف اس قدر بات ثابت ہو چکی ہے، اگر کوئی رات بھر سویا رہا، طلوع فجر کے بعد بیدار ہوا تو وہ اس طرح روزہ رکھ سکتا ہے جب اسے یہ پتہ چلے آج روزہ ہے۔