الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الزَّكَاةِ
زکاۃ کے احکام و مسائل
6. باب إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ:
6. باب: زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب۔
حدیث نمبر: 2290
وحَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ ذَكْوَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ ذَهَبٍ وَلَا فِضَّةٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ صُفِّحَتْ لَهُ صَفَائِحُ مِنْ نَارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ، فَيُكْوَى بِهَا جَنْبُهُ وَجَبِينُهُ وَظَهْرُهُ، كُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِيدَتْ لَهُ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْإِبِلُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ إِبِلٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، وَمِنْ حَقِّهَا حَلَبُهَا يَوْمَ وِرْدِهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ أَوْفَرَ مَا كَانَتْ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا فَصِيلًا وَاحِدًا، تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَعَضُّهُ بِأَفْوَاهِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْبَقَرُ وَالْغَنَمُ؟، قَالَ: وَلَا صَاحِبُ بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي مِنْهَا حَقَّهَا، إِلَّا إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ بُطِحَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، لَا يَفْقِدُ مِنْهَا شَيْئًا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا جَلْحَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ، فَيَرَى سَبِيلَهُ إِمَّا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِمَّا إِلَى النَّارِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْخَيْلُ؟، قَالَ: الْخَيْلُ ثَلَاثَةٌ: هِيَ لِرَجُلٍ وِزْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ سِتْرٌ، وَهِيَ لِرَجُلٍ أَجْرٌ، فَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ وِزْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا رِيَاءً وَفَخْرًا وَنِوَاءً عَلَى أَهْلِ الْإِسْلَامِ، فَهِيَ لَهُ وِزْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ سِتْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ثُمَّ لَمْ يَنْسَ حَقَّ اللَّهِ فِي ظُهُورِهَا وَلَا رِقَابِهَا، فَهِيَ لَهُ سِتْرٌ، وَأَمَّا الَّتِي هِيَ لَهُ أَجْرٌ، فَرَجُلٌ رَبَطَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ، فِي مَرْجٍ وَرَوْضَةٍ فَمَا أَكَلَتْ مِنْ ذَلِكَ الْمَرْجِ أَوِ الرَّوْضَةِ مِنْ شَيْءٍ، إِلَّا كُتِبَ لَهُ عَدَدَ مَا أَكَلَتْ حَسَنَاتٌ، وَكُتِبَ لَهُ عَدَدَ أَرْوَاثِهَا وَأَبْوَالِهَا حَسَنَاتٌ، وَلَا تَقْطَعُ طِوَلَهَا فَاسْتَنَّتْ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ آثَارِهَا وَأَرْوَاثِهَا حَسَنَاتٍ، وَلَا مَرَّ بِهَا صَاحِبُهَا عَلَى نَهْرٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ وَلَا يُرِيدُ أَنْ يَسْقِيَهَا، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ عَدَدَ مَا شَرِبَتْ حَسَنَاتٍ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَالْحُمُرُ؟، قَالَ: مَا أُنْزِلَ عَلَيَّ فِي الْحُمُرِ شَيْءٌ إِلَّا هَذِهِ الْآيَةَ الْفَاذَّةُ الْجَامِعَةُ فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ {7} وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ {8} سورة الزلزلة آية 7-8 "،
حفص بن میسرہ صنعانی نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی کہ ان کو ابو صالح ذکوان نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے (یا ان کی قیمت میں سے) ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو جب قیامت کا دن ہوگا (انھیں) اس کے لئے آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا اور انھیں جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ (تختیاں) پھر سے (آگ میں) جائیں گی، انھیں پھر سے اس کے لئے واپس لایا جائےگا، اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے (یہ عمل مسلسل ہوتا رہے گا) حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا، پھر وہ جنت یا دوزخ کی طرف اپنا راستہ دیکھ لےگا۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا کیا حکم ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن (ضرورت مندوں اور مسافروں کےلئے) ان کا دودھ نکالا جائے، اور جب قیامت کا دن ہوگااس (مالک) ایک وسیع چٹیل میدان میں ان (اونٹوں) کے سامنے بچھا (لٹا) دیاجائے گا، وہ (اونٹ دنیا میں تعداد اور فربہی کے اعتبار سے) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے، وہ ان میں سے دودھ چھڑائے ہوئے ایک بچے کو بھی گم نہیں پائے گا، وہ اسے اپنے قدموں سے روندیں گے اور اپنے منہ سے کاٹیں گے، جب بھی ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزر جائےگا تو دوسرا اس پر واپس لے آیا جائے گا، یہ اس دن میں (بار بار) ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہوگی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائےگا اور اسے اور اسے جنت کادوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھایاجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کی گئی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گائے اور بکریاں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اورنہ گائے اور بکریوں کا کوئی مالک ہوگا جو ان کا حق ادا نہیں کرتا، مگر جب قیامت کادن ہوگا تو اسے ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بچھایا (لِٹایا) جائے گا۔وہ ان میں سے کسی ایک (جانور) کو بھی گم نہیں پائےگا۔ان میں کوئی (گائے یا بکری) نہ مڑے سینگوں والی ہوگی، نہ بغیر سینگوں کے اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی (سب سیدھے تیز سینگوں والی ہوں گی) وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سمو سے روندیں گی، (یہ معاملہ) اس دن میں (ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، جب پہلا (جانور) گزر جائے گا تو ان کا دوسرا (جانور واپس) لے آیا جائے گا حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے گا، اور سے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ د یکھایا جائے گا۔"عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !تو گھوڑے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گھوڑے تین طرح کے ہیں: وہ جو آدمی کے بوجھ ہیں، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر (پردہ پوشی کا باعث) ہیں۔تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں۔بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاکاری، فخر وغرور، اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے تو یہ گھوڑے اس کے لئے بوجھ (گناہ) ہیں۔ اور وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں (موقع ملنے پر) اللہ کی راہ میں (خود جہاد کرنے کے لئے) باندھ رکھا ہے، پھر وہ ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو یہ اس کے لئے باعث ستر ہیں (چاہے اسے جہاد کا موقع ملے یا نہ ملے) اور وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو وہ (اس) آدمی (کے گھوڑے ہیں) جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر کسی چراگاہ یا باغیچے میں باندھ رکھا ہے (اور وہ خود جہاد پر جاسکے یا نہ جاسکے انھیں دوسروں کو جہاد کے لئے دیتا ہے) یہ گھوڑے اس چراگاہ یاباغ میں سے جتنا بھی کھائیں گے تو اس شخص کے لئے اتنی تعداد میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس شخص کے لئے ان کی لید اور پیشاب کی مقدار کے برابر (بھی) نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور وہ گھوڑے اپنی رسی تڑواکر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ نہیں لگائیں گے مگر اللہ تعالیٰ ا س شخص کےلئے ان کے قدموں کے نشانات اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دے گا اور نہ ہی ان کا مالک انھیں لے کر کسی نہر پر سے گزرے گا اور وہ گھوڑے اس نہر میں سے پانی پیئں گے جبکہ وہ (مالک) ان کو پانی پلانا (بھی) نہیں چاہتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کے لئے اتنی نیکیاں لکھ دے گا جتنا ان گھوڑوں نے پانی پیا۔"عرض کی گئی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اور گدھے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کوئی چیز نازل نہیں کی گئی: فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ خَیْرً‌ا یَرَ‌ہُ ﴿﴾ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّ‌ۃٍ شَرًّ‌ا یَرَ‌ہُ ﴿﴾"جو کوئی ایک زرے کی مقداار میں نیکی کرے گا (قیامت کے دن) اسے دیکھ لے گا اور جو کوئی ایک زرے کے برابر بُرائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی سونے اور چاندی کا مالک ان میں سے ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا، تو جب قیامت کا دن ہوگا، اس کے لئے آگ سے پرت (سلیٹیں، تختیاں اورپترے) بنائے جائیں گے انھیں جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور پھران سے اس کے پہلو، اس کی پیشانی اور اس کی پشت کو داغا جائےگا، جب وہ بھی وہ (پرت، تختیاں) ٹھنڈی ہو جائیں گی، اس کے لئے انہیں دوبارہ آگ میں تپایا جائے گا۔ اس دن میں یہ عمل مسلسل ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پھر وہ اپنا راستہ، جنت یا دوزخ کی طرف لےگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اونٹوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور اونٹوں کا مالک بھی اگر حق ادا نہیں گرے گا اور ان کا حق یہ بھی ہے کہ ان کو پانی پلانے کے دن (جب انہیں پانی کی گھاٹ پر لے جایا جاتا ہے) ان کا دودھ ضرورت مندوں (غریبوں، مسکینوں) وہیں دوھا جائے تاکہ انہیں دودھ کے حصول میں کوئی دقت نہ ہو، اور جب قیامت کا روز ہو گا اسے ایک کھلے چٹیل میدان میں ان کے (اونٹوں کے) سامنے بچھایا جائے گا، وہ اونٹ اس حال میں آئیں گے کہ وہ انتہائی فربہ اور موٹے ہوں گے۔ اور وہ ان میں سے ایک ٹوڈا (بچہ) گم نہیں پائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے اور اپنے مونہوں سے کاٹیں گے، جب ان میں سے پہلا اونٹ اس پر سے گزرے گا تو اس پر ان کا آخری لوٹا دیا جائے گا (مقصد یہ کہ مسلسل اس پر سے گوریں گے، وقفہ نہیں ہو گا، آحری گزرنے پر پہلا پہنچ جائے گا) یا ایک ریوڑ گورنے پر جوصرا ریوڑ پہنچ جائے گا۔ یہ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہو گی، یہاں تک کہ بندوں کے درمیان فیصلہ ہو جائےگا۔ پھر وہ اپنا رستہ جنت یا دوزخ کی طرف دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گائیوں اور بکریوں (کے مالکوں کا) کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور گائیوں اور بکریوں کا مالک بھی ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے، تو جب قیامت کا دن ہوگا تو اسے ان کے سامنے کھلے چٹیل میدان میں بچھایا جائے گا۔ (سیدھے یا الٹے منہ لٹایا جائے گا) وہ ان میں سے کسی ایک کو بھی گم نہیں پائے گا۔ ان میں کوئی (گائے یا بکری) نہ مڑے سینگوں والی ہو گی، نہ بغیر سینگوں کے یا ٹوٹے سینگوں کے وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی،،جب پہلا ریوڑ گزر جائے گا تو ان کا دوسرا ریور لایا جائے گا۔ پچاس ہزار سال کے برابر دن میں یونہی ہوتا رہے گا، حتیٰ کہ بندوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا، پھر اسے اس راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دکھایا جائے گا۔ عرض کیا گئیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! تو گھوڑوں (کے مالکوں کا) کیا حال ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھوڑے تین قسم کے ہیں: ایک وہ جو آدمی کے لیے بوجھ (گناہ کا سبب) ہیں، دوسرے وہ جو آدمی کے لئے ستر ہیں۔ (دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچاتے ہیں) تیسرے وہ جو آدمی کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں۔ بوجھ اور گناہ کا باعث وہ گھوڑے ہیں جن کو ان مالک ریاء، فخر اور مسلمانوں کی دشمنی کے لئے باندھتا ہے۔ جورے وہ جو اسکے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں، جو اس آدمی کے گھوڑے جنہیں اس نے اللہ کی راہ میں باندھ رکھا ہے پھر ان کی پشتوں اور گردنوں میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا (ضرورت مندوں کوعارضی طور پر سواری کے لیے دیتا ہے) تو یہ اس کے لئے ستر ہیں (اپنی ضرورت کے لیے دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچ جاتا ہے) رہے وہ گھوڑے جو اس کے لئے اجر وثواب کا باعث ہیں تو ایسے آدمی کے گھوڑے جس نے انھیں اللہ کی راہ میں اہل اسلام کی خاطر باندھ رکھا ہے کسی چراگاہ یا باغیچہ میں، تو یہ گھوڑے اسی چراگاہ یا باغ میں جو کھائیں گے تو ا س کے لیے کھانے کی اشیاء کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور ان کی لید اور پیشاب کی تعداد کےبرابر نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اگر گھوڑے نے اپنی رسی تڑوا کر ایک دو ٹیلوں کی دوڑ لگائی تو اللہ تعالیٰ اس کے قدم اور لید کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے۔ اور اس کا جب اسے لے کر کسی نہر پر گزرتا ہے اور وہ اس سے مالک کے ارادہ اور خواہش کے بغیر ہی پانی پی لیتا ہے تو اللہ تعالی اس مالک کے لئے جس مقدار میں گھوڑے نے پانی پیا ہے اس کی تعداد کے برابر نیکیاں لکھ دیتا ہے، عرض کیاگیا، اے اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) گدھوں کا کیا حکم ہے؟ (ان کے مالکوں سے کیسا سلوک ہو گا) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر گدھوں کے بارے میں اس آیت کے سوا جو یگانہ اور جامع ہے کوئی مستقل اور مخصوص حکم نازل نہیں ہوا، جو کوئی ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے (قیامت کے دن) دیکھ لے گا اور جو کوئی ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ (سورۃ زلزال آیت نمبر 7۔8)
ترقیم فوادعبدالباقی: 987
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة يأخذ بلهزمتيه يعني بشدقيه يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله
   صحيح البخارييكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع
   صحيح البخاريمن حق الإبل أن تحلب على الماء
   صحيح البخارييكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه فيطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه وقال رسول الله إذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة فتخبط وجهه بأخفافها
   صحيح البخاريمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يطوقه يوم القيامة ثم يأخذ بلهزمتيه يعني شدقيه ثم يقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا ولا يحسبن الذين يبخلون
   صحيح البخاريتأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت إذا هو لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها وقال ومن حقها أن تحلب على الماء قال ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها
   صحيح مسلمما من صاحب ذهب ولا فضة لا يؤدي منها حقها إلا إذا كان يوم القيامة صفحت له صفائح من نار فأحمي عليها في نار جهنم فيكوى بها جنبه وجبينه وظهره كلما بردت أعيدت له في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة حتى يقضى بين العباد فيرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار قيل يا
   صحيح مسلمما من صاحب كنز لا يؤدي زكاته إلا أحمي عليه في نار جهنم فيجعل صفائح فيكوى بها جنباه وجبينه حتى يحكم الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب إبل لا يؤدي زكاتها إلا بطح لها بقاع قرقر كأوفر ما كانت
   سنن أبي داودما من صاحب كنز لا يؤدي حقه إلا جعله الله يوم القيامة يحمى عليها في نار جهنم فتكوى بها جبهته وجنبه وظهره حتى يقضي الله بين عباده في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة مما تعدون ثم يرى سبيله إما إلى الجنة وإما إلى النار وما من صاحب غنم لا يؤدي حقها إلا جاءت
   سنن النسائى الصغرىتأتي الإبل على ربها على خير ما كانت إذا هي لم يعط فيها حقها تطؤه بأخفافها وتأتي الغنم على ربها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها تطؤه بأظلافها وتنطحه بقرونها قال ومن حقها أن تحلب على الماء ألا لا يأتين أحدكم يوم القيامة ببعير يحمله على رقبته له رغاء في
   سنن النسائى الصغرىمن آتاه الله مالا فلم يؤد زكاته مثل له ماله يوم القيامة شجاعا أقرع له زبيبتان يأخذ بلهزمتيه يوم القيامة فيقول أنا مالك أنا كنزك ثم تلا هذه الآية ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله
   سنن النسائى الصغرىأيما رجل كانت له إبل لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها قالوا يا رسول الله ما نجدتها ورسلها قال في عسرها ويسرها فإنها تأتي يوم القيامة كأغذ ما كانت وأسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه بأخفافها إذا جاءت أخراها أعيدت عليه أولاها في يوم كان مقداره خمسين ألف سنة
   سنن ابن ماجهتأتي الإبل التي لم تعط الحق منها تطأ صاحبها بأخفافها وتأتي البقر والغنم تطأ صاحبها بأظلافها وتنطحه بقرونها ويأتي الكنز شجاعا أقرع فيلقى صاحبه يوم القيامة يفر منه صاحبه مرتين ثم يستقبله فيفر فيقول ما لي ولك فيقول أنا كنزك أنا كنزك فيتقيه بيده فيلقمها
   صحيفة همام بن منبهإذا ما رب النعم لم يعط حقها تسلط عليه يوم القيامة تخبط وجهه بأخفافها
   صحيفة همام بن منبهيكون كنز أحدكم يوم القيامة شجاعا أقرع يفر منه صاحبه ويطلبه ويقول أنا كنزك قال والله لن يزال يطلبه حتى يبسط يده فيلقمها فاه
   مسندالحميدي

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2290 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2290  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الصَفَائِحُ:
صحیفة کی جمع ہے۔
پلیٹ،
تختی،
یعنی اس کے سونے،
چاندی کو سلیٹ یا تختی کی طرح چوڑا کیا جائے گا۔
(2)
مِنْ نَارٍ:
وہ آگ کی طرح گرم ہوں گی۔
(3)
بَرَدَتْ:
ان تختیوں کی مدت و تپش میں کمی ہو گی (تو انہی پھر گرم کیا جائے گا) (4)
حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ الْعِبَادِ:
لوگوں کے حساب،
کتاب کے اختتام تک،
مانعین زکاۃ کو مسلسل اور پیہم عذاب ہوتا رہے گا۔
(5)
يَرَى سَبِيلَهُ:
يَرَى کو معروف اور مجہول دونوں طریقہ سے پڑھا گیا ہے،
کہ وہ جنت یا دوزخ کا راستہ اپنے عملوں کے نتیجہ کے طور پر دیکھ لے گا،
یا اسے عملوں کی پاداش میں اس کے اختیار و ارادہ کے بغیر جنت یا دوزخ کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔
(6)
حَلَبُهَا:
حا اور لام دونوں پر زبر ہے،
دودھ دوہنا۔
(7)
يَوْمَ وَرودِهَا:
جب تیسرے یا چوتھے دن انہیں پانی پلانے کے لیے پانی کے گھاٹ پر لے جایا جاتا ہے۔
(8)
بُطِحَ:
انہیں زمین پر بچھایا یا لٹایا جائے گا (اوندھے منہ یا پشت کے بل) (9)
قَاعٍ:
کھلا میدان،
وسیع زمین۔
(10)
قَرْقَرٍ:
ہموار اور وسیع میدان یا چٹیل زمین۔
(11)
أَوْفَرَ مَا كَانَتْ:
انتہائی تعداد میں اور موٹے،
فربہ حالت میں۔
(12)
فَصِيل:
ٹوڈا،
اونٹ کا بچہ۔
(13)
كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ أُولَاهَا رُدَّ عَلَيْهِ أُخْرَاهَا:
بقول قاضی عیاض،
امام نوویٰ،
امام قرطبی،
ان الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی،
صحیح ترتیب وہی ہے جو اگلی حدیث میں آ رہی ہے کہ كلما مضي عليه اخراها رد عليه اولاهاء کہ آخری اونٹ گزرنے کے وقت پہلا اونٹ بھی گزرنے کے لیے واپس آ چکا ہو گا،
درمیان میں وقفہ نہیں ہو گا،
مسلسل چکر کی شکل برقرار رہے گی،
یا یہ معنی کرنا پڑے گا کہ جب پہلا اونٹ آخر میں پہنچے گا تو آخری اونٹ شروع سے گزرنا چاہے گا۔
پھر دوسرے چکر میں،
جب پہلا آغاز کرے گا تو آخری اونٹ انتہا پر پہنچ کر آغاز کرنے کے لیے آ چکا ہو گا۔
(14)
عَقْصَاءُ:
مڑے ہوئے سینگوں والی۔
(15)
جَلْحَاءُ:
بے سینگوں کے،
عضبا،
ٹوٹے سینگوں والی۔
(16)
اخفاف:
اونٹ کا پوڈ،
کھر۔
(17)
أَظْلَافِہم:
ظلف گائے،
بکری اور ہرن وغیرہ کے پاؤں (18)
سُم:
انسان کے لیے قدم،
گھوڑے،
خچر کے لیے حافر کا لفظ استعمال ہوتا ہے،
نواءً:
دشمنی اور عداوت۔
(19)
مَرْجِ:
چراگاہ۔
(20)
رَّوْضَةِ:
باغ۔
(21)
طول:
رسی جس کے ساتھ گھوڑے کے پاؤں کو باندھا جاتا ہے،
تاکہ گھوڑا کھونٹی کے گرد چلتا پھرتا رہے اور سبزہ چر لے۔
(22)
اسْتَنَّتْ:
دوڑا،
بھاگا،
چکر لگایا۔
شَرَفَ اونچی جگہ،
ٹیلہ،
مراد شوط (چکر)
ہے۔
فوائد ومسائل:

حقوق کی دو قسمیں ہیں: 1۔
حقوق لازمہ،
جن کی ادائیگی کے بغیر چارہ نہیں ہے۔
اور وہ مستقل اور دائمی ہیں جیسا کہ فرض زکاۃ اور فطرانہ ہے۔

حقوق منتشرہ۔
جو وقتی اور عارضی ہوتے ہیں اور حوادث وواقعات سے تعلق رکھتےہیں جن کو قرآن مجید میں سورۃ بقرہ آیت البر نمبر 177 میں:
﴿وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ﴾ کے تحت میں بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد ہے۔
﴿وَآتَى الزَّكَاةَ﴾ جب کوئی انسان لاچار اور مضطر ہو اور بھوکا مر رہا ہو تو یہ فرض ولازم ہوں گے اور عام حالات میں اخلاق حسنہ فضائل حمیدہ یا مکارم اخلاق شمار ہوں گے مثلاً کسی کو جفتی کےلیے نردینا،
پانی پلانے کے لیے ڈول دینا،
کسی کو دودھ پینے کے لیے دودھ دینے والا جانور دینا،
اونٹوں کو پانی کے گھاٹ پر دوھنا،
یا کسی فقیر مسکین کو مفت دودھ دینا،
کسی محتاج کوعاریتاً سواری دینا۔

مانعین زکاۃ کے لیے پچاس ہزار سال کا حساب وکتاب کا دن،
عذاب کا دن ہوگا،
اگر اتناعذاب اس کے گناہوں اور جرائم کے لیے کافی ہو گیا۔
تو وہ جنت کا راستہ لے گااور اگر یہ سزا اور عذاب دوسرے گناہوں کے سبب ناکافی ہوا تو پھر مزید عذاب اور سزا کے لیے دوزخ کی راہ لے گا،
اورتکمیل سزا یا شفاعت کے نتیجہ میں جنت میں آجائے گا۔

عملوں کے ثواب وعقاب میں نیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
ایک انسان گھوڑا اسی لیے رکھتا ہے کہ وہ فخر وغرور یا گھمنڈ وعجب کا اظہار کرسکے یا اپنے مال ودولت کی نمائش کرے یا مسلمانوں کے خلاف اس سے کام لے سکے تو اس کے لیے یہ گھوڑا گناہ اور سزا کا باعث ہو گا۔
ایک انسان گھوڑا اسی لیے پالتا ہے کہ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھ سکے۔
دوسروں سے مانگنے کی ذلت سے بچ سکے۔
ضرورتمندوں کی بوقت ضرورت عارضی طور پر سواری کے لیے دے سکے،
تو یہ بھی فی سبیل اللہ ہو گا،
اور سزا وعذاب سے ستر کا باعث بھی بنے گا۔
اور اگر انسان اہل اسلام کے تعاون کے لیے اور جہاد میں حصہ لینے یا مجاہدین کو وقف کرنے کے لیے گھوڑا پالتا تھا۔
تو اس کی ہر چیز،
کھانا،
پینا،
بھاگنا،
دوڑنا،
نیکیوں کے حصول کا باعث بنے گا۔

جن کاموں کے لیے کسی مخصوص اجرثواب کی صراحت موجود نہیں ہے وہ تمام امور اور اعمال اس ضابطہ اور اصول کے تحت آتے ہیں۔
﴿فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ﴾
جن اموال اور حیوانات کی محبت میں گرفتار ہوکر زکاۃ دینے سے گریز کیا گیا ہو گا قیامت کے دن وہی مال اورحیوانات اپنی کامل ترین شکل وحالت میں عذاب اورتکلیف کا باعث بنیں گے اور وہ ان سے جان نہیں چھڑا سکے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2290   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1658  
´مال کے حقوق کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس مال ہو وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز اللہ اسے اس طرح کر دے گا کہ اس کا مال جہنم کی آگ میں گرم کیا جائے گا پھر اس سے اس کی پیشانی، پسلی اور پیٹھ کو داغا جائے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا ایک ایسے دن میں فیصلہ فرما دے گا جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھے گا وہ راہ یا تو جنت کی طرف جا رہی ہو گی یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بکریوں والا ہو اور ان کا حق (زکاۃ) ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے روز وہ بکریاں اس سے زیادہ موٹی ہو کر آئیں گی، جتنی وہ تھیں، پھر اسے ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گی اور کھروں سے کچلیں گی، ان میں کوئی بکری ٹیڑھے سینگ کی نہ ہو گی اور نہ ایسی ہو گی جسے سینگ ہی نہ ہو، جب ان کی آخری بکری مار کر گزر چکے گی تو پھر پہلی بکری (مارنے کے لیے) لوٹائی جائے گی (یعنی باربار یہ عمل ہوتا رہے گا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، اس کے بعد وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ (اسی طرح) جو بھی اونٹ والا ہے اگر وہ ان کا حق (زکاۃ) ادا نہیں کرتا تو یہ اونٹ قیامت کے دن پہلے سے زیادہ طاقتور اور موٹے ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو ایک مسطح چٹیل میدان میں ڈال دیا جائے گا، پھر وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ بھی روند چکے گا تو پہلے اونٹ کو (روندنے کے لیے) پھر لوٹایا جائے گا، (یہ عمل چلتا رہے گا) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اس دن میں جس کی مقدار تمہارے (دنیاوی) حساب سے پچاس ہزار برس کی ہو گی، پھر وہ اپنی راہ دیکھ لے گا یا تو جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1658]
1658. اردو حاشیہ: سونے چاندی کی اگر زکواۃ ادا نہ کی جائے۔تو وہ باعث وبال کنز بن جاتا ہے۔ جس کازکر سورۃ توبہ میں ہے۔ <قرآن> (وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣٤﴾ يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ)(التوبہ۔3
➍ 35)
اور جو لوگ سونا اور چاندی جوڑ جوڑ کررکھتے ہیں۔اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ ان کو دردناک عذاب کی خوشخبری دے دیں۔جس دن کے اسے جہنم کی آگ سے تپایاجائے گا۔پھر ان سے ان کی پیشانیاں ان کے پہلو اور ان کی کمریں داغی جایئں گی۔ (اور کہا جائے گا) یہی ہے وہ جو تم اپنے لئے سینت سینت کر رکھتے تھے۔اب اسے جوڑنے کا مزہ چکھو
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1658   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2444  
´زکاۃ نہ دینے والوں پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے (لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! «نجدتها ورسلها» سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: تنگی اور آسانی ۱؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2444]
اردو حاشہ:
(1) ایسے دن میں۔ ہمارے لحاظ سے تو دن کی مدت کا تعین سورج کے طلوع اور غروب سے ہوتا ہے مگر ظاہر ہے کہ روز محشر کا تعین سورج سے نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ جس طریقے سے چاہے گا دن کا تعین ہوگا۔ ممکن ہے مطلق مدت کو دن کہہ دیا گیا ہو۔
(2) پہلی کو واپس لایا جائے گا۔ گویا جانور اس پر سے دائرے میں گزریں گے۔ أعاذنا اللہ من ذلك
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2444   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2450  
´اونٹ کی زکاۃ نہ دینے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2450]
اردو حاشہ:
(1) یہ حق بھی ہے۔ اور یہ حق زکاۃ کے علاوہ ہے۔ یہ اگرچہ واجب تو نہیں مگر اس کی ادائیگی بھی اہم ہے۔ قیامت کے دن عذاب تو زکاۃ نہ دینے ہی پر ہوگا، مگر اس قسم کے حقوق کو ادا نہ کرنا بھی مروت اور انسانیت کے خلاف ہے جو دنیا میں قابل مذمت ہے، خصوصاً اگر کوئی فقیر اس قدر بھوکا ہو کہ یہ دودھ اس کی مجبوری ہو تو پھر اس کی جان بچانا فرض ہے۔ ایسے موقع پر یہ حق بھی فرض بن جائے گا۔
(2) خزانہ جس کی زکاۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ اگر زکاۃ ادا کر دی جائے تو وہ خزانہ رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ دوسرے ضروری حقوق بھی پورے کیے جائیں، مثلاً: والدین سے حسن سلوک، مہمان کی خدمت، فقیر کی حاجت برآری وغیرہ۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ روز مرہ کی ضروریات سے زائد جمع شدہ بھی کنز ہی ہے جس کے بارے میں مذکورہ بالا وعید نازل ہوئی ہے۔ ان کا اس سلسلے میں تشدد، نصوص اور صحابہ کے اجماعی طرز عمل سے مطابقت نہیں رکھتا، البتہ اسے ورع اور اولیٰ ہونے پر محمول کیا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2450   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2484  
´اپنے مال کی زکاۃ نہ دینے والے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس مال کی زکاۃ ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا سانپ بن جائے گا، اس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے دونوں کلّے پکڑے گا، اور اس سے کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔‏‏‏‏ پھر آپ نے آیت کریمہ کی تلاوت کی: «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله» اللہ تعالیٰ نے جنہیں مال دیا ہے وہ بخ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2484]
اردو حاشہ:
اس قسم کا سانپ بہت زہریلا ہوتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا بچتا نہیں۔ ڈراؤنا بھی بہت ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 2433، 2450۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2484   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1786  
´زکاۃ نہ دینے پر وارد وعید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جن اونٹوں کی زکاۃ نہیں دی گئی وہ آئیں گے اور اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے، اور گائیں اور بکریاں آئیں گی وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندیں گی اور اسے سینگوں سے ماریں گی، اور اس کا خزانہ ایک گنجا سانپ بن کر آئے گا، اور اپنے مالک سے قیامت کے دن ملے گا، اس کا مالک اس سے دور بھاگے گا، پھر وہ اس کے سامنے آئے گا تو وہ بھاگے گا، اور کہے گا: آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں، آخر مالک اپنے ہاتھ کے ذریعہ اس سے اپ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1786]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خزانے سے مراد سونا چاندی وغیرہ ہے جس کی زکاۃ ادا نہیں کی گئی۔

(2)
انسان دنیا میں روپے پیسےکا لالچ کرتا ہے۔
اس کو حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتا اور لالچ کی وجہ سے زکاۃ نہیں دیتا۔
اس قسم کا مال قیامت کو عذاب کا باعث ہوگا کہ انسان اس سے جان چھڑانا چاہے گا لیکن وہ نہیں چھوڑے گا۔

(3)
انسان ہاتھ سے مال لیتا ہے لیکن اسی ہاتھ سے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرنا چاہتا، اس لیے ہاتھ کو عذاب ہوگا کہ اس کا خزانہ سانپ بن کر اس کا ہاتھ کاٹ کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے۔
آمین
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1786   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1095  
1095- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: خرچ کرنے والے اور بخیل شخص کی مثال دو ایسے آدمیوں کی طرح ہے جنہوں نے لوہے کی بنی ہوئی دو زرہیں پہنی ہوئی ہوں۔ (راوی کو شک ہے شائد یہ الفاظ ہیں) دو جبے پہنے ہوئے ہوں۔ جوان کے سینے سے لے کر گردن تک ہوں۔ جب خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تو اس کی گرہ کشادہ ہوجاتی ہے (یانیچے ہوجاتی ہے)۔ یہاں تک کہ اس کے پاؤں کے پوروں کو چھپا لیتی ہے اور اس کے قدموں کے نشان کو ڈھانپ لیتی ہے۔ (یعنی زمین پر گرجاتی ہے) اور جب کنجوس شخص خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے، تواس کی زرہ اس کے لیے تنگ ہوجاتی ہے اس کا ہر حلقہ ج۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1095]
فائدہ:
اس حدیث میں سخی اور کنجوس کی مثال دے کر سمجھایا گیا ہے کہ جب بھی خرچ کرتا ہے تو اس کا سینہ کھل جاتا ہے، اور ایمان سے اس کا دل تازہ ہو جاتا ہے لیکن کنجوس جس وقت خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل تنگ ہو جاتا ہے، وہ وسوسوں کا شکار ہو جاتا ہے، اور اس کے دل و دماغ پر سناٹا چھا جاتا ہے کیونکہ اس کی زندگی کا مقصد ہی پیسہ جمع کرنا ہوتا ہے، اس کو آخرت کی فکر نہیں ہوتی، اس کے دل و دماغ میں قرآن و حدیث سے کہیں زیادہ مال دولت سے محبت ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ مال خرچ نہیں کرتا، کنجوس کے مقابلے میں حقیقی مومن جب مال خرچ کرتا ہے تو اس کو خوشی محسوس ہوتی ہے، دل تر و تازہ ہو جاتا ہے، اور وہ اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے کہ اے اللہ! تو نے میرے پیسے اچھی جگہ پر لگائے ہیں اللہ تعالیٰ ایسے انسان سے خوش ہو جاتے ہیں اور رہا کنجوس تو اس کے پیسے سے نہ وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے اور نہ اس کی اولاد، اور نہ دین کے کام آتے ہیں، بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے، اور اس کی جمع شدہ پونچی پانی کی طرح بہہ جاتی ہے، اور پھر وہ یہ سب کچھ گوارا کر لیتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1094   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2292  
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو بھی خزانے کا مالک اس کی زکاۃ ادا نہیں کرے گا اس کے خزانہ کو جہنم کی آگ میں میں تپایا جائے گا اور اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر وہ اپنا راستہ جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دیکھ لے گا۔... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2292]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نوَاص:
نَاصِيَةکی جمع ہے پیشانی۔
(2)
الخير:
مال،
نیکی و بہتری،
مراد اجر و غنیمت ہے۔
(3)
تكرماً و تجملاً:
دوسروں سے اپنی عزت و شرف کو بچانے کے لیے اور اپنے حسنِ خصال اور خوبی کے اظہار کے لیے کہ سواری کسی سے مانگنی نہ پڑے اور ضرورت کے وقت کسی کو دے سکے۔
(4)
اشراً:
اترانا۔
(5)
بطراً:
حق سے سرکشی اور طغیان اختیار کرنا۔
(6)
البذخ:
فخر و گھمنڈ اور بڑائی کا اظہار کرنا۔
فوائد ومسائل:
گھوڑا ایک اعلیٰ اور بہترین سواری ہے اس سے جائز وناجائز ہر قسم کے کام لیے جا سکتے ہیں اور اس کا سب سے بہتر استعمال یہ کہ اسے جہاد میں استعمال کیا جائے اور قیامت تک اس کا یہ استعمال برقرار رہے گا۔
گویا قیامت تک جہاد میں استعمال ہو کر مالک کے لیے اجر وغنیمت کا باعث بنتا رہے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2292   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1402  
1402. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن اونٹ پہلے سے زیادہ فربہ اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گے جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو، پھر وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے۔ اسی طرح بکریاں بھی پہلے سے زیادہ توانا اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گی جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو۔ وہ اسے اپنے کھروں سے کچلیں گی اور اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی۔آپ نے فرمایا:ان کا حق یہ بھی ہے کہ پانی کے گھاٹ پر ان سے دودھ حاصل کیا جائے اور محتاجوں کو پلایا جائے۔ نیز آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی قیامت کے دن بکری کو اپنی گردن پر سوار کر کے نہ لائے بایں حالت کہ وہ ممیارہی ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے: یا محمد!(ﷺ میری سفارش فرمائیے) اور میں کہوں گا:میں تیرے لیے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا، میں تو اللہ کا حکم پہنچا چکا ہوں، اسی طرح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1402]
حدیث حاشیہ:
مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ منہ سے کاٹیں گے۔
پچاس ہزار برس کا جو دن ہوگا اس دن یہی کرتے رہیں گے۔
یہاں تک کہ اللہ بندوں کا فیصلہ کرے اور وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں۔
(بہشت میں یا دوزخ میں)
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو تنبیہ فرمائی ہے کہ جو لوگ اپنے اموال اونٹ یا بکری وغیرہ میں سے مقررہ نصاب کے تحت زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے، قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا جو یہاں مذکور ہوا۔
فی الواقع وہ جانور ان حالات میں آئیں گے اور اس شخص کی گردن پر زبردستی سوار ہوجائیں گے۔
وہ حضور ﷺ کو مدد کے لیے پکارے گا مگر آپ کا یہ جواب ہوگا جو مذکور ہوا۔
بکری کو پانی پر دوہنے سے غرض یہ کہ عرب میں پانی پر اکثر غریب محتاج لوگ جمع رہتے ہیں، وہاں وہ دودھ نکال کر مساکین فقراء کو پلایا جائے۔
بعضوں نے کہا یہ حکم زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے تھا‘ جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اب کوئی صدقہ یا حق واجب نہیں رہا۔
ایک حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ کے سوا مال میں دوسرا حق بھی ہے۔
اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اونٹوں کا بھی یہی حق ہے کہ ان کا دودھ پانی کے کنارے پر دوہا جائے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
وإنما خص الحلب بموضع المآء لیکون أسهل علی المحتاج من قصد المنازل وأرفق بالماشیة۔
یعنی پانی پر دودھ دوہنے کے خصوص کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہاں محتاج اور مسافر لوگ آرام کے لیے قیام پذیر رہتے ہیں۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناہ مثالی جسم اختیار کرلیں گے۔
وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔
اسی طرح نیکیاں بھی مثالی شکلیں اختیار کرکے سامنے لائی جائیں گی۔
ہر دو قسم کی تفصیلات بہت سی احادیث میں موجود ہیں۔
آئندہ حدیث میں بھی ایک ایسا ہی ذکر موجود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1402   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1403  
1403. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1403]
حدیث حاشیہ:
نسائی میں یہ الفاظ اور ہیں۔
ویکون کنز أحدکم یوم القیامة شجاعا أقرع یفرمنه صاحبه ویطلبه أنا کنزك فلا یزال حتی یلقمه أصبع۔
یعنی وہ گنجا سانپ اس کی طرف لپکے گا اور وہ شخص اس سے بھاگے گا۔
وہ سانپ کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں۔
پس وہ اس کی انگلیوں کا لقمہ بنالے گا۔
یہ آیت کریمہ ان مالداروں کے حق میں نازل ہوئی جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرتے، بلکہ دولت کو زمین میں بطور خزانہ گاڑتے تھے۔
آج بھی اس کا حکم یہی ہے جو مالدار مسلمان زکوٰۃ ہضم کرجائیں ان کا یہی حشر ہوگا۔
آج سونا چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے جو چاندی اور سونے ہی کے حکم میں داخل ہے۔
اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنابناکر رکھتے اور زکوٰۃ نہیں ادا کرتے، ان کے وہی نوٹ ان کے لیے دوزخ کا سانپ بن کر ان کے گلوں کا ہار بنائے جائیں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1403   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4565  
4565. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالٰی مال عطا فرمائے، پھر وہ اس میں سے زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہو گا۔ اس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے۔ قیامت کے دن وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4565]
حدیث حاشیہ:
آیت میں ان مالداروں کا بیان ہے جو زکٰوۃ نہیں ادا کرتے بلکہ سونے چاندی کو بطور خزانہ جمع کر کے رکھتے ہیں۔
ان کا حال قیامت کے دن یہ ہوگا کہ ان کا وہ خزانہ زہریلا سانپ بن کر ان کی گردنوں کا ہار بنے گا اور ان کے جبڑوں کو چیر ے گا۔
یہ وہ دولت کے پجاری لوگ ہوںگے جنہوں نے دنیا میں خزانہ گاڑ گاڑ کر رکھا اور اس کی زکٰوۃ تک ادا نہیں کی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1402  
1402. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی ﷺ نے فرمایا:قیامت کے دن اونٹ پہلے سے زیادہ فربہ اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گے جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو، پھر وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے۔ اسی طرح بکریاں بھی پہلے سے زیادہ توانا اور بہتر حالت میں اپنے مالک کے پاس آئیں گی جبکہ وہ مالک ان کا حق (زکاۃ) نہ ادا کرتا ہو۔ وہ اسے اپنے کھروں سے کچلیں گی اور اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی۔آپ نے فرمایا:ان کا حق یہ بھی ہے کہ پانی کے گھاٹ پر ان سے دودھ حاصل کیا جائے اور محتاجوں کو پلایا جائے۔ نیز آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی قیامت کے دن بکری کو اپنی گردن پر سوار کر کے نہ لائے بایں حالت کہ وہ ممیارہی ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے: یا محمد!(ﷺ میری سفارش فرمائیے) اور میں کہوں گا:میں تیرے لیے کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا، میں تو اللہ کا حکم پہنچا چکا ہوں، اسی طرح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1402]
حدیث حاشیہ:
(1)
آیت کریمہ میں لفظ کنز سے مراد وہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔
جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
اکثر صحابہ کرام ؓ اور تابعین عظام کا یہی موقف ہے کہ یہ آیت کریمہ اہل کتاب مشرکین اور اہل ایمان سب کو شامل ہے۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
(فتح الباري: 339/3) (2)
صحیح مسلم میں ہے کہ اونٹوں کے مالک کو ایک کھلے اور چٹیل میدان میں گرا دیا جائے گا۔
اونٹ پہلے سے زیادہ موٹے تازے اور کثیر تعداد میں ہوں گے۔
ان میں سے کوئی بچہ بھی غائب نہیں ہو گا، چنانچہ وہ اپنے مالک کو اپنے پاؤں سے روندیں گے اور اپنے دانتوں سے کاٹیں گے۔
جب اس پر سے پہلا دستہ گزر جائے گا، پھر اس پر سے دوسرا دستہ گزرے گا (یہ تسلسل)
ایک روز تک قائم رہے گا جس کی مدت پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ انسانوں کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا، ہر شخص اپنا ٹھکانا دیکھ لے گا کہ جنت میں ہے یا دوزخ میں ہے۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2290(987) (3)
واضح رہے کہ مذکورہ عذاب ہر اس شخص کو دیا جائے گا جو اپنے حیوانات کی زکاۃ نہیں دے گا، خواہ انکار کرتے ہوئے زکاۃ نہ دے یا بخل کے طور پر اسے ادا نہ کرے۔
(فتح الباري: 339/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1402   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1403  
1403. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ جسے مال و دولت سے نواز ے اور وہ اس کی زکاۃ ادا نہ کرے تو اس کا یہ مال قیامت کے دن ایک گنجے سانپ کی شکل میں لایا جائے گا جس کے دونوں جبڑوں سے زہریلی جھاگ بہہ رہی ہو گی اور وہ طوق کی طرح اس کی گردن میں پڑا ہوگا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا:میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت فرمائی:(جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے نوازا اور) پھر وہ بخل سے کام لیتے ہیں وہ اس خیال میں نہ رہیں (کہ یہ بخیلی ان کے حق میں اچھی ہے،نہیں بلکہ یہ ان کے حق میں انتہائی بری ہے۔ جو کچھ وہ اپنی کنجوسی سے جمع کر رہے ہیں وہی قیامت کے روز ان کے گلے کا طوق بن جائے گا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1403]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کا اس وعید کو بیان کرنے کے بعد مذکورہ آیت کو تلاوت کرنا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ یہ آیات منکرین زکاۃ کے متعلق نازل ہوئی ہیں، (فتح الباري: 342/3)
یعنی یہ آیت کریمہ ان دولت مند اور مال دار حضرات کے متعلق نازل ہوئی ہے جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکاۃ ادا نہیں کرتے، بلکہ اپنی دولت کو بطور خزانہ جمع کرتے ہیں۔
آج سونے چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے۔
اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنا بنا کر رکھتے ہیں اور زکاۃ ادا نہیں کرتے، تو یہ نوٹ ان کے لیے دوزخ کے سانپ بن جائیں گے اور پھر انہیں گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ جس شخص کے پاس بھی سونا چاندی ہے اور وہ زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کے لیے سونے چاندی کے پترے آگ کے بنائے جائیں گے، پھر دوزخ کی آگ میں انہیں خوب گرم کیا جائے گا اس کے بعد اس کے پہلوؤں، اس کی پیشانی اور اس کی کمر کو داغا جائے گا۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2292(987)
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ وہ سانپ اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے کہے گا کہ میں وہی خزانہ ہوں جسے تو دنیا میں چھوڑ آیا تھا حتی کہ وہ اس کی انگلیوں کو پھر اس کے پورے بازو کو چبائے گا حتی کہ اس کا پورا جسم نگل لے گا۔
(صحیح ابن حبان (ابن بلبان)
: 49/8، طبع مؤسسةالرسالة)
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اپنے مال سے زکاۃ نہ دینے والوں کو دونوں قسم کے عذاب سے دوچار کیا جائے گا۔
اس کا خزانہ کبھی سانپ کی شکل میں اسے ڈسے گا اور سونے چاندی کے پتروں کو بھی گرم کر کے اس کے جسم کو داغا جائے گا۔
(فتح الباري: 341/3) (3)
جو سانپ انہیں ڈسے گا وہ اس قدر زہریلا ہو گا کہ اس کے سر کا چمڑا اڑ چکا ہو گا۔
اس وجہ سے اسے گنجا کہا جائے گا، کیونکہ سانپ کے بال نہیں ہوں گے جو زہر کی وجہ سے اڑ چکے ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1403   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2378  
2378. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اونٹنیوں کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ چشموں پر دوہا جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2378]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں کے ہاں یہ بات متعارف تھی کہ جب اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے تالابوں یا چشموں پر لے جاتے تو وہاں اونٹنیوں کو دوہتے اور دودھ فقراء و مساکین میں تقسیم کرتے۔
ضرورت مند لوگ چشموں پر جمع رہتے تاکہ دودھ پئیں۔
حدیث میں اسی حق کو نشاندہی کی گئی ہے۔
(2)
اسی طرح اگر پھل توڑا جا رہا ہے یا فصل کاٹی جا رہی ہے تو اس وقت بھی غرباء کو کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے۔
یہ باقاعدہ زکاۃ ادا کرنے سے الگ معاملہ ہے۔
ہمارے دور میں دیہاتوں کے اندر یہ حق متعارف تھا کہ جب گندم کا ڈھیر اٹھایا جاتا تو ریوڑی کے نام سے آخر میں ہاتھ بھر بھر کر گندم تقسیم کی جاتی تھی۔
واضح رہے کہ یہ حق واجب یہ فرض نہیں بلکہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2378   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4565  
4565. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالٰی مال عطا فرمائے، پھر وہ اس میں سے زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس کا مال ایک گنجے سانپ کی شکل میں ہو گا۔ اس کی آنکھوں پر دو کالے نقطے ہوں گے۔ قیامت کے دن وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بن جائے گا اور اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: جنہیں اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں۔۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4565]
حدیث حاشیہ:
واحدی نے کہا ہے۔
یہ آیت زکاۃ روکنے والوں کے متعلق نازل ہوئی اس بات پر تمام مفسرین کا اجماع ہے۔
یہ بات درست نہیں ہےبلکہ اس میں مفسرین کے کئی ایک اقوال ہیں:
مثلاً:
یہ آیت یہودیوں کے متعلق نازل ہوئی جنھوں نے آئندہ آنے والے نبی کی صفات کو چھپایا تھا۔
یہ آیت جہاد میں خرچ کرنے سے بخل کرنے والوں کے متعلق نازل ہوئی۔
اس آیت سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل و عیال اور رشتے داروں پر خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں۔
ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث کے پیش نظر پہلی شان نزول راجح ہے۔
(فتح الباري: 289/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4565   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4659  
4659. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: تمہارا خزانہ قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4659]
حدیث حاشیہ:

یہ روایت مختصر ہے۔
دوسری روایت میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اس سے زکاۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال ایک گنجے سانپ کی شکل اختیار کرے گا جس کی دو زبانیں ہوں گی اور وہ اس کے گلے کا ہار بن کر دونوں جبڑوں کو پکڑ لے گا اورکہے گا:
میں تیرا مال ہوں اور میں تیرا خزانہ ہوں، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
"جنھیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے۔
جس مال میں انھوں نے کنجوسی کی،قیامت کے دن اسی کے انھیں طوق پہنائے جائیں گے۔
" (آل عمران: 180: 3۔
وصحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1403)


گنجے سانپ سے مراد انتہائی خوفناک اورزہریلا ناگ ہے جو اسے بار بار ڈسے گا۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ آئے گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4659