فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2029
´قبر اونچی کرنے کے حکم کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ قبر پر قبہ بنایا جائے یا اس کو اونچا کیا جائے، یا اس کو پختہ بنایا جائے، سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ”یا اس پر لکھا جائے“ کا اضافہ ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2029]
اردو حاشہ:
(1) ”عمارت“ یعنی قبر کو عمارت کی طرح اونچا بنانا یا قبر کے ارد گرد عمارت بنانا، خواہ قبر کی حفاظت کے لیے ہو یا زائرین کی سہولت کے لیے، بہرصورت منع ہے کیونکہ اس طرح قبر دیر تک باقی رہے گی۔ بعد میں آنے والوں کو تنگی ہوگی، نیز یہ قبر کی پوجا پاٹ کا سبب ہے۔ آج کل ایسی قبریں مجرموں اور نشیٔ لوگوں کا اڈہ بنی ہوئی ہیں۔
(2) ”اضافہ“ قبر سے نکلنے والی مٹی کے علاوہ اور مٹی ڈالنا منع ہے کیونکہ اس طرح قبر شرعی حد سے بلند ہو جائے گی اور اسے ختم ہونے میں دیر لگے گی۔ یا اس سے مراد ضرورت سے زیادہ لمبی چوڑی قبر بنانا ہے، یہ بھی منع ہے کیونکہ اس سے جگہ تنگ ہوگی اور دوسرے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی، نیز بے مقصد جگہ ضائع ہوگی۔
(3) تحصیص، یعنی چونے وغیرہ سے پختہ کرنا کیونکہ اس سے مضبوطی اور پائیداری ہوتی ہے جبکہ شریعت کا منشا یہ ہے کہ قبر کچھ دیر کے لیے رہے، پھر ختم ہو جائے تاکہ آنے والوں کے لیے جگہ خالی ہو۔ بعض علماء نے مٹی کے ساتھ قبر لیپنے کی اجازت دی ہے مگر اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مٹی قبر کی مٹی کے علاوہ نہ ہو بلکہ قبر ہی کی مٹی پر پانی ڈال کر ہاتھ پھیر دیا جائے، البتہ اگر کوئی قبر بیٹھ کر گڑھا بن جائے تو اسے الگ مٹی سے پر کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مجبوری ہے۔
(4) ”لکھا جائے“ مثلاً: نام و نسب اور پتہ وغیرہ یا تاریخ وفات یا قرآن مجید کی آیات یا احادیث وغیرہ، گویا کچھ بھی لکھنا منع ہے کیونکہ یہ چیز قبر کو عرصۂ دراز تک باقی رکھنے کا سبب بنے گی۔ قرآن مجید وغیرہ لکھنا، اس لیے بھی منع ہے کہ قبر میں ٹوٹ پھوٹ ہوتی رہتی ہے اور یہ الفاظ مقدسہ کی بے حرمتی کا سبب بنے گی، نیز متعلقین کو تو قبر بغیر کتابت کے بھی معلوم ہوتی ہے اور عوام الناس کو اس اعلان کا کوئی فائدہ نہیں، لہٰذا لکھنا فضول ہے بلکہ ریا کاری ہے۔
(5) عوام الناس میں کسی چیز کا رائج ہو جانا اس کے جواز کی دلیل نہیں جبکہ وہ صریح فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہو جیسے مندرجہ بالا چیزیں۔ شرک بھی تو ہر دور میں محبوب عوام رہا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2029
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2030
´قبر پر عمارت بنانے کے حکم کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ بنانے ۱؎ یا اس پر عمارت بنانے ۲؎ یا اس پر کسی کے بیٹھنے ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2030]
اردو حاشہ:
”بیٹھنے سے منع فرمایا“ کیونکہ اس میں صاحب قبر کی بے حرمتی ہے یا بطور سوگ بیٹھنے سے روکا ہے یا مجاور بن کر بیٹھنا مراد ہے۔ بعض نے اس سے قضائے حاجت کے لیے بیٹھنا مراد لیا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا تمام صورتیں منع ہیں۔ اسی طرح قبر پر ٹیک لگانا بھی منع ہے کیونکہ اس میں بھی صاحب قبر کی بے حرمتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2030
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2031
´قبروں کو پختہ بنانے کے حکم کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2031]
اردو حاشہ:
اس زمانے میں جو کام چونے سے لیا جاتا تھا، آج کل وہ کام سیمنٹ سے لیا جاتا ہے، لہٰذا سیمنٹ کا استعمال بھی قبر پر منع ے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2029)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2031