فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1418
´خطیب کے جمعہ کے دونوں خطبوں کے درمیان خاموشی سے بیٹھنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا، پھر آپ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے اور دوسرا خطبہ دیتے، جو تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو جھوٹا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1418]
1418۔ اردو حاشیہ:
➊ ”کلام نہ فرماتے“ یعنی تقریر نہ فرماتے تھے۔ اس میں آہستہ ذکر کی نفی نہیں۔ حدیث شریف میں ہے: «كانَ النبيُّ صَلّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ على كُلِّ أحْيانِهِ» [صحیح البخاري، الحیض، باب: 7، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 373] ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر فرماتے تھے۔“ لہٰذا اس دوران میں اگر کوئی دل میں ذکر کرے تو کوئی حرج نہیں۔
➋ دوسرا خطبہ الگ سے شروع کرنا چاہیے، یعنی حمد و ثنا، درود اور قرأت قرآن سے ابتدا کی جائے، پھر ذکر اور دعا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1418
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1419
´دوسرے خطبے میں قرأت اور ذکر الٰہی کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور کچھ آیتیں پڑھتے، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ۱؎ اور آپ کا خطبہ درمیانی ہوتا تھا، اور نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1419]
1419۔ اردو حاشیہ: دونوں (نماز اور خطبے) کے درمیانے ہونے سے یہ لازم نہیں آتاکہ دونوں برابر ہوتے تھے بلکہ نماز، نمازوں کے لحاظ سے درمیانی ہوتی اور خطبہ، خطبوں کے لحاظ سے درمیانہ ہوتا کیونکہ یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1419
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1575
´نماز امام کے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا بیان۔`
سماک کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ کچھ دیر بیٹھتے تھے پھر کھڑے ہو جاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1575]
1575۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی عید کا ذکر نہیں ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مصنف رحمہ اللہ عید کے خطبے کو جمعے کے خطبے کی طرح سمجھتے ہیں، یعنی اس کے بھی دو خطبے ہوں گے۔ درمیان میں امام بیٹھے گا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ درمیان میں بیٹھنا خطبے کی طوالت اور امام کی سہولت اور آرام کے لیے ہے یا اختتام خطبہ کا قرب ظاہر کرنے کے لیے؟ دوسری وجہ ہو تو دوسرا خطبہ مختصر ہونا چاہیے اور یہی درست ہے۔ پہلی وجہ ہو تو دونوں خطبے برابر ہونے چاہییں مگر یہ معمول نہیں۔ بعض محققین علماء نے عید میں ایک خطبہ ہی درست سمجھا ہے کیونکہ کسی صحیح روایت میں صراحتاً عید کے دو خطبوں کا ذکر نہیں۔ سنن ابن ماجہ کی جس روایت میں دو خطبوں کا ذکر ہے، وہ روایت ابوبحر عبدالرحمن بن عثمان بن امیہ اور اس کے شیخ اسماعیل بن مسلم الخولانی کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل حجت ہے کیونکہ یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ (سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، حدیث: 1289) بنابریں یہ کیفیت، یعنی درمیان میں بیٹھنا، صرف خطبۂ جمعہ میں ثابت ہے۔ راجح اور درست موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ عید میں ایک ہی خطبہ ہے۔ واللہ اعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1575
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1583
´خطبہ میں میانہ روی کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا، تو آپ کی نماز درمیانی ہوتی تھی، اور آپ کا خطبہ (بھی) درمیانہ (اوسط درجہ کا) ہوتا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1583]
1583۔ اردو حاشیہ: نماز نہ بہت طویل ہوتی کہ لوگ اکتا جائیں اور نہ بہت مختصر کہ لوگ ساتھ نہ مل سکیں۔ یہ مطلب نہیں کہ نماز اور خطبہ برابر ہوتے تھے کیونکہ دونوں اپنی حقیقت اور ہیئت میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لہٰذا ان کے پیمانے الگ الگ ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1583
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1584
´دونوں خطبوں میں بیٹھنے اور اس میں خاموش رہنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا، پھر آپ تھوڑی دیر کے لیے بیٹھتے اس میں بولتے نہیں، پھر کھڑے ہوتے، اور دوسرا خطبہ دیتے، تو جو شخص تمہیں یہ خبر دے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر خطبہ دیا تو اس کی تصدیق نہ کرنا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1584]
1584۔ اردو حاشیہ:
➊ دو خطبوں کے درمیان بیٹھے ہوئے خاموش رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دوران میں خطبہ روک دینا چاہیے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ذکر اذکار بھی نہیں کر سکتا۔ حدیث میں کلام کی نفی ہے۔ عرف عام میں ذکر کو کلام نہیں کیا جاتا، لہٰذا ذکر جائز ہے۔
➋ خطبۂ جمعہ یا خطبۂ عید کھڑے ہو کر ہی دینا چاہیے الایہ کہ کوئی معقول عذر ہو، مثلاً: بیماری، معذوری وغیرہ۔ لیکن بلاوجہ بیٹھ کر خطبہ دینے کو معمول بنالینا خلاف سنت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1584
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1585
´دوسرے خطبہ میں قرآن پڑھنے اور ذکر الٰہی کرنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، پھر بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور بعض آیتیں پڑھتے اور اللہ کا ذکر کرتے، اور آپ کا خطبہ اور آپ کی نماز متوسط (درمیانی) ہوا کرتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1585]
1585۔ اردو حاشیہ: ”اللہ کی باتیں ذکر فرماتے۔“ دوسرے معنی یہ ہیں کہ ”اللہ کا ذکر فرماتے۔“ (نیز دیکھیے، حدیث: 1583]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1585
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1093
´کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کے دن) کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر (تھوڑی دیر) بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، لہٰذا جو تم سے یہ بیان کرے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو ہے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھ چکا ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1093]
1093۔ اردو حاشیہ:
بغیر عذر شرعی کے بیٹھ کے خطبہ دینا جائز نہیں ہے، جو لوگ مسنون خطبوں سے پہلے منبر پر بیٹھ کر بیان یا تقریر کرتے ہیں انہیں اپنے اس خلاف سنت عمل پر غور کرنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1093
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1101
´کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز درمیانی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانی ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی چند آیتیں پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1101]
1101۔ اردو حاشیہ:
➊ خطبہ جمعہ کو بہت زیادہ طویل کر دینا اور اس کے بالمقابل نماز کو مختصر رکھنا خلاف سنت ہے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں دینا ضروری نہیں بلکہ اس سے اصل مقصد تو یہ ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہو اس لئے خطبہ اس زبان میں ہونا چاہیے جو لوگوں کی سمجھ میں آ سکے۔ اور وہ خطبہ سن کر اس سے نصیحت حاصل کر سکیں۔ اور ان کی زندگی میں انقلاب آئے۔
➌ اگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں ہو اور بس، تو عربی نہ جاننے والوں کی سمجھ میں اس سے کیا آئے گا؟ اور کیسے ان کی اصلاح ہو گی؟ اس طرح تو وعظ و نصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1101
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1995
حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیتے تھے، ان کے درمیان بیٹھتے تھے، قرآن پڑھتے اور لوگوں کو وعظ ونصیحت فرماتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1995]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
خطبہ جمعہ کا اصل مقصد قرآن کے ذریعہ لوگوں کو تذکیر،
یاددہانی ہے کہ انہیں ان کا مقصد زندگی یاد دلایا جائے گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1995
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2004
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ میں نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتا تھا آپﷺ کی نماز بھی درمیانی تھی اور آپﷺ کا خطبہ بھی درمیانہ تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2004]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اسلام کا اصل کمال اور خوبی یہی ہے کہ اس میں اعتدال وتوسط اور درمیانہ روی ہے کسی جگہ بھی افراط وتفریط نہیں ہے۔
اس اصول اورضابطہ کے مطابق آپﷺ کی نماز اورخطبہ میں نہ بہت طول ہوتا اورنہ بہت اختصار بلکہ دونوں کی مقدار معتدل اور متوسط ہوتی تھی۔
اس لیے خطبہ میں اعتدال خطیب کی سوجھ بوجھ اورعقل ودانش کی علامت ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2004