الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
13. باب النَّهْيِ عَنِ الْبُصَاقِ فِي الْمَسْجِدِ فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا:
13. باب: مسجد میں تھوکنے کی ممانعت نماز میں ہو یا نماز کے سوا۔
حدیث نمبر: 1225
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جميعا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَحَكَّهَا بِحَصَاةٍ، ثُمَّ نَهَى أَنْ يَبْزُقَ الرَّجُلُ عَنْ يَمِينِهِ أَوْ أَمَامَهُ، وَلَكِنْ يَبْزُقُ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ الْيُسْرَى ".
) سفیان بن عیینہ نے زہری سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلے (کی سمت) میں بلغم دیکھا تو آپ نے اسے ایک کنکر کے ذریعے سے کھر چ ڈالا، پھر آپ نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص اپنے دائیں یا سامنے تھوکے، البتہ وہ (اگر کچی زمین یا ریت پر نماز پڑ ھ رہا ہے تو) اپنی بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ کی دیوار پر بلغم دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کنکری سے کھرچ ڈالا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا آدمی اپنے دائیں یا سامنے تھوکے، البتہ وہ اپنے بائیں اور بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 548
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريإذا تنخم أحدكم فلا يتنخم قبل وجهه ولا عن يمينه ليبصق عن يساره أو تحت قدمه اليسرى
   صحيح البخاريإذا تنخم أحدكم فلا يتنخمن قبل وجهه ولا عن يمينه ليبصق عن يساره أو تحت قدمه اليسرى
   صحيح مسلمنهى أن يبزق الرجل عن يمينه أو أمامه يبزق عن يساره أو تحت قدمه اليسرى

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 1225 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1225  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اگر انسان اکیلا ہو تو وہ مسجد سے باہر،
اپنے بائیں تھوک سکتا ہے،
اگر اس کی بائیں جانب دوسرا آدمی موجود ہو تو پھر بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1225   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 409  
409. حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر بلغم دیکھا تو ایک کنکری لی اور اسے کھرچ دیا اور فرمایا: "اگر کسی کو بلغم آئے تو وہ اسے سامنے کی جانب تھوکے نہ دائیں جانب، بلکہ اپنی بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:409]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب میں رینٹ کا ذکر تھا اورحدیث میں بلغم کا ذکر ہے۔
چونکہ یہ دونوں آدمی کے فضلے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے، حدیث مذکور میں نماز کی قیدنہیں ہے۔
مگرآگے یہی روایت آدم بن ابی ایاس سے آرہی ہے اس میں نماز کی قید ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت مطلق ہے۔
یعنی نماز میں ہویا غیر نماز میں مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنامنع ہے۔
پچھلے باب میں تھوک کو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے کا ذکر تھا اوریہاں کنکری سے کھرچنے کا ذکر ہے۔
جس سے ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی ایسا کیا، کبھی ایسا کیا، دونوں طرح سے مسجد کو صاف کرنا مقصد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 409   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:409  
409. حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر بلغم دیکھا تو ایک کنکری لی اور اسے کھرچ دیا اور فرمایا: "اگر کسی کو بلغم آئے تو وہ اسے سامنے کی جانب تھوکے نہ دائیں جانب، بلکہ اپنی بائیں جانب یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:409]
حدیث حاشیہ:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری لکھتے ہیں کہ اس عنوان سے امام بخاریؒ ان حضرات کی تردید کرتے ہیں جنھوں نے مذکورہ حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ناک کی رطوبت کو ناپاک قراردیا ہے، ان کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بذات خود اس کام کو سر انجام دینا صرف مسجد کی نظافت کے پیش نظر نہ تھا، بلکہ آپ مسجد کو نجاست سے پاک کرنا چاہتے تھے، لیکن ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ کے پیش نظر ان حضرات کی تردید ہی ہو، کیونکہ امام بخاری نے عام طور پر اپنے تراجم میں ایسی چیزوں کو ملحوظ رکھا ہے اور حضرت ابن عباس ؓ کا اثر بھی شاید اسی مقصد کے پیش نظر ذکر کیا ہو کہ اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے لیکن میرے نزدیک اس کی عمدہ توجیہ یہ ہے کہ امام بخاری ؒ کے پاس ایک حدیث متعدد سندوں سے ہوتی ہے تو وہ ان تمام سندوں کو ایک جگہ ذکر نہیں کرتے بلکہ ان کی عادت ہے کہ ہر روایت کو مستقل عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں اور الفاظ حدیث کی رعایت سے عنوان اور ترجمہ میں تنوع پیدا کر دیتے ہیں اور اصل مقصد اس حدیث کی مختلف سندوں کا ذکرکرنا ہوتا ہے کہ وگرنہ باب البزاق اور باب المخاط دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔
امام بخاریؒ کا مقصد بعض اوقات ابواب نہیں، بلکہ روایات ہوتی ہیں چنانچہ یہاں بھی مقصود ابواب نہیں بلکہ روایات ہیں۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 409   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:411  
411. حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید ؓ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد کی دیوار پر بلغم لگا ہوا دیکھا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک سنگریزہ اٹھایا اور اسے صاف کر دیا، پھر فرمایا: اگر کسی کو بلغم آءے تو وہ اسے سامنے کی جانب نہ تھوکے اور نہ دائیں جانب ڈالے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:411]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے عنوان میں بحالت نماز دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کا ذکر کیا ہے، جبکہ روایات مطلق ہیں، ان میں نماز کی قید نہیں ہے، تاہم دیگر روایات میں نماز کی قید موجود ہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری حدیث انس 413 اور حدیث ابی ہریرہ ؓ 416 میں ہے، اس لیے امام بخاری ؒ کے نزدیک ان مطلق روایات کو مقید روایات پر محمول کیا جائے گا۔
نماز کے علاوہ دائیں جانب تھوکنا جائز ہے یا نہیں؟ اس کے متعلق دیگر روایات کو دیکھنا ہو گا۔

امام نووی ؒ نے اس کے متعلق مطلق طور بت ممانعت کا ذکر کیا ہے، خواہ مسجد میں وہ یا مسجد سے باہر نماز میں ہو یا نماز سے خارج۔
چنانچہ متعدد اسلاف سے اس کی ممانعت منقول ہے۔
جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ انھوں نے نماز کے علاوہ بھی دائیں جانب تھوکنے کو ممنوع قراردیا ہے، حضرت معاذ بن جبل ؓ کہتے ہیں میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد بھی دائیں جانب نہیں تھوکا۔
حضرت عمر عبدالعزیز ؒ نے اپنے صاحبزادے کو دائیں جانب تھوکنے سے مطلق طور پر منع فرمایا۔
جو حضرات بحالت نماز کی قید لگاتے ہیں ان کی دلیل غالباً وہ روایت ہے جس میں ہے کہ نماز میں دائیں جانب فرشتہ ہوتا ہے۔
(صحیح البخاري،الصلاة، حدیث: 416)
یہ اس صورت میں ہو گا کہ جب نگرانی کرنے اور حسنات لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ فرشتہ مراد ہو، کیونکہ نگران اور کراماً کا تبین تو ہر وقت ہی دائیں جانب رہتے ہیں۔
(فتح الباري: 661/1)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں فی الصلاۃ کا لفظ بڑھا کر امام مالک ؒ کی تائید کی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک یہ ممانعت نماز کے ساتھ خاص ہے۔
ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف راجح ہے، کیونکہ بحالت نماز اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ نمازی کی دائیں جانب متعین کرتا ہے جو اس کے دل کی حفاظت کرتا ہے، اس لیے بحالت نماز دائیں جانب تھوکنا ممنوع اور بائیں جانب جائز ہے۔
واضح رہے کہ نمازی کو بائیں جانب تھوکنے کی اجازت اس وقت ہوگی، جب اس کے بائیں جانب کوئی نمازی نہ ہو، جیسا کہ ہم آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت کریں گے، بائیں جانب تھوکنے کے جواز کے لیے مشہور ہے کہ بائیں جانب شیطان ہوتا ہےجو اس کے دل میں وساوس ڈالتا ہے یہ تھوک شیطان کے سر پر گرتا ہے اور یوں اس کی ذلت و رسوائی کا سامان ہوتا ہے۔
اس توجیہ کی بنیاد ایک روایت ہے جو اگرچہ مشہور ہے، لیکن بالکل ضعیف ہے، ملاحظہ ہو۔
المعجم الکبیر للطبراني ؒ 8/199، رقم الحدیث: 7808، الطبعة الثانیة
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 411