سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان کے زمانے میں زلزلہ آیا، جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو کہنے لگے ہم اصحاب رسول محمد صلی الله علیہ وسلم ان آیات و معجزات کو برکت کی نظر سے دیکھتے تھے اور تم اس سے ڈرتے ہو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت آ پہنچا اور ہمارے پاس تھوڑا سا پانی تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تھوڑا سا پانی منگا کر ایک برتن میں رکھ دیا اور اس پر اپنا دست مبارک رکھ دیا اور پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے ابلنے لگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی والوں کے پاس آؤ (دوسرے نسخے میں ہے: وضوء کے لئے آؤ) اور برکت تو الله تعالی کی طرف سے ہے۔“ راوی نے کہا: چنانچہ لوگ اس طرف متوجہ ہوئے اور وضو کیا اور مجھے تو اس وقت اس پانی کو اپنے پیٹ میں بھرنے کی پڑی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ برکت اللہ کی طرف سے ہے۔ راوی نے کہا اس کو میں نے سالم بن ابی الجعد سے بیان کیا تو انہوں نے کہا اس وقت صحابہ کرام کی تعداد پندرہ سو تھی۔ [سنن دارمي/مقدمه/حدیث: 30]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 30] » یہ حدیث صحیح ہے تخریج پچھلی حدیث میں گزر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 25 سے 30) ان تمام روایات صحیحہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزه آشکارہ ہوا کہ اتنا بڑا لشکر، اور پانی کے چند قطرے، آپ دعا کرتے ہیں اور پانی چشمے کی طرح ابلنے لگتا ہے، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی دلیل ہے، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور حق بیانی دیکھئے کہ اس عظیم واقعہ کے رونما ہونے پر اس معجزہ کو اپنے بجائے ”رب العالمین“ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ یہ الله تعالیٰ ہی کی نوازش و کرم ہے۔
بينا نحن مع رسول الله في سفر إذ حضرت الصلاة وليس معنا ماء إلا يسير فدعا رسول الله بماء في صحفة ووضع كفه فيه جعل الماء يتبجس من بين أصابعه نادى حي على الوضوء والبركة من الله أقبل الناس فتوضئوا وجعلت لا هم لي إلا ما أدخله بطني لقوله والبركة من الله فحدثت به