تخریج: «أخرجه أبوداود، الفرائض، باب في ميراث ذوي الأرحام، حديث:2899، 2901، والنسائي في الكبرٰي:4 /76، 77، حديث:6354، 6355، 6356، وابن ماجه، الديات، حديث:2634، وأحمد:1 /28، 46، 4 /131، وانظر علل الحديث لابن أبي حاتم الرازي:2 /51، وابن حبان (الإحسان):7 /611، حديث:6003، والحاكم:4 /344.»
تشریح:
1.اس حدیث کی رو سے اگر ذوی الفروض اور عصبہ میں سے کوئی زندہ نہ ہو تو پھر ماموں وارث ہوگا۔
2. ذوی الارحام کو وارث قرار دینے میں علمائے میراث میں اختلاف ہے‘ ایک بڑی جماعت انھیں وارث قرار دیتی ہے۔
3. خالہ کی حیثیت بھی وہی ہے جو ماموں کی ہے۔
اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے گا۔
4. جو لوگ ذوی الارحام کی وارثت کے قائل نہیں ان کے نزدیک عصبات کی عدم موجودگی میں ترکہ بیت المال میں جمع کرا دیا جائے گا۔
لیکن اس مسئلے میں جمہور کی رائے ہی راجح ہے۔