مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 660
660. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا: انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لیے اور جدا ہوں تو بھی اس کے لیے، وہ شخص جسے کوئی خوبرو اور معزز عورت برائی کی دعوت دے اور وہ کہہ دے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشیدہ طور پر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس کا دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے اور ساتواں وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو (بےساختہ) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:660]
حدیث حاشیہ:
علامہ ابوشامہ عبدالرحمن بن اسماعیل ؒ نے ان سات خوش نصیبوں کا ذکر ان شعروں میں منظوم فرمایا ہے:
و قال النبي المصطفی إن سبعة یظلهم اللہ الکریم بظله محب عفیف ناشي متصدق باك مصل و الإمام بعدله ان سات کے علاوہ بھی اوربہت سے نیک اعمال ہیں۔
جن کے بجا لانے والوں کو سایہ عرش عظیم کی بشارت دی گئی ہے۔
حدیث کے لفظ قلبه معلق في المساجد (یعنی وہ نمازی جس کا دل مسجد سے لٹکا ہوا رہتاہو)
سے باب کا مقصد ثابت ہوتا ہے۔
باقی ان ساتوں پر تبصرہ کیا جائے تو دفاتر بھی ناکافی ہیں۔
متصدق کے بارے میں مسنداحمد میں ایک حدیث مرفوعاً حضرت انس ؓ سے مروی ہے جس میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے کہا یااللہ! تیری کائنات میں کوئی مخلوق پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے؟ اللہ نے فرمایا ہاں لوہا ہے۔
پھر پوچھا کہ کوئی مخلوق لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے فرمایا کہ ہاں آگ ہے جو لوہے کو بھی پانی بنا دیتی ہے۔
پھر پوچھا پروردگار کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
فرمایا ہاں پانی ہے جو آگ کو بھی بجھا دیتا ہے۔
پھر پوچھا الٰہی کوئی چیز پانی سے بھی زیادہ اہم ہے فرمایا ہاں ہوا ہے جو پانی کو بھی خشک کردیتی ہے، پھر پوچھا کہ یااللہ! کوئی چیز ہوا سے بھی زیادہ اہم ہے فرمایا ہاں آدم کا وہ بیٹا جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ کیاصدقہ کیا۔
حدیث مذکورہ میں جن سات خوش نصیبوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مخصوص طور پر مردوں ہی کو نہ سمجھنا چاہئیے۔
بلکہ عورتیں بھی اس شرف میں داخل ہوسکتی ہیں اورساتوں وصفوں میں سے ہر ہر وصف اس عور ت پر بھی صادق آسکتا ہے جس کے اندر وہ خوبی پیدا ہو۔
مثلاً ساتواں امام عادل ہے۔
اس میں وہ عورت بھی داخل ہے جو اپنے گھر کی ملکہ ہے اور اپنے ماتحتوں پر عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرتی ہے۔
اپنے جملہ متعلقین میں سے کسی کی حق تلفی نہیں کرتی، نہ وہ کسی کی رو رعایت کرتی ہے بلکہ ہمہ وقت عدل و انصاف کو مقدم رکھتی ہے وعلی هذاالقیاس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 660
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1423
1423. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا:انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں ٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لیے اور جدا ہوں تو اس کے لیے، وہ شخص جسے کوئی خوبرواور حسب ونسب والی عورت برائی کو دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشیدہ طورپر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ ہوکہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے، ساتواں وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1423]
حدیث حاشیہ:
قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مرد ہوں یا عورت ان پر حصر نہیں ہے۔
بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا۔
بعض علماء نے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے۔
بعض نے اس فہرست کو چالیس تک بھی پہنچادیا ہے۔
یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ للہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی۔
اس سے غایت خلوص مراد ہے۔
انصاف کرنے والا حاکم چودھری‘ پنچ‘ اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جو ان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی الٰہی محبت رکھنے والے مسلمان اور صاحب عصمت وعفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کاربند ہونے والوں کو عرش الٰہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے۔
اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف وکم وتاویل تسلیم کرنا ضروری ہے۔
قرآن پاک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے۔
بلا شک وشبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے۔
اس کے لیے عرش کا استواءاور جہت فوق ثابت اور برحق ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1423
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6479
6479. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالٰی اپنے سائے میں پناہ دے گا: (ان میں ایک وہ شخص بھی ہے) جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6479]
حدیث حاشیہ:
اس کا رونا اللہ کو پسند آگیا اسی سے اس کی نجات ہو سکتی ہے اور وہ عرش الٰہی کے سایہ کا حق دار بن سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6479
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6806
6806. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے تلے جگہ دے گا۔ اس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عادل حکمران وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو، جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے وہ دو آدمی جو صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں وہ شخص جسے کوئی بلند مرتبہ اور خوبرو عورت اپنی طرف بلائے لیکن وہ کہے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اس قدر پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں ہاتھ نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6806]
حدیث حاشیہ:
مدارج اخروی حاصل کرنے اور دین و دنیا کی سعادتیں پانے کے لیے یہ حدیث ہر مومن مسلمان کو ہر وقت یاد رکھنے کے قابل ہے۔
عرش الٰہی کا سایہ پانے والوں کی فہرست بہت طویل ہے۔
اللہ پاک ہر مومن مسلمان کو روز محشر میں اپنی ظل عاطفت میں جگہ نصیب فرمائے، خاص طور پر بخاری شریف پڑھنے اور عمل کرنے والوں کو اور اس کے جملہ معاونین کرام کو یہ نعمت عطا کرے اور مجھ ناچیز اور خاص کر میرے اہل و عیال و جملہ متعلقین کو یہ سعاد بخشے۔
آمین یا رب العالمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6806
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:660
660. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہو گا: انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لیے اور جدا ہوں تو بھی اس کے لیے، وہ شخص جسے کوئی خوبرو اور معزز عورت برائی کی دعوت دے اور وہ کہہ دے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشیدہ طور پر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس کا دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے اور ساتواں وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو (بےساختہ) اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:660]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں کوئی لفط ایسا نہیں ہے جس سے آسانی کے ساتھ عنوان بالا کو ثابت کیا جاسکے البتہ ”وہ شخص جس کا دل مسجدوں میں اٹکا رہتا ہو“ کے الفاط ایسے ہیں جس کے ظاہری معنی تو مراد نہیں ہیں البتہ مجازی معنی نماز کا انتظار کرنے کے ہیں جس کی بنا پر وہ اس اعزاز کا حق دار ہوگا۔
عنوان کو انھی الفاظ سے ثابت کیا گیا ہے۔
(2)
اس حدیث کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الرقاق، حدیث: 6479 کے تحت پیش کریں گے، البتہ اس مقام پر دو بنیادی باتیں بیان کردینا ضروری ہیں:
٭ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے تلے جگہ پانے کا یہ اعزاز حدیث میں مذکور صرف سات قسم کے لوگوں کے ساتھ خاص نہیں بلکہ رحمت الہٰی کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ دیگر احادیث میں اس قسم کے لوگوں کی تعداد تقریبا ستر تک پہنچتی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مختلف احوال و ظروف کے پیش نظر بیان فرمائی ہے،اس لیے حدیث میں سات کا عدد حصر کے لیے نہیں۔
٭ اس حدیث میں جن سات خوش قسمت حضرات کا ذکر ہے وہ صرف مردوں ہی سے نہیں بلکہ عورتیں بھی اس اعزاز میں داخل ہیں حتیٰ کہ وہ عورت جو اپنے گھر کی مالکہ ہے اور اپنے گھر میں عدل و انصاف کرتی ہے، متعلقین میں سے کسی کی حق تلفی نہیں کرتی بلکہ ہمہ وقت عدل وانصاف کو مقدم سمجھتی ہے، وہ ”انصاف کرنے والے حکمران“ میں شامل ہو گی۔
البتہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے، اس لیے مسجد کے ساتھ دل اٹکنے والی بات عورت پر صادق نہیں آئے گی۔
(فتح الباري: 192/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 660
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1423
1423. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا جس روز اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا:انصاف کرنے والا حکمران، وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھے، وہ شخص جس کا دل مسجد میں ٹکا رہتا ہو، وہ دو شخص جو اللہ کے لیے دوستی کریں، جمع ہوں تو اس کے لیے اور جدا ہوں تو اس کے لیے، وہ شخص جسے کوئی خوبرواور حسب ونسب والی عورت برائی کو دعوت دے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، وہ شخص جو اس قدر پوشیدہ طورپر صدقہ دے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ ہوکہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا ہے، ساتواں وہ شخص جو خلوت میں اللہ کو یاد کرے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1423]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انسان کو صدقہ وغیرہ دینے کا خود اہتمام کرنا چاہیے اور دیتے وقت اپنے دائیں ہاتھ سے دے اور اس قدر راز داری کے ساتھ ادا کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چلے۔
یہ انداز پوشیدہ طور پر دینے میں انتہائی مبالغے پر مبنی ہے، بلکہ اس سے انتہائی خلوص اور للہیت مراد ہے۔
(2)
واضح رہے کہ حدیث میں مذکور اعزاز صرف سات قسم کے لوگوں کے لیے خاص نہیں، بلکہ رحمت الٰہی کا یہ عالم ہے کہ دیگر احادیث میں اس قسم کے لوگوں کی تعداد تقریبا ستر تک پہنچتی ہے جو رسول اللہ ﷺ نے مختلف احوال و ظروف کو مدنظر رکھتے ہوئے بیان فرمائی ہے۔
ان میں مرد یا عورت کے متعلق بھی حصر نہیں۔
بعض محدثین نے اس موضوع پر مستقل رسالے بھی لکھے ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6479
6479. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”سات طرح کے لوگ وہ ہیں جنہیں اللہ تعالٰی اپنے سائے میں پناہ دے گا: (ان میں ایک وہ شخص بھی ہے) جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6479]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کے ڈر سے آبدیدہ ہونا اور آنسو بہانا بہت بڑی نعمت ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے کنارے پر بیٹھ گئے اور اتنا روئے کہ مٹی تر ہو گئی، پھر فرمایا:
”بھائیو! اس کے لیے تیاری کر لو۔
“ (مسند أحمد: 294/4، والصحیحة للألباني، حدیث: 1751)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6479
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6806
6806. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے تلے جگہ دے گا۔ اس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ عادل حکمران وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں پروان چڑھا ہو، جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہہ پڑیں، وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے وہ دو آدمی جو صرف اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں وہ شخص جسے کوئی بلند مرتبہ اور خوبرو عورت اپنی طرف بلائے لیکن وہ کہے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ شخص جس نے اس قدر پوشیدہ صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی پتہ نہ چل سکا کہ دائیں ہاتھ نے کتنا اور کیا صدقہ کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6806]
حدیث حاشیہ:
(1)
فواحش، فاحشة کی جمع ہے۔
اس کے معنی ہیں:
وہ گناہ جو انتہائی گندا ہو، خواہ اس کا تعلق کردار سے ہو یا گفتار سے۔
عام طور پر اس سے زنا کاری مراد ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”زنا کے قریب تک نہ جاؤ کیونکہ یہ ہمیشہ سے انتہائی گندا ہے۔
“ (بني إسرائیل17: 32)
لواطت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔
حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا تھا:
”کیا تم انتہائی گندے کام کا ارتکاب کرتے ہو۔
“ (الأعراف 7: 80)
امام بخاری رحمہ اللہ نے گندے کاموں کو چھوڑنے کی فضیلت کے متعلق یہ حدیث پیش کی ہے، چنانچہ اس حدیث میں ہے کہ جو شخص حسب ونسب والی خاندانی عورت کی دعوت کو ٹھکرا دیتا ہے جبکہ وہ اسے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے بلاتی ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اپنے سائے میں جگہ دے گا۔
بہرحال فواحش ومنکرات کو اللہ سے ڈرتے ہوئے چھوڑ دینا بہت بڑی فضیلت ہے۔
(فتح الباري: 138/12)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6806