الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
14. باب صلاة العيدين
14. نماز عیدین کا بیان
حدیث نمبر: 394
وعنه رضي الله عنه قال: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى وأول شيء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس والناس على صفوفهم فيعظهم ويأمرهم. متفق عليه.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید قربان (عید الاضحی) کے لئے عید گاہ کی طرف تشریف لے جاتے اور پہلی چیز جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم آغاز فرماتے وہ نماز ہوتی۔ ادائیگی نماز کے بعد رخ پھیر کر لوگوں کی طرف کھڑے ہوتے لوگ اس وقت اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو وعظ و نصیحت فرماتے اور نیکی کا حکم کرتے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 394]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، العيدين، باب الخروج إلي المصلي بغير منبر، حديث:956، ومسلم، صلاة العيدين، حديث:889.»

   صحيح البخارييخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى فأول شيء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس والناس جلوس على صفوفهم فيعظهم ويوصيهم ويأمرهم فإن كان يريد أن يقطع بعثا قطعه أو يأمر بشيء أمر به ثم ينصرف
   سنن النسائى الصغرىيخرج يوم العيد فيصلي ركعتين يخطب يأمر بالصدقة
   بلوغ المراميخرج يوم الفطر والاضحى إلى المصلى واول شيء يبدا به الصلاة ثم ينصرف فيقوم مقابل الناس والناس على صفوفهم فيعظهم ويامرهم

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 394 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 394  
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب الخروج إلي المصلي بغير منبر، حديث:956، ومسلم، صلاة العيدين، حديث:889.»
تشریح:
اس حدیث سے حسب ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں: 1.عید گاہ میں عیدین کی نماز سے پہلے کوئی عمل آپ سے ثابت نہیں۔
2.خطبہ نماز کے بعد ہونا چاہیے۔
3. خطیب کا رخ سامعین کی طرف ہونا چاہیے۔
4.خطبہ کھڑے ہو کر دینا چاہیے‘ نیز خطیب کو اپنے خطاب میں وعظ و نصیحت کا انداز اختیار کرنا چاہیے۔
ادھر ادھر کے بے فائدہ قصے کہانیاں بیان نہیں کرنے چاہییں۔
5. سامعین کو اپنی صفوں میں بیٹھے رہنا چاہیے اور رخ امام کی جانب ہونا چاہیے۔
6. نماز عیدین مسجد میں نہیں بلکہ عیدگاہ میں ادا کرنا مسنون ہے۔
آج کل بلاعذر مسجدوں میں نماز عید پڑھنے کا عام رواج ہوگیا ہے جو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔
7.نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید میں منبراستعمال نہیں فرمایا۔
صحیح بخاری میں ہے کہ سب سے پہلے مروان نے عیدگاہ میں منبر رکھوایا اور اس پر خطبہ دیا۔
(صحیح البخاري‘ العیدین‘ حدیث:۹۵۶) البتہ ابن حبان کی روایت کے مطابق نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اونٹنی پر بیٹھ کر خطبۂعید ضرور ارشاد فرمایا ہے جس سے سواری پر بیٹھ کر خطبہ دینا جائز ثابت ہوتا ہے۔
(صحیح ابن حبان (الإحسان): ۴ / ۲۰۱‘ رقم: ۲۸۱۴‘ وموارد الظمآن‘ رقم:۵۷۵‘ ومسند أبي یعلی: ۲ /۴۰۲‘ رقم:۱۱۸۲)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 394   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 956  
956. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تو پہلے جو کام کرتے وہ نماز ہوتی، اس سے فراغت کے بعد آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ تب آپ انہیں نصیحت و تلقین کرتے اور اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ پھر اگر آپ کوئی لشکر بھیجنا چاہتے تو اسے تیار کرتے یا جس کام کا حکم کرنا چاہتے اس کا حکم دے دیتے۔ اس کے بعد گھر لوٹ آتے۔ حضرت ابوسعید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی لوگ ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ میں ایک دفعہ مروان کے ہمراہ عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ پڑھنے گیا۔ وہ ان دنوں مدینے کا گورنر تھا۔ جب ہم عیدگاہ پہنچے تو ایک منبر وہاں رکھا ہوا تھا جسے کثیر بن صلت نے تیار کیا تھا۔ مروان نے چاہا کہ اچانک نماز پڑھنے سے قبل اس پر چڑھے، چنانچہ میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا لیکن اس نے مجھے جھٹک دیا۔ پھر وہ منبر پر چڑھ گیا، بعد ازاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:956]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب سے یہ بتلانا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے عہد میں عید گاہ میں منبر نہیں رکھا جاتا تھا اور نماز کے لیے کوئی خاص عمارت نہ تھی۔
میدان میں عید الفطر اور بقرعید کی نماز یں پڑھی جاتی تھیں۔
مروان جب مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے عیدگاہ میں خطبہ کے لیے منبر بھجوایا اور عیدین میں خطبہ نماز کے بعد دینا چاہیے تھا۔
لیکن مروان نے سنت کے خلاف پہلے ہی خطبہ شروع کر دیا۔
صد افسوس کہ اسلام کی فطری سادگی جلد ہی بدل دی گئی پھر ان میں دن بدن اضافے ہوتے رہے۔
علماءاحناف نے آج کل نیا اضافہ کر ڈالا کہ نماز اورخطبہ سے قبل کچھ وعظ کرتے ہیں اور گھنٹہ آدھ گھنٹہ اس میں صرف کرکے بعد میں نماز اور خطبہ محض رسمی طور پر چند منٹوں میں ختم کر دیا جاتا ہے۔
آج کوئی کثیر بن صلت نہیں جو ان اختراعات پر نوٹس لے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 956   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:956  
956. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تو پہلے جو کام کرتے وہ نماز ہوتی، اس سے فراغت کے بعد آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے۔ تب آپ انہیں نصیحت و تلقین کرتے اور اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ پھر اگر آپ کوئی لشکر بھیجنا چاہتے تو اسے تیار کرتے یا جس کام کا حکم کرنا چاہتے اس کا حکم دے دیتے۔ اس کے بعد گھر لوٹ آتے۔ حضرت ابوسعید ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی لوگ ایسا ہی کرتے رہے یہاں تک کہ میں ایک دفعہ مروان کے ہمراہ عیدالفطر یا عیدالاضحیٰ پڑھنے گیا۔ وہ ان دنوں مدینے کا گورنر تھا۔ جب ہم عیدگاہ پہنچے تو ایک منبر وہاں رکھا ہوا تھا جسے کثیر بن صلت نے تیار کیا تھا۔ مروان نے چاہا کہ اچانک نماز پڑھنے سے قبل اس پر چڑھے، چنانچہ میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا لیکن اس نے مجھے جھٹک دیا۔ پھر وہ منبر پر چڑھ گیا، بعد ازاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:956]
حدیث حاشیہ:
(1)
سنت یہی ہے کہ عیدگاہ میں خطبۂ عید کے لیے منبر استعمال نہ کیا جائے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا خطبۂ عید کے متعلق یہی معمول تھا۔
کھلی جگہ میں اس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ ایسی جگہ میں امام کو خطبہ دیتے ہوئے ہر کوئی دیکھ سکتا ہے جبکہ مسجد میں منبر کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جگہ تنگ ہونے کی بنا پر تمام سامعین خطیب کو نہیں دیکھ سکتے، اس لیے مسجد میں خطبے کے لیے منبر کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اس روایت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں خطبۂ عید کے لیے منبر کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ آپ نماز کی ادائیگی کے بعد رخ پھیر کر لوگوں کے بالمقابل کھڑے ہو جاتے تھے۔
ابن حبان کی روایت میں ہے کہ آپ نماز پڑھنے کی جگہ میں کھڑے ہو جاتے، بلکہ ابن خزیمہ کی روایت میں ہے کہ نماز ادا کرنے کے بعد وہیں اپنے پاؤں کے بل کھڑے ہو جاتے۔
(فتح الباري: 579/2) (2)
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ روایت میں یہ صراحت ہے کہ پہلا شخص جس نے عیدگاہ میں منبر کا اہتمام کیا، مروان بن حکم ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے خطبۂ عید کے لیے منبر استعمال نہیں ہوتا تھا، البتہ بخاری کی بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ خطبے سے فراغت کے بعد نیچے اترے اور خواتین کی طرف تشریف لے گئے۔
(صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 978)
اسی طرح حضرت ابن عباس ؓ سے مروی روایت میں نیچے اترنے کے الفاظ ملتے ہیں۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4898)
ان روایات سے بعض حضرات نے عیدگاہ میں منبر کے اہتمام کا مسئلہ کشید کیا ہے۔
اس کا جواب حافظ ابن قیم ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ روایات کے مطابق سب سے پہلے عیدگاہ میں خطبۂ عید کے لیے منبر کا اہتمام مروان بن حکم نے کیا تھا، پھر وہاں مستقل طور پر کچی اینٹوں کا منبر بنا دیا گیا۔
پھر اکثر روایات میں نیچے اترنے کے الفاظ نہیں ہیں، ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہوں، پھر وہاں سے اتر کر خواتین کو خطبہ دینے کے لیے ان کے پاس گئے ہوں۔
(زادالمعاد لابن قیم: 447/1)
البتہ صحیح ابن حبان میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی سواری پر خطبۂ عید ارشاد فرمایا۔
(صحیح ابن حبان، الصلاة، حدیث: 2825)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی سواری وغیرہ پر بیٹھ کر خطبۂ عید مباح اور جائز ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 956