فقہ الحدیث اس حدیث میں سفیان ثوری کی تدلیس کا کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ یہ حدیث سفیان ثوری سے یحیٰی بن سعید القطان نے بیان کی ہے اور یحیٰی القطان سفیان ثوری سے صرف وہی حدیثیں بیان کرتے تھے جو ثوری نے اپنے استاذوں سے سنی تھیں۔ دیکھیے:
[الفتح المبین ص 67] اس کے باوجود بھی بعض آل تقلید کا یہاں یہ پروپیگنڈا کہ سفیان ثوری اپنی جلالت قدر کے باوصف کبھی کبھی تدلیس بھی کرتے ہیں۔
[توضیح السنن 615/1] باطل ہے، جبکہ سماع ثابت ہے تو تدلیس کا اعتراض کیوں؟
سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایت کی کسی سند میں کوئی اضطراب نہیں، بلکہ علاء بن صالح
«ثقه عند الجمهور» نے ان کی متابعت تامہ کر رکھی ہے۔
تنبیہ: عبدالقیوم حقانی دیوبندی نے لکھا ہے: علاء بن الصالح باتفاق ضعیف ہیں۔ [توضیح السنن 209/1]
علاء بن صالح پر نیموی صاحب نے یہاں جرح کر دی ہے کہ تقریب میں ہے:
«صدوق له اوهام»، ذہبی نے ابوحاتم سے نقل کیا:
«كان من عنق الشيعة»، ابن المدینی نے کہا:
«روي احاديث مناكير۔» [التعلیق الحسن ص 195، تحت ح 384 ملخصا] اور اسی علاء بن صالح کی بیان کردہ ایک حدیث کے بارے میں خود نیموی صاحب نے کہا:
«واسناد حسن» [آثار السنن 627] سبحان اللہ کیا انصاف ہے؟
علاء بن صالح کو درج ذیل اماموں نے
«ثقه» اور
«لا باس به» قرار دیا ہے۔
یحییٰ بن معین، ابوداود، ابوحاتم الرازی، ابن حبان، یعقوب بن سفیان، ابن نمیر اور عجلی وغیرہ۔ دیکھئیے:
[تھذیب التھذیب 183/8] معلوم ہوا کہ وہ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق یعنی حسن الحدیث ہیں۔ تحریر تقریب التہذیب میں بھی اسی بات کو ترجیح دی گئی ہے کہ وہ صدوق حسن الحدیث ہیں۔