وعن معاوية بن الحكم رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إن هذه الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس، إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن» . رواه مسلم.
سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”نماز میں انسانی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں، نماز تو صرف تسبیح «سبحان الله» تکبیر «الله اكبر» اور تلاوت قرآن (پر مشتمل) ہے۔ “(مسلم)[بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 172]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب تحريم الكلام في الصلاة ونسخ ما كان من إباحته، حديث:537.»
الصلاة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن منا رجالا يأتون الكهان قال فلا تأتهم منا رجال يتطيرون قال ذاك شيء يجدونه في صدورهم فلا يصدنهم منا رجال يخطون قال كان نبي من الأنبياء يخط فمن وافق خطه فذاك أفلا أعتقها ق
الصلاة لا يحل فيها شيء من كلام الناس هذا إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن منا رجال يأتون الكهان قال فلا تأتهم قال قلت ومنا رجال يتطيرون قال ذاك شيء يجدونه في صدورهم فلا يصدهم منا رجال يخطون قال كان نبي من الأنبياء يخط فمن وافق خطه فذاك أ
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 172
� فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ دوران نماز میں ایک نمازی نے چھینک ماری، اس کے جواب میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حالت نماز میں «يَرْحَمُكَ اللهُ» کہہ دیا۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے مندرجہ بالا حدیث فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں دوسرے کو مخاطب کر کے بات کرنا منع ہے۔ ➋ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مقتدی پر نماز میں قرأت قرآن فرض ہے کیونکہ یہ جماعت کی نماز تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہوکر مقتدی کو کہا کہ نماز میں کلام الناس جائز نہیں، نماز میں تو تسبیح و تکبیر اور قرأت قرآن ہوتی ہے۔ اور مقتدی پر کون سی قرأت واجب ہے؟ اس کی وضاحت دیگر متعدد صحیح احادیث میں موجود ہے کہ وہ سورہ فاتحہ کی قرأت ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں روایت ہے، سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ»”جو شخص بھی نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔“[صحيح البخاري، الأذان، باب وجوب القراءة للإمام والمأموم فى الصلوات كلها۔۔۔، حديث: 756]
راوئ حدیث: (سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ) ان کا شمار اہل حجاز میں ہوتا ہے۔ مدینہ میں سکونت اختیار کی اور بنو سلیم میں رہنے لگے۔ شرف صحابیت سے مشرف تھے۔ 117 ہجری میں وفات پائی۔ حکم کی ”حا“ اور ”کاف“ دونوں پر فتحہ ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 172
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 931
´نماز میں چھینک کے جواب میں «یرحمک اللہ» کہنے کا بیان۔` معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے اسلام کی کچھ باتیں معلوم ہوئیں چنانچہ جو باتیں مجھے معلوم ہوئیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ جب تمہیں چھینک آئے تو «الحمد الله» کہو اور کوئی دوسرا چھینکے اور «الحمد الله» کہے تو تم «يرحمك الله» کہو۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک نماز میں کھڑا تھا کہ اسی دوران ایک شخص کو چھینک آئی اس نے «الحمد الله» کہا تو میں نے «يرحمك الله» بلند آواز سے کہا تو لوگوں نے مجھے ترچھی نظروں سے دیکھنا شروع کیا تو میں اس پر غصہ میں آ گیا، میں نے کہا: تم لوگ میری طرف کنکھیوں سے کیوں دیکھتے ہو؟ تو ان لوگوں نے «سبحان الله» کہا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”(دوران نماز) کس نے بات کی تھی؟“، لوگوں نے کہا: اس اعرابی نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلایا اور مجھ سے فرمایا: ”نماز تو بس قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے، تو جب تم نماز میں رہو تو تمہارا یہی کام ہونا چاہیئے۔“ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر شفیق اور مہربان کبھی کسی معلم کو نہیں دیکھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 931]
931۔ اردو حاشیہ: ➊ شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت سنداً ضعیف ہے، تاہم پچھلی صحیح حدیث اس کی مؤید ہے۔ ➋ نماز میں چھینک کا جواب دینا جائز نہیں ہے، البتہ خود چھینک مارنے والا اگر خاموشی سے «الحمد لله» کہے تو جائز ہے۔ ➌ نماز میں ضرورت کا اشارہ جائز ہے۔ ➍ دعوت و تعلیم اسلام میں نرمی اور اخوت کا انداز اپنانا واجب ہے۔ ➎ کاہنوں کے پاس جانا اور ان سے غیب کی خبریں دریافت کرنا حرام ہے۔ اس طرح بدفالی اور بدشکونی لینا بھی ناجائز ہے۔ ➏ علم خطوط دراصل وحی شدہ علم تھا مگر اٹھا لیا گیا۔ اسے حضرت ادریس علیہ السلام یا دانیال علیہ السلام کی طرف منسو ب کیا جاتا ہے، اب اس میں مشغول ہونا اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے، اس پر کسی طرح بھی اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ جوابات میں حق کا اثبات اور باطل کا ابطال نہایت عمدہ انداز میں ہوا ہے۔ اس میں داعی اور مفتی حضرات کے لئے بہت بڑا درس ہے۔ ➐ خادم وغیرہ کو بلاوجہ معقول سزا دینا ظلم اور ناجائز ہے، چاہیے کہ انسان اس کا کفارہ ادا کرے۔ ➑ اسلام کی تعلیمات عقائد و اعمال انتہائی سادہ اور فطرت کے مطابق ہیں اور ان کی بنیاد توحید و رسالت پر ہے۔ ➒ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اور اس کی طرف جہت و جانب کی نسبت کرنا عین حق ہے۔ ➓ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 931
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1199
حضرت معاویہ بن حکم سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا، اسی اثنا مین لوگوں میں سے ایک آدمی کو چھینک آئی تو میں نے کہا: (یَرْحَمُكَ اللُّٰہ) اللّٰہ تجھے رحمت سے نوازے۔ تو لوگوں نے مجھے گھورنا شروع کر دیا تو میں نے کہا: کاش میری ماں مجھے گم پاتی (میں مر چکا ہوتا) تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہے ہو تو وہ اپنے ہاتھ اپنی رانوں پر مارنے لگے، جب میں نے ان کو جانا کہ وہ مجھے چپ کرا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1199]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) عَطَسَ: اس نے چھینک ماری۔ (2) رَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ: تو لوگوں نے مجھ پر آنکھوں کے تیرے برسائے۔ یعنی غضبناک نگاہوں سے دیکھا۔ (3) ثَكل: گم پانا۔ اثكل امياه ہائے میری ماں مجھے گم پاتی، میں مر چکا ہوتا۔ اثكل امی تھا، مندوب ہونے کی وجہ سے آواز کو کھینچنے (لمبا کرنا) کے لیے آخر میں الف اور ہاء کا اضافہ کر دیا۔ (4) يُصَمِّتُونَنِي: مجھے چپ کرا رہے تھے۔ کھر، قہرنہر، تینوں قریب المعنی لفظ ہیں، سرزنش وتوبیخ کرنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا، جَاهِلِيَّةٍ: اسلام کی آمد سے پہلے کا دور، حَدِيثُ عَهْدٍ: کسی دور سے نیا نیا نکلنا۔ (5) لَا يَصُدَّنَّهُمْ: ان کو نہ روکے، وہ اپنے کام اور ارادہ سے باز نہ آئیں۔ (6) يَخُطُّ: وہ زائچہ تیار کرتے تھے۔ (7) الْجَوَّانِيَّةِ: احد پہاڑکے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔ (8) آسَفُ: میں غم وحزن اور غضب وغصہ میں مبتلا ہوتا ہوں۔ (9) صَكَكْتُهَا صَكَّةً: میں نے اسے زور سے تھپڑ رسید کیا۔ (10) عَظَّمَ ذَلِكَ عَلَيَّ: آپﷺ نے اسے میرے لیے بہت برا قرار دیا۔ فوائد ومسائل: (1) نماز کے اندر اگر کسی کو چھینک آ جائے تو اس کو دعا دینا جائز نہیں ہے لیکن جس کو چھینک آئے وہ الحمد اللہ کہہ سکتا ہے حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھینکنے والے کو دعانا واقفیت اور جہالت کی بنا پر دی تھی اس لیے آپ نے اس کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔ اس بنا پر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہورعلماء کا یہ نظریہ ہے کہ ایک نمازی بھول کر یا جہالت کی بنا پر ایک آدھ کلمہ کہہ بیٹھے تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی نماز باطل ہو جائے گی لیکن یہ بات بے دلیل ہے۔ (2) نماز میں ضرورت کی صورت میں معمولی اشارہ سے کام لینا جائز ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ساتھی کو چپ کرانے کے لیے اپنی رانوں پر ہاتھ مارے تو آپﷺ نے ان کو منع نہیں فرمایا۔ (3) کاہن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کرتے ہیں ان کے پاس جانا جائز نہیں ہے۔ (4) بدشگونی اور نحوست پکڑنا بھی جائز نہیں ہے اگر کسی کے دل میں بدشگونی کا خیال پیدا ہو جائے تو اسے اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے اور اس کی بناپر اپنے ارادہ اور کام سے رکنا نہیں چاہیے۔ (5) لکیریں کھینچنا جس کو علم جس کو علم رمل کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ زائچہ تیار کیا جاتا ہے یہ درست نہیں ہے کیونکہ پیغمبر کو اس کا جو علم حاصل تھا اس علم کو ہم نہیں جانتے اس لیے اس کی موافقت ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ (6) انسان کو اپنے ماتحتوں سے نرم رویہ رکھنا چاہیے ان پر ظلم و زیادتی روا رکھنا جائز نہیں ہے اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو اس کی تلافی کرنی چاہیے۔ (7) فِي السَّمَاءِ: کا معنی عَلَي السَّماءِ ہے فی علی کے معنی میں ہے جیسا کہ: ﴿سِيرُوا فِي الأرْضِ﴾ اور ﴿وَلَأُصَلِّبَنَّكُمْ فِي جُذُوعِ النَّخْلِ﴾ میں ہے اور اس سے ثابت ہوا اللہ تعالیٰ اوپرہے۔ (8) انسان کے حسن سلوک کا زیادہ حقدار مسلمان مرد اور عورت ہے۔