وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إذا وطىء أحدكم الأذى بخفيه فطهورهما التراب» . أخرجه أبو داود وصححه ابن حبان.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم میں سے کوئی ایک جب اپنے موزوں سے گندگی پر چلے تو بیشک مٹی اسے پاک و صاف کرنے والی ہے۔ “ ابوداؤد نے اسے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 171]
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 171
� لغوی تشریح: «وَطِيءَ أَحَدُكُمُ الْأَذٰي» نجاست کو اپنے پاؤں سے روندے اور اس پر سے گزرے اور چلے۔ «وَطِيءَ» باب «سَمِعَ يَسْمَعُ» سے ہے۔ «بِخُفَيْهِ» خف کا تثنیہ ہے جو ضمیر کی طرف مضاف ہے۔ اس میں ”با“ حرف جر ہے۔ یہ اور پہلے گزری ہوئی حدیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جوتے، موزے اور ایسی دوسری چیزیں مٹی پر رگڑنے سے پاک ہو جاتی ہیں، خواہ نجاست خشک ہو یا تر۔
فوائد و مسائل: ➊ مذکورہ روایت کو ہمارے محقق نے سنداً ضعیف کہا ہے، تاہم معناً صحیح ہے۔ غالباً اسی بنا پر امام ابن حبان رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہما اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ بنابریں جوتوں اور موزوں پر اگر کسی قسم کی نجاست لگ جائے، خواہ وہ خشک ہو یا تر، مرئی (نظر آنے والی) ہو یا غیر مرئی، خفیف ہو یا غلیظ تو وہ پاک مٹی پر اچھی طرح رگڑنے سے پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ دھونے کی چنداں ضرورت نہیں، بشرطیکہ جوتے نیچے سے برابر ہوں اور گندگی ان میں پھنس نہ جاتی ہو۔ ➋ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اس کے برعکس ہے، البتہ احناف نے امام شافعی رحمہ اللہ کے مسلک کو صحیح مانا ہے۔ ➌ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک روایت کی رو سے امام أحمد رحمہ اللہ نے بھی یہی رائے دی ہے کہ نجاست خشک ہو یا تر صرف زمین پر جوتا یا موزہ اچھی طرح رگڑنے سے پاک صاف ہو جاتا ہے، پانی سے دھو کر پاک صاف کرنے کی ضرورت نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 171