وعن جابر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال لبلال: «إذا أذنت فترسل وإذا أقمت فاحدر واجعل بين أذانك وإقامتك مقدار ما يفرغ الاكل من أكله» الحديث رواه الترمذي وضعفه. وله عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «لا يؤذن إلا متوضىء» . وضعفه أيضا.وله عن زياد بن الحارث رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «ومن أذن فهو يقيم» . وضعفه أيضا. ولأبي داود من حديث عبد الله بن زيد أنه قال: أنا رأيته يعني الأذان وأنا كنت أريده. قال: «فأقم أنت» . وفيه ضعف أيضا.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”جب اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہو اور تکبیر ذرا جلدی جلدی کہو۔ اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقفہ کرو کہ کھانا کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو کر جماعت میں شریک ہو سکے۔ “ پھر پوری حدیث بیان کی۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”وضو کے بغیر کوئی اذان نہ کہے۔“ ترمذی نے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ترمذی نے زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا ”جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔ “ ترمذی نے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابوداؤد میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں نے اذان کو خواب میں دیکھا تھا۔ میری تمنا تھی کہ مجھے مؤذن مقرر کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم تکبیر کہا کرو “ اس میں بھی ضعف ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 156]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، أبواب الصلاة، باب ما جاء في الترسل في الأذان، حديث:195* عبدالمنعم متروك وشيخه ضعيف، انظر التقريب وغيره، وللحديث شواهد ضعيفة عند الحاكم:1 /204 وغيره، وحديث أبي هريرة أخرجه الترمذي، الصلاة، حديث: 200 وسنده ضعيف، قال البهقي:1 /397"هكذا رواه معاوية بن يحيي وهو ضعيف"، وحديث زياد بن الحارث أخرجه الترمذي، الصلاة، حديث:199 وسنده ضعيف، فيه الإفريقي وهو ضعيف مشهور بالضعف، وحديث عبدالله بن زيد أخرجه أبوداود، الصلاة، حديث:512 وسنده ضعيف، محمد بن عمرو اثنان، أحدهما ضعيف، وعلله البخاري بأن بعض رواته لم يذكر سماعه من شيخه.»
ألق عليه ما قيل لك وليناد بذلك قال فلما سمع عمر بن الخطاب نداء بلال بالصلاة خرج إلى رسول الله وهو يجر إزاره وهو يقول يا رسول الله والذي بعثك بالحق لقد رأيت مثل الذي قال فقال رسول الله فلله الحمد فذلك أثبت
أراد النبي في الأذان أشياء لم يصنع منها شيئا قال فأري عبد الله بن زيد الأذان في المنام فأتى النبي فأخبره فقال ألقه على بلال فألقاه عليه فأذن بلال فقال عبد الله أنا رأيته وأنا كنت أريده قال فأقم أنت
ألقها عليه وليناد بلال فإنه أندى صوتا منك قال فخرجت مع بلال إلى المسجد فجعلت ألقيها عليه وهو ينادي بها فسمع عمر بن الخطاب بالصوت فخرج فقال يا رسول الله والله لقد رأيت مثل الذي رأى قال أبوعبيد فأخبرني أبو بكر الحكمي أن عبد الله بن زيد الأنصاري قال في ذلك
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 156
� لغوی تشریح: «فَتَرَسُّلْ» «تَرَسُّل» سے امر کا صیغہ ہے، یعنی ٹھہر ٹھہر کر، آرام سے کلمات اذان ادا کر۔ جلدی اور تیزی نہ کر۔ «فَاحْدُرُ» باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» سے امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: جلدی جلدی ادا کرنا۔ اس حدیث کی سند میں عبدالمنعم راوی ہے جسے محدثین نے متروک کہا ہے۔ لیکن اس مفہوم کی متعدد روایات ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے آہستہ آہستہ اذان دینے پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں اونچی آواز سے اذان دینے کی ترغیب ہے۔ «وَضَعَّفَهُ أَيْضًا» اس کو بھی امام ترمذی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ معاویہ بن یحییٰ یہ حدیث زہری سے روایت کرتا ہے اور زہری سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ معاویہ نہایت ضعیف ہے اور زہری کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ہی ثابت نہیں۔ اس اعتبار سے یہ روایت منقطع ہے۔ «وَمَنْ أَذَّنَ» کا ماقبل پر عطف ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: «ان اخا صداء اذن» یعنی صداء قبیلے کے ایک شخص نے اذان کہی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: «و من اذن فهو يقيم» کہ جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔ اس حدیث سے مصنف رحمہ اللہ نے یہ ٹکڑا حذف کر دیا۔ مکمل حدیث اس طرح ہے کہ زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیلہ صداء کے آدمی! اذان کہو۔“ میں نے اذان کہی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب فجر روشن ہو چکی تھی۔ جب آپ وضو کرنے کے بعد نماز پڑھانے لگے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنا چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدائی بھائی اقامت کہے گا کیونکہ جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔“ اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے بیان کیا ہے۔ [سنن ابي داود، كتاب الصلاة، حديث: 514] «صداء» کے ”صاد“ پر ضمہ اور ”دال“ مخفف ہے۔ ایک قبیلے کا نام ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ اس کا ضعف اس وجہ سے ہے کہ اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم افریقی ہے، امام ابن قطان وغیرہ نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن ثوری رحمہ اللہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ مقارب الحدیث ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔ طبرانی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تائید بھی موجود ہے جس کے الفاظ ہیں: ”ٹھہرو، اے بلال! اقامت وہی کہے جس نے اذان کہی ہے۔“ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہل علم کی اکثریت کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جو اذان کہے وہی اقامت کا حقدار ہے۔ ہاں، یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث کے معارض ہے جو اسی روایت کے آخر میں ابوداود کے حوالے سے مروی ہے۔ اور ان دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اس معاملہ میں وسعت ہے، دوسرا بھی تکبیر کہہ سکتا ہے۔ «وَفِيهِ ضُعْفٌ أَيْضًا» اور اس میں بھی ضعف ہے۔ امام بیہقی نے بیان کیا ہے کہ اس حدیث کی سند اور متن میں اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ”سیدنا الصدائی“ رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں احادیث اگر صحیح ہوں تو صدائی کی حدیث راجح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بعد کی ہے۔
راویٔ حدیث: (سیدنا زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ) صداء (”صاد“ پر ضمہ اور ”دال“ مخفف) قبیلہ کے فرد ہیں۔ یہ یمن کا ایک قبیلہ تھا۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہوئی تھی۔ آپ کے روبرو اذان دی۔ بصریوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 156
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث706
´اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟` عبداللہ بن زید (عبداللہ بن زید بن عبدربہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا (تاکہ لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں، لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا)، پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا، وہ تراشا گیا، (لیکن اسے بھی نصاری سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا)، اسی اثناء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب دکھایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دو سبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا؟ اس شخص نے کہا: تم اس کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 706]
اردو حاشہ: (1) اللہ تعالی نیک مومن کی رہنمائی بعض اوقات خواب کے ذریعے سے بھی کردیتا ہے اس لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں: نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ (صحيح مسلم، الرؤيا، باب في كون الرؤيا من الله۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، حدیث: 2265)
(2) محض خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کا خواب نبی اکرمﷺ کی منظوری سے شرعی حکم قرار پایا اس لیے اگر کوئی خواب بظاہر شریعت کے حکم کے خلاف ہو تو یا تو وہ اللہ کی طرف سے نہیں شیطان کی طرف سے ہوتا ہے یا اس کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو بظاہر معلوم ہوتا ہے۔
(3) نرسنگا ایک قسم کا بگل ہوتا ہے جس میں پھونک ماری جاتی ہے تو زور کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ یہودی اس کے ذریعے سے اپنی عبادت کے وقت اعلان کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کی تجویز پیش ہوئی اور آپ ﷺ نے بھی سوچا کہ اگر یہ تجویز قبول کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
(4) دوسری تجویز ناقوس کی پیش کی گئی۔ ناقوس دو لکڑیاں ہوتی ہیں جنھیں ایک دوسرے پر مارا جاتا ہے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔ عیسائی بعض خاص موقعوں پر ناقوس بجاتے ہیں۔ یہ تجویز پہلی تجویز کی نسبت بہتر تھی کیونکہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے اور وہ یہود کی نسبت مسلمانوں سے ذہنی طور پر قریب ہوتے ہیں اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس تجویز کو زیادہ پسند فرمایا تاہم محسوس یہی کیا گیا کہ ہمارا طریقہ دوسری قوموں سے ممتاز ہونا چاہیے۔
(5) ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ نماز کے وقت آگ جلائی جائے۔ دن میں دھوئیں کی وجہ سے اور رات کو روشنی سے لوگ متوجہ ہوجائیں اور نماز کے لیے آ جائیں لیکن یہ تجویز مجوس سے مشابہت کی وجہ سے رد کردی گئی۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تجویز پیش کی کہ ایک آدمی اذان کے وقت اعلان کردیا کرے۔ یہ تجویز پسند کی گئی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلال! اٹھو نماز کے لیے آواز دو۔ اس اعلان کے لیے اذان کے کلمات حضرت عبد اللہ بن زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خواب کے بعد موجودہ صورت میں متعین ہوگئے۔ (صحیح البخاری، الاذان، باب بدء الاذان، حديث: 604)
(6) دینی امور میں بھی انتظامی معاملات مسلمانوں کے آپس کے مشورے سے طے کرنے چاہییں البتہ جس معاملے میں شریعت کی واضح ہدایت آ جائے وہاں مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(7) اس واقعہ میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اثبات ہے۔
(8) مؤذن ایسا شخص مقرر کرنا چاہیے جس کی آواز زیادہ بلند ہو۔
(9) اللہ تعالی کسی کو کوئی خاص شرف عطا فرمائے تو فخر کی نیت سے نہیں بلکہ شکر کی نیت سے اللہ کی نعمت اور احسان کا ذکر کرنا درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 706
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 189
´اذان کی ابتداء کا بیان۔` عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے (مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا ۱؎ تو آپ نے فرمایا: ”یہ ایک سچا خواب ہے، تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ اور جو تمہیں بتایا گیا ہے، وہ ان پر پیش کرو، وہ اسے زور سے پکار کر کہیں“، جب عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے بلال رضی الله عنہ کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 189]
اردو حاشہ: 1؎: یہ اس وقت کی بات ہے جب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے درمیان ایک رات نماز کے لیے لوگوں کو بلانے کی تدابیر پر گفتگو ہوئی، اسی رات عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے خواب دیکھا اور آکر آپ ﷺ سے بیان کیا (دیکھئے اگلی حدیث)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 189