تخریج: «أخرجه البخاري، التعبير، باب من كذب في حلمه، حديث:7042.»
تشریح:
اس حدیث میں اس بات کی ممانعت ہے کہ آدمی کسی دوسرے آدمی یا قوم کے راز اور خفیہ باتیں
(جنھیں وہ دوسرے کے روبرو بیان کرنا نہیں چاہتے) بڑے اہتمام‘ توجہ اور کوشش سے سننے کی ٹوہ میں لگا رہے۔
ایسے آدمی کے کانوں میں قیامت کے روز پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔
یہ مجلسی آداب میں سے ایک ادب ہے جسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
”الادب المفرد
“ میں سعید مقبری سے روایت نقل کی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی آدمی سے گفتگو کر رہے تھے‘ میں بھی ان کے قریب آکر کھڑا ہو گیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میرے سینے پر تھپڑ رسید کیا اور فرمایا کہ جب دو آدمی الگ سے بات چیت کر رہے ہوں تو ان کی باتیں نہ سنا کرو‘ یہ ممنوع ہے۔
(الأدب المفرد‘ باب إذا رأی قوماً یتناجون فلا یدخل معھم:۲ /۶۶۰‘ رقم:۱۱۶۶ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض) بہرحال کسی کی راز داری میں مداخلت درست نہیں۔