الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الجامع
متفرق مضامین کی احادیث
4. باب الرهب من مساوئ الأخلاق
4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1304
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏من تسمع حديث قوم وهم له كارهون صب في أذنيه الآنك يوم القيامة» ‏‏‏‏ يعني الرصاص. أخرجه البخاري.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی کسی قوم کی بات سننے کی سعی کرے جبکہ وہ اسے ناپسند کرتے ہوں تو قیامت کے روز اس کے دونوں کانوں میں سیسہ ڈالا جائے گا۔ «آنك» کا معنی سیسہ ہے۔ (بخاری) [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1304]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، التعبير، باب من كذب في حلمه، حديث:7042.»

   صحيح البخاريمن تحلم بحلم لم يره كلف أن يعقد بين شعيرتين ولن يفعل ومن استمع إلى حديث قوم وهم له كارهون صب في أذنه الآنك يوم القيامة ومن صور صورة عذب وكلف أن ينفخ فيها وليس بنافخ
   بلوغ المراممن تسمع حديث قوم وهم له كارهون صب في اذنيه الآنك يوم القيامة

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 1304 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1304  
تخریج:
«أخرجه البخاري، التعبير، باب من كذب في حلمه، حديث:7042.»
تشریح:
اس حدیث میں اس بات کی ممانعت ہے کہ آدمی کسی دوسرے آدمی یا قوم کے راز اور خفیہ باتیں (جنھیں وہ دوسرے کے روبرو بیان کرنا نہیں چاہتے) بڑے اہتمام‘ توجہ اور کوشش سے سننے کی ٹوہ میں لگا رہے۔
ایسے آدمی کے کانوں میں قیامت کے روز پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائے گا۔
یہ مجلسی آداب میں سے ایک ادب ہے جسے ملحوظ رکھنا چاہیے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الادب المفرد میں سعید مقبری سے روایت نقل کی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کسی آدمی سے گفتگو کر رہے تھے‘ میں بھی ان کے قریب آکر کھڑا ہو گیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میرے سینے پر تھپڑ رسید کیا اور فرمایا کہ جب دو آدمی الگ سے بات چیت کر رہے ہوں تو ان کی باتیں نہ سنا کرو‘ یہ ممنوع ہے۔
(الأدب المفرد‘ باب إذا رأی قوماً یتناجون فلا یدخل معھم:۲ /۶۶۰‘ رقم:۱۱۶۶ طبع مکتبۃ المعارف‘ الریاض) بہرحال کسی کی راز داری میں مداخلت درست نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1304   

   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1304  
تخریج:
[بخاري 7042 كتاب التعبير باب من كذب فى حلمه]
بلوغ المرام کے نسخوں میں «من تسمع» کے لفظ ہیں جبکہ بخاری میں «استمع» کے لفظ ہیں۔ معنی تقریباً ایک ہی ہے۔

فوائد:
کسی کی باہمی بات چیت پر کان لگانا ان کے ناپسند کرنے کی صورت میں حرام ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ آپس میں کوئی بات کر رہے ہوں اگر وہ کسی شخص کا سننا پسند نہیں کرتے تو ایسے ان کی بات پر کان لگانا حرام ہے کیونکہ صرف مکروہ کام پر اتنی سخت سزا نہیں ہو سکتی کہ کانوں میں سکہ ڈالا جائے۔
اب یہ پتہ کیسے چلے گا کہ وہ اس کا سننا پسند نہیں کرتے تو یہ قرائن سے معلوم ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلے تو دو یا زیادہ آدمی کہیں علیحدہ ہو کر بیٹھے ہوں تو صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنی گفتگو میں کسی کی شرکت پسند نہیں کرتے۔ بعض اوقات وہ اپنی ناگواری کا صاف اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اب قرائن سے یا صاف لفظوں میں ان کی ناگواری معلوم ہو جانے کے بعد کوئی شخص چھپ کر یا کسی طریقے سے سننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے کانوں میں سکہ ڈالا جائے گا۔ کیونکہ یہ گناہ کان کے ذریعے سرزد ہوا ہے۔
سعید مقبری فرماتے ہیں کہ میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس سے گزرا تو ان کے پاس ایک آدمی کھڑا ہو کر باتیں کر رہا تھا۔ میں بھی ان کے پاس کھڑا ہو گیا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے میرے سینے میں دھکا دے کر کہا: جب تم دیکھو کہ دو آدمی باتیں کر رہے ہیں تو اجازت لینے کے بغیر ان کے پاس کھڑے مت ہو۔ [مسند احمد و سنده صحيح حديث نمبر 5949 تحقيق احمد شاكر]
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپس میں گفتگو کرنے والے لوگ اگر اس کے اجازت طلب کرنے پر اسے اجازت دے بھی دیں، مگر اس کو سمجھ آ رہی ہو کہ انہوں نے یہ اجازت حیا کی وجہ سے یا بادل ناخواستہ دی ہے اور دل سے وہ اس کا سننا پسند نہیں کرتے تو اسے ان کی بات پر کان لگانا پھر بھی جائز نہیں۔
بعض لوگ ذرا دور بیٹھ کر ایک آدھ لفظ سن کر باقی خود بخود سمجھ جاتے ہیں اس طرح کرنے والے بھی اس وعید میں شامل ہیں۔ اسی طرح کسی کے گھر جھانکنا، سونگھنا، ٹوہ لگانا بھی حرام ہے۔ بچوں سے گھر کی ایسی باتیں پوچھتے رہنا بھی حرام ہے جو اس کے گھر والے پسند نہیں کرتے۔ ہاں اگر کسی پختہ ذریعے سے معلوم ہو کہ یہ لوگ کسی گناہ یا ظلم کے منصوبے بنا رہے ہیں تو نہی عن المنکر کے لیے بات سننا جائز ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 217