4. برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان
حدیث نمبر: 1294
وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «لا تمار أخاك ولا تمازحه ولا تعده موعدا فتخلفه» أخرجه الترمذي بسند ضعيف.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے ایسا وعدہ بھی نہ کرو جس کی بعد میں خلاف ورزی کرو۔“ اسے ترمذی نے کمزور سند سے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/حدیث: 1294]
تخریج الحدیث: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في المراء، حديث:1995.* فيه ليث بن أبي سليم ضعيف.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1294
تخریج: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في المراء، حديث:1995.* فيه ليث بن أبي سليم ضعيف.»
تشریح: مذکورہ روایت گو سنداً ضعیف ہے لیکن کتاب و سنت کے دیگر دلائل کی روشنی میں جھگڑا کرنا اور ایسا مذاق کرنا منع ہے جو کسی کی ایذا رسانی کا باعث بنتا ہو۔ امام نووی رحمہ اللہ مزاح کی بابت لکھتے ہیں: ”وہ مزاح ممنوع ہے جس میں افراط ہو اور جو ہمیشہ کیا جاتا رہے کیونکہ مزاح سے ہنسی اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے‘ اللہ کے ذکر سے غفلت پیدا ہوتی ہے اور دین کے حقیقی مسائل سے فکر ہٹ جاتی ہے بلکہ اکثر اوقات یہ مذاق ایذا رسانی کا باعث بنتا ہے اور اس سے بہت زیادہ بغض و کینہ پیدا ہوجاتا ہے اور انسان کا وقار اور ہیبت و رعب جاتا رہتا ہے‘ البتہ جو مزاح ان خطرات سے محفوظ ہو وہ مباح ہے اور ایسا مزاح کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے جس سے مخاطب کا دل خوش ہو جاتا اور اس کی محبت میں اضافہ ہو جاتا‘ اس لیے ایسا مزاح مستحب ہے۔ “ نیز کتاب و سنت کے دیگر دلائل سے وعدہ خلافی کی ممانعت بھی ثابت ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ اعمال قبیحہ سے اجتناب ضروری ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1294
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1294
تخریج: «ضعيف» اسے ترمذی [1995] نے روایت کر کے فرمایا یہ حدیث حسن غریب ہے ہم اسے اسی سند سے جانتے ہیں۔ البانی نے اسے ”ضعيف الترمذی“[341] اور ضعيف الجامع [6274] میں ضعیف قرار دیا ہے۔ مفردات: «لاتُمار . مارَي يُمَارِي مُمَاراةً و مِرَاءً» باب مفاعلہ سے نہی کا صیغہ ہے مادہ ”م ر ی“ جھگڑا مت کر۔ «فَتُخْلِفَه» باب افعال سے فعل مضارع ہے اس پر نصب اس لئے ہے کہ یہ «لَا تَعِدْهُ» نہی کے جواب میں ہے اور اس پر فاء داخل ہوئی ہے۔ اس فاء کے بعد «أن» ناصبہ مقدر ہوتا ہے
فوائد: ➊ اس حدیث کی سند کیسی ہے؟: اس حدیث کی سند ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ہیں۔ تقریب میں ہے «صدق اختلط اخيرا ولم يتميز حديثه فترك» سچا ہے اخیر میں اسے اختلاط ہو گیا اور اس کی حدیث کی تمیز نہیں ہو سکی اس لئے اسے ترک کر دیا گیا۔
➋ ترمذی نے اسے حسن غریب کیوں فرمایا ہے؟: غریب تو اس لئے کہا کہ اس کی سند صرف ایک ہے اور راوی کمزور ہونے کے باوجود حسن اس لئے کہہ دیا ہے کہ اس کے مفہوم کی تائید دوسری آیات و احادیث سے ہوتی ہے۔
➌ کیا ضعیف حدیث بیان کرنا درست ہے؟: ضعیف حدیث بیان کرنا درست نہیں، ہاں اگر ساتھ کہہ دیا جائے کہ یہ ضعیف ہے جیسا کہ یہاں مصنف نے واضح کر دیا ہے۔ تو درست ہے کیونکہ کسی حدیث کے ضعف کا علم بھی ایک بہت بڑا علم ہے۔ تاکہ لوگ اس سے بچ سکیں۔ ہاں اگر اس کی تائید دوسری احادیث سے یا قرآن مجید سے ہوتی ہو تو پھر بطور استدلال بھی بیان کی جا سکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ اس کا ضعف واضح کر دیا جائے تاکہ اصل استدلال مجموعی مفہوم سے ہو صرف ضعیف حدیث کے کسی لفظ کو استدلال کی بنیاد نہ بنایا جائے۔
➍ مسلمان سے جھگڑا کرنا منع ہے: ناجائز ”مراء“ کی حقیقت یہ ہے کہ تم کسی دوسرے شخص کی بات پر کسی ضرورت اور مقصد کے بغیر اعتراض کرتے رہو اور اس کی خرابی نکالتے رہو مقصد صرف اسے نیچا دکھانا، ذلیل کرنا اور اس پر اپنی برتری ثابت کرنا ہو۔ [سبل السلام] خواہ مخواہ، جھگڑے کی مذمت صحیح احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ان ابغض الرجال الي الله الالد الخصم»[صحيح مسلم، العلم 2 ] ”اللہ کو آدمیوں میں سب سے زیادہ ناپسند وہ ہے جو ہٹ دھرم سخت جھگڑالو ہو۔“ اللہ تعالیٰ نے کفار کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: «مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ»[43-الزخرف:58 ] ”انہوں نے اس (ابن مریم کو آپ کے لئے صرف جھگڑے کے لئے بطور مثال بیان کیا ہے۔ بلکہ وہ سخت جھگڑالو لوگ ہیں۔“
➎ کیا ہر قسم کا جھگڑا حرام ہے؟: وہ جھگڑا جس کا مقصد حق معلوم کرنا یا حق کو دلیل سے ثابت کرنا ہو اگر اچھے طریقے سے کیا جائے تو جائز بلکہ ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے فرمایا: «وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ»[16-النحل:125] ”ان کے ساتھ اس طریقے سے جھگڑا کر جو سب سے اچھا ہے۔“ مناظره، مجادلہ اچھے طریقے سے ہو تو یہ انبیاء کی سنت ہے۔ ابراہیم علیہ السلام سید المناظرین تھے۔ آپ دیکھیں انہوں نے کس طرح نمرود کے خدائی کے دعویٰ کو باطل کر کے اسے مبہوت کر دیا۔ ستارہ، چاند، اور سورج پوجنے والوں کو «لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ» کی دلیل سے لاجواب کر دیا۔ بت پرستوں کو یہ کہہ دیا کہ ”ان ٹوٹے ہوئے خداؤں سے پوچھ لو یہ سب ان کے اس بڑے کا کام ہے۔“ انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اصل قصور خود تمہارا ہے۔ ہاں اس میں ایک بات مدنظر رہنی چاہئے کہ طریقہ شائستہ ہو بات حسن ہی نہیں احسن ہو اہل کتاب سے بحث کرتے وقت بھی اس کی تاکید فرمائی۔ «وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ»[29-العنكبوت:46] ”اہل کتاب کے ساتھ جھگڑا مت کرو مگر اس طریقے سے جو سب سے اچھا ہے۔“ تو اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ بحث کے لئے تو اور بھی اچھا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
➏ مزاح کی کون سی صورت حرام ہے؟: وہ مزاح جس کا مقصد کسی مسلم بھائی کی تحقیر اسے ذلیل کرنا اور اس کا خاکہ اڑانا ہو حرام ہے اس کی تہہ میں خودبینی، تکبر اور اپنی برتری ثابت کرنا ہوتا ہے اور اس سے دلوں میں بغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ»[49-الحجرات:11] ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کوئی قوم کسی قوم سے مذاق نہ کرے ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی عورتوں سے مذاق کریں ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔“
➐ مزاح کی جائز صورت کیا ہے؟: جب مزاح صرف خوش طبعی کی حد تک ہو اس میں کوئی غلط یا خلاف واقع بات نہ کی گئی ہو۔ جس شخص سے مذاق کیا گیا ہے اس کی عزت میں کوئی فرق نہ آئے بلکہ وہ خود بھی لطف محسوس کرے اور اسے خوشی حاصل ہو تو ایسا مذاق جائز ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے مگر اس کے لئے بہت تیز ذہانت کی ضرورت ہے کہ کہیں کسی دوست کی دل شکنی نہ ہو جائے۔ ؎ خیال خاطر احباب چاہئے ہر دم انیس ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا یا رسول الله! «انك تداعينا» آپ ہم سے مزاح کر لیتے ہیں۔ فرمایا: «اني لا اقول الا حقا»”میں حق کے علاوہ کچھ نہیں کہتا۔“[صحيح الترمذي 1621 ] کتب حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش طبعی کے کئی واقعات مذکور ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول الله! مجھے سواری دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تمہیں سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دیں گے“ وہ کہنے لگا اونٹنی کے بچے کو میں کیا کروں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ او نٹیوں کے بچے ہی تو ہوتے ہیں۔“[ابوداؤد ماجاء فى المزاح اور ديكهئے صحيح ابي داؤد 4998]
➑ وعدہ خلافی: وعدہ خلافی کے متعلق تفصیل کے لئے دیکھیے بلوغ المرام کی حدیث (1400/6)
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 194
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1995
´تکرار کرنے اور لڑائی جھگڑے کی مذمت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے بھائی سے مت جھگڑو، نہ اس سے ہنسی مذاق کرو، اور نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی تم خلاف ورزی کرو۔“[سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1995]
اردو حاشہ: نوٹ: (سندمیں ”لیث بن أبی سلیم“ ضعیف راوی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1995