وعن أم سلمة رضي الله عنها قالت: كانت النفساء تقعد على عهد النبي صلى الله عليه وآله وسلم بعد نفاسها أربعين يوما. رواه الخمسة إلا النسائي واللفظ لأبي داود.وفي لفظ له: ولم يأمرها النبي صلى الله عليه وآله وسلم بقضاء صلاة النفاس وصححه الحاكم.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عہدرسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں عورتیں بچے کی ولادت کے چالیس روز تک ناپاک بیٹھی رہتی تھیں۔ نسائی کے علاوہ باقی چاروں نے اسے روایت کیا ہے اور متن حدیث کے الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ اور اس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام نفاس میں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیا۔ اسے حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 128]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الطهارة، باب ما جاء في وقت النفساء، حديث:311، 312، والترمذي، الطهارة، حديث:139، وابن ماجه، الطهارة، حديث:648، وأحمد: 6 /300، 302، 304، 309، 310، والحاكم: 1 /175 وصححه، ووافقه الذهبي.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 128
� لغوی تشریح: «نُفَسَاء»”نون“ پر ضمہ اور ”فا“ پر فتحہ ہے، یا ”نون“ اور ”فا“ دونوں پر فتحہ ہے، یا ”نون“ پر فتحہ اور ”فا“ ساکن ہے۔ ان عورتوں کو کہتے ہیں جنہوں نے بچے کو جنم دیا ہو۔ نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو ولادت کے بعد عورت کے رحم سے عموماً چالیس روز تک خارج ہوتا رہتا ہے۔ «أَرْبَعِينَ يَوْمًا» چالیس روز نفاس کی کثیر مدت ہے۔
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نفاس والی خواتین کی اکثر مدت چالیس روز ہے۔ اس کی کم از کم مدت کوئی نہیں۔ ہاں، اگر چالیس روز سے تجاوز کر جائے تو پھر وہ حالت استحاضہ شمار ہو گی اور اس حالت میں نماز روزہ ترک نہ کیے جائیں گے۔ تعلق زن و شو بھی قائم ہو سکتے ہیں، البتہ نفاس کا حکم حیض کی طرح ہے۔ نفاس والی عورت کو نماز روزہ کی رخصت ہے، مسجد میں نہیں ٹھہر سکتی۔ طواف کعبہ بھی نہیں کر سکتی۔ اور علماء کے ایک گروہ کی رائے کے مطابق وہ تلاوت قرآن اور قرآن کو چھونے سے بھی اجتناب کرے گی۔ اس دوران میں جتنے روزے چھوٹ گئے تھے ان کی دوسرے ایام میں قضا ضرور دے گی جبکہ نماز کی قضا نہیں دے گی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 128
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث648
´نفاس والی عورت زچگی کے بعد کتنے دن بیٹھے؟` ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں، اور ہم اپنے چہرے پہ جھائیں کی وجہ سے «ورس» ملا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 648]
اردو حاشہ: (1) نفاس سے مراد وہ خون ہے جو عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد آتا ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ مدت کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے۔ اکثر علماء کا رجحان چالیس دن کی طرف ہی ہے اس کے بعد بھی اگر خون جاری رہے تو اسے استحاضہ سمجھا جائےاور عورت غسل کرکے نماز روزہ ادا کرنا شروع کردے۔ اگر اس سے کم مدت میں خون بند ہوجائے تو چالیس دن تک پرہیز کرنا ضروری نہیں پاک ہونے کے بعد غسل کرکے نماز روزہ شروع کردینا چاہیے۔
(2) ورس ایک بوٹی ہے عورتیں اس سے چھائیوں کا علاج کرتی تھیں۔ یہ بوٹی اور بھی متعدد امراض میں مفید ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 648
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 139
´نفاس والی عورتیں (صوم و صلاۃ سے) کب تک رکی رہیں؟` ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں نفاس والی عورتیں چالیس دن تک بیٹھی رہتی تھیں، اور جھائیوں کے سبب ہم اپنے چہروں پر ورس (نامی گھاس ہے) ملتی تھیں۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 139]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں مُسّہ ازدیہ لین الحدیث یعنی ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 139
حافظ عمران ایوب لاہوری حفظ اللہ، فوائد و مسال، سنن ابن ماجہ 648
نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت «وَالنَّفَاسُ أَكْثَرُهُ أَرْبَعُونَ يَوْمًا»
نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ ۱؎ ۱؎ ➊ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «كانت النفساء تجلس على عهد رسول الله أربعين يو ما»”نفاس والی خواتین عہد رسالت میں چالیس دن عدت گزارتی تھیں۔“ [حسن: صحيح أبو داود 304، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى وقت النفساء، أحمد 300/6-304، ترمذي: 139، ابن ماجة 648، دارقطني 221/1 - 222، حاكم 175/1، بيهقي 341/1]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ «كان رسول الله وقت للنفساء أربعين يوما إلا أن ترى الطهر قبل ذلك»”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاس والی خواتین کے لیے چالیس دن مقرر کیے تھے الا کہ وہ اس سے پہلے پاکی حاصل کر لیں۔“ [ضعيف: ضعيف ابن ماجة 138، كتاب الطهارة وسننها: باب ما جاء فى النفساء كم تجلس، إرواء الغليل 201، الضعيفة 5653، عبدالرزاق 312/1، دار قطني 220/1، بيهقي 343/1، حافظ بوصيريؒ نے زوائد ميں اس حديث كي سند كو صحيح كها هے۔ 232/1] (جمہور) نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت عمر، حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما، امام عطاء، امام ثوری، امام شعبی، امام مزنی، امام احمد بن حنبل، امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ اجمعین کا بھی یہی موقف ہے۔ (شافعیؒ) یہ مدت ساٹھ دن ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام مالکؒ کا بھی یہی مذہب ہے۔ (حسن بصریؒ) یہ مدت پچاس دن ہے۔
علاوہ ازیں بعض حضرات نے ستردن مدت بھی بتلائی ہے۔ [المجموع 539/2، المغنى 345/1، المحلى 203/2، الإفصاح 108/1، بدائع الصنائع 41/1، مراقي الفلاح ص/ 23 مغني المحتاج 119/1، حاشية الباجورى 113/1، المهذب 45/1، كشاف القناع 226/1] (نوویؒ) صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والوں میں سے اکثر علماء کے نزدیک نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ امام ترمذیؒ اور امام خطابیؒ وغیرہ نے بھی یہی قول اکثر سے نقل کیا ہے۔ امام خطابیؒ بیان کرتے ہیں کہ امام ابوعبیدہؒ نے کہا کہ ”اسی پر لوگوں کی جماعت ہے۔“ اور امام ابن منذرؒ نے یہی قول حضرت عمر بن خطاب، حضرت ابن عباس، حضرت انس، حضرت عثمان بن ابی العاص، حضرت عائذ بن عمرو، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا، امام ثوری، امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام ابن مبارک،
امام احمد، امام اسحاق اور امام ابو عبید رحمہم اللہ اجمعین سے بیان کیا ہے۔ [المجموع 524/2] (زید بن علیؒ) نفاس چالیس دن سے زیادہ نہیں ہوتا۔ [الروض النضير 513/1] (صدیق حسن خانؒ) یہی بات برحق ہے۔ [الروضة الندية 191/1] (شوکانیؒ) نفاس والی خواتین پر چالیس دن عدت گزارنا واجب ہے۔ [نيل الأوطار 414/1] (عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اسی کے قائل ہیں۔ [تحفة الأحوذى 452/1] (ترمذیؒ) صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کا اس پر اجماع ہے۔ [ترمذي بعد الحديث 139، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى كم تمكث النفساء] (راجح) یہی موقف راجح و برحق ہے۔
------------------
اگر چالیس دن کے بعد بھی خون آتا رہے؟
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ ”اکثر اہل علم نے یہی کہا ہے کہ چالیس دن کے بعد نماز نہیں چھوڑے گی۔“ [ترمذي بعد الحديث 139، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى كم تمكث النفساء] (شیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدیؒ) اگر چالیس دن کے بعد خون آئے گا تو اس کا حکم نفاس والی عورت کا ہی ہوگا۔ [فتاوى المرأة المسلمة 300/1] (شیخ عثیمینؒ) اگر تو عورت کی عادت پہلے سے ہی چالیس دن سے زائد ہے تو وہ عادت کے مطابق عمل کرے گی اور اگر ایسا نہیں تو پھر اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ وہ غسل کر کے نماز، روزہ اور دیگر عبادات سر انجام دے گی اور مستحاضہ
کے حکم میں ہوگی، اور بعض نے کہا ہے کہ وہ ساٹھ دن تک انتظار کرے گی اس کے بعد وہ مستحاضہ کی مانند شمار ہوگی۔ [فتاوى المرأة المسلمة 303/1] (شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ) اگر تو اس کی پہلے سے یہ عادت ہے تو وہ اسی کے مطابق عمل کرے گی اور اگر ایسا نہیں ہے تو وہ چالیس دن پورے کرنے کے بعد غسل کر کے روزے اور نماز ادا کرے گی۔ [فتاوى المرأة المسلمة 297/1] (راجع) شیخ محمد بن ابراہیمؒ کا قول ہی رائج معلوم ہوتا ہے۔ (واللہ اعلم)
------------------
«وَلَا حَدَّ لِأَقَلِّهِ وَهُوَ كَالْحَيْضِ»
اس کی کم از کم کوئی حد مقرر نہیں ہے۱؎ اور یہ (احکام ومسائل میں) حیض کی طرح ہے۔ ۲؎ ۱؎ بیشتر دیگر مسائل کی طرح اس میں بھی فقہاء کا اختلاف ہے۔ (شافعیؒ، احمدؒ) نفاس کی کم از کم کوئی مدت نہیں۔ (ابو حنیفہؒ، ابو یوسفؒ) اس کی کم از کم مدت گیارہ دن ہے۔ (ثوریؒ) یہ مدت تین دن ہے۔ (زید بن علیؒ) پندرہ دن مدت کے قائل ہیں۔ (ابن قدامہ حنبلیؒ) اس کی کم از کم کوئی مدت نہیں ہے جب بھی وہ پاکی محسوس کرے تو غسل کرلئے اس کے بعد وہ پاک ہے۔ [الأم 64/1، المجموع 228/1، المغني 225/1، الأصل 458/1] (راجح) پہلا قول راجح ہے کیونکہ صحابہ، تابعین اور ان کے بعد والے علماء کا اجماع ہے کہ نفاس والی عورتیں چالیس دن نماز چھوڑیں گی اِلا کہ اس سے پہلے پاکی محسوس کر لیں تو غسل کر کے نماز پڑھیں گی۔ [نيل الأوطار 414/1 - 415]
اور گذشتہ صفحات میں ایک حدیث میں بھی یہی لفظ بیان کیے گئے ہیں «و إلا أن ترى الطهر قبل ذلك»”يہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ کم از کم نفاس کی کوئی مدت نہیں۔“ ۲؎ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ «وكانت المرأة من نساء النبى تـقـعـد فى النفاس أربعين ليلة لا يأمرها النبى بقضاء صلاة النفاس»”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے (کوئی بھی) عورت چالیس راتیں انتظار کرتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے حالت نفاس میں چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضائی کا حکم نہیں دیتے تھے۔“ [حسن: صحيح أبو داود 305، كتاب الطهارة: باب ما جاء فى وقت النفساء، أبو داود 312، حاكم 1745/1، بيهقي 341/1، دارقطني 223/1]
علماء کا اس مسئلے میں اجماع ہے کہ نفاس ان تمام چیزوں میں، جو حلال و حرام ہوں یا مکروہ و مستحب ہوں، حیض کی طرح ہی ہے۔ [نيل الأوطار 415/1، المجموع 520/2] (صدیق حسن خانؒ) نفاس ”جماع کی حرمت نماز اور روزہ چھوڑنے میں حیض کی طرح ہے۔“ اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ [الروضة الندية 192/1] (شوکانیؒ) یہی بات دوست ہے۔ [السيل الحرار 150/1] (ابن قدامہ حنبلیؒ) نفاس والی خواتین کا حکم وہی ہے جو حائضہ کا ہے ان تمام اشیاء میں جو اس پر حرام ہوتی ہیں یا اس سے ساقط ہوتی ہیں اور ہمیں اس مسئلہ میں کسی اختلاف کا علم نہیں ہے..... اور یہ (حکم) اس لیے ہے کیونکہ نفاس کا خون فی الحقیقت حیض کا خون ہی ہے، صرف حمل کی مدت میں اس کا خروج اس لیے رک جاتا ہے کیونکہ یہ حمل کی غذا بنا شروع ہو جاتا ہے اور جب حمل وضع ہو جاتا ہے تو یہ دوبارہ خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ [المغنى 432/1]
------------------
متفرقات
کیا حاملہ حائضہ ہو سکتی ہے؟
اس مسئلے میں فقہاء کی دو آراء ہیں: (مالکیہ، شافعیه) حاملہ عورت بعض اوقات حائضہ بھی ہو جاتی ہے۔ اس کی دلیل «آيتِ محيض» کا اطلاق ہے اور یہ بھی
کہ حیض عورت کی طبیعت سے ہے۔ [بداية المجتهد 15/1، الشرح الصغير 211/1، مغنى المحتاج 118/1] (احناف، حنابلہ) بلاشبہ حاملہ خاتون حائضہ نہیں ہو سکتی۔ اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر صرف دو حالتوں میں طلاق کا حکم ديا «ثم ليطلقها طاهرا أو حاملا»”پھر وہ پاکی کی حالت میں یا حالت حمل میں طلاق دے۔“ [بخارى: 7160، كتاب الأحكام: باب هل يقضى القاضى أو يفتي وهو غضبان، مسلم 1090، كتاب الطلاق: باب تحريم طلاق الحائض بغير رضاها، أبو داود 500/1، عارضة الأحوذى 123/5، دارمي 120/2، موطا 576/2، أحمد 43/2-51]
محل شاہد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کو بعینہ حیض نہ ہونے کی علامت قرار دیا جس طرح طہر کو اس کی علامت کہا۔ [الدر المختار 263/1، المغني 361/1، كشاف القناع 232/1] (شیخ عبدالرحمن بن ناصر سعدی) امام احمدؒ سے دوسری روایت یہ ہے کہ بعض اوقات حاملہ بھی حائضہ ہو جاتی ہے اور یہی صحیح ہے... اور اسی کو ہم نے اختیار کیا ہے۔ [الفتاوى السعدية ص/ 134، فتاوى المرأة المسلمة 266/1] . . . اصل مضمون کے لئے دیکھئے . . . فقہ الحدیث از عمران ایوب لاہوری، جلد اول، ص 284