1. پانی کی اقسام (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان)
حدیث نمبر: 11
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أحلت لنا ميتتان ودمان، فأما الميتتان: فالجراد والحوت، وأما الدمان: فالكبد والطحال» .أخرجه أحمد وابن ماجه، وفيه ضعف.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”دو مری ہوئی چیزیں اور دو خون ہمارے لیے حلال کئے گئے ہیں۔ دو مری ہوئی چیزیں (جنہیں ذبح نہ کیا گیا) ایک ٹڈی اور دوسری مچھلی۔ باقی رہے دو خون تو اس سے مراد ایک جگر اور دوسری تلی ہے۔“ احمد اور ابن ماجہ نے اسے روایت کیا اور اس میں کمزوری ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/حدیث: 11]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، الأطعمة، باب الكبدوالطحال، حديث: 3314، وأحمد: 2 / 97 وسنده ضعيف، عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف مشهور، وللحديث طريق آخر موقوف له حكم الرفع، وأخرجه البيهقي:1 /254، وسنده صحيح، وللحديث طريق أخري.»
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 11
فوائد و مسائل: ➊ مصنف رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس باب میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس پر تنبیہ ہو جائے کہ مچھلی اور ٹڈی جب پانی میں مر جائیں، خواہ پانی کی مقدار کم ہو یا زیادہ، وہ پانی نجس و ناپاک نہیں ہوتا۔ اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے جو اپنے باپ سے اور وہ آگے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتا ہے۔ امام احمد رحمه الله کہتے ہیں کہ عبد الرحمن سے مروی حدیث منکر ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے جیسا کہ امام ابوزرعہ اور ابوحاتم رحمه الله نے کہا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کو زید بن اسلم کی اولاد، یعنی عبداللہ، عبدالرحمٰن اور اسامہ نے مرفوع بیان کیا ہے اور ابن معین نے ان سب (زید بن اسلم کی اولاد) کو ضعیف قرار دیا ہے، البتہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان میں سے عبداللہ کو ثقہ کہتے ہیں۔ ➋ گو اس حدیث کا سنداً موقوف ہونا صحیح ہے، مگر یہ حکماً مرفوع ہے کیونکہ صحابی کا «أُحِلَّتْ لَنَا» یا «حُرَّمَ عَلَيْنَا» کہنا حکماً مرفوع تسلیم کیا گیا ہے، جیسے «أمِرْنَا» یا «نُهِيْنَا» کہنا مرفوع کے حکم میں ہے۔ ➌ یہ حدیث دلیل ہے کہ ٹڈی بہرصورت حلال ہے، خواہ اپنی طبعی موت مرے یا کسی دوسرے سبب سے (اور اس سے مراد وہ ٹڈی نہیں جو عام طور پر گھروں میں ہوتی ہے۔) امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے کہ اگر ٹڈی آدمی کے پکڑنے یا سر کے کٹنے سے مرے تو حلال ہے بصورت دیگر حرام ہے۔ حدیث مذکور سے امام مالک کے فتوے کی تردید ہوتی ہے۔ یہی حال مچھلی کا ہے، خواہ پکڑنے کے بعد مری ہو یا دریائی لہروں نے باہر پھینک دی ہو اور وہ مر گئی ہو، دونوں صورتوں میں حلال ہے۔ ➍ احناف کے ہاں اگر مچھلی پکڑنے یا دریا کے باہر پھینک دینے اور دیگر کسی سبب سے مری ہو تو حلال ہے اور اگر وہ خود بخود مر جائے یا کسی حیوان کے مارنے سے مرے تو وہ حلال نہیں بلکہ حرام ہے۔ یہ حدیث احناف کے بھی خلاف ہے۔ احناف نے ابوداود کی جس روایت سے استنباط کیا ہے اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے، لہٰذا ٹڈی اور مچھلی کی حلت کو کسی شرط سے مشروط کرنا صحیح نہیں ہے۔ ➎ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی اور ٹڈی دونوں حلال ہیں، چاہے خود مر جائیں یا کسی طریقے سے مار دی جائیں، دونوں مردار کے عمومی حکم سے خارج ہیں، ان کا ذبح کرنا مشروع نہیں ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 11
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3218
´مچھلی اور ٹڈی کا شکار۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے لیے دو مردار: مچھلی اور ٹڈی حلال ہیں۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3218]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مچھلی پانی سے نکلنے کےبعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتی لہٰذا اللہ تعالیٰ نے بندوں پر رحمت کرتے ہوئے اسے ذبح کرنے کی شرط نہیں لگائی اس لیے یہ بغیر ذبح ہی کے حلال ہے۔ 2۔ ہر قسم کی مچھلی حلال ہے خواہ وہ ندیوں نہروں اور دریاؤں کی مچھلی ہو یا سمندر کی عظیم الجثہ مچھلی۔
(3) ٹڈی سے مراد حشرات کی وہ قسم ہے جو بعض اوقات جھنڈ کی صورت میں اکٹھی اڑتی ہوئی آتی ہے اور جس کھیت یا فصل پر بیٹھ جائیں اسے چٹ کر جاتی ہیں درختوں کے پتے کھا جاتی ہیں۔ اسے پنجابی میں مکڑی کہتے ہیں۔ اردومیں اس کا عظیم جھنڈ ٹڈی دل کہلاتا ہے۔ اہل عرب اسے بھون کر کھاتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3218
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3314
´کلیجی اور تلی کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کر دئیے گئے ہیں: رہے دونوں مردار تو وہ مچھلی اور ٹڈی ہے، اور رہے دونوں خون: تو وہ جگر (کلیجی) اور تلی ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3314]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مچھلی خواہ کسی قسم کی ہو بغیر ذبح کے ہی حلال ہے۔ بعض علماء نے فرق کیا ہے کہ اس طرح مرے تو حلال ہے اور اس طرح مرے تو حرام ہے اس فرق کی کوئی دلیل نہیں۔
(2) مچھلی کے علاوہ دوسرے سمندری جانور کےبارے میں بھی امام بخاری نے صحابہ وتابعین کے اقوال ذکر کیے ہیں کہ وہ سب مچھلی کے حکم میں ہیں۔ عطاء نے آبی پرندوں کواس سے مستثنیٰ کیا ہے اور فرمایا ہےکہ انہیں ذبح کرنا چاہیے۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الذبائح والصید، باب قول اللہ تعالیٰ: ﴿أُحِلَّ لَكُم صَيدُ البَحرِ وَطَعامُهُ مَتاعًا لَكُم﴾ قبل حديث: 5493)
(3) کلیجی اور تلی بھی خون ہیں گوجمے ہوئے سہی۔ واللہ اعلم .
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3314