تخریج: «أخرجه البخاري، الحدود، باب ما جاء في ضرب شارب الخمر، حديث:6773، ومسلم، الحدود، باب حد الخمر، حديث:1706، وحديث علي رضي الله عنه: أخرجه مسلم، الحدود، حديث:1707.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں شراب نوشی کی حد متعین نہیں تھی جیسا کہ دیگر حدود مقرر و متعین تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور ایک مقررہ حد‘ یعنی اَسّی
(۸۰) کوڑے متعین کر دیے کیونکہ بعض اطراف و نواحی میں لوگ شراب نوشی میں کچھ زیادہ منہمک ہوگئے تھے اور اس کی سزا کو بے وزن و حقیر سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جانب ارسال شدہ تحریر سے ثابت ہے۔
فقہاء کے درمیان اس کی حد کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ وہ چالیس کوڑے ہیں یا اسی؟ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اخذ کرنا زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے۔
2. حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان پر شراب نوشی کا الزام لگا۔
حمران اور ایک دوسرے آدمی نے ان کے خلاف گواہی دی۔
ان میں سے ایک نے تو یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے اور دوسرے نے یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔
اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک شراب پی نہ ہو اس وقت تک قے کیسے کر سکتا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیت خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان پر حد لگائیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس پر حد لگاؤ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا جو اس کی سردی کا والی ہوا وہی اس کی گرمی کا بھی والی بنے‘ یعنی جو آدمی خلافت کی نرمی اور لذت سے لطف اندوز ہوا ہے وہی اس کی شدت اور کڑوی صورت کو بھی اختیار کرے۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اعزاء و اقرباء میری نسبت زیادہ ولایت و اختصاص رکھتے ہیں تو پھر انھیں ہی خلافت کی بری بھلی اور تلخ و شیریں باتوں اور حالات سے نپٹنا چاہیے اور جلاد کی ذمہ داری نبھانی چاہیے‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم انھیں حد لگاؤ۔
انھوں نے کوڑا پکڑا اور مارنا شروع کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے جاتے تھے۔
جب وہ چالیس پر پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس! کافی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس
(کوڑے) ہی لگائے تھے…الخ۔
3. صاحب سبل السلام فرماتے ہیں:مصنف
(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) نے صرف‘ شراب کی قے کرنے کی گواہی دینے والے کا ذکر کیا ہے
(حمر ان کی گواہی کا ذکر نہیں کیا۔
) یہ مصنف کی کوتاہی ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پڑتا ہے کہ شاید ولید بن عقبہ کو صرف ایک گواہی کی بنا پر کوڑے لگائے گئے تھے‘ حالانکہ حمران کی گواہی بھی تھی کہ اس نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے۔
وضاحت:
«حضرت ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ» قریشی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔
فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے۔
قریش کے ظریف‘ حلیم‘ بہادر اور ادیب لوگوں میں سے تھے۔
فطری شعراء میں سے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔
پھر شراب نوشی کے الزام پر انھیں اس منصب سے معزول کر دیا۔
شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد فتنے سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے۔
رقہ میں مقیم ہوئے اور وہیں وفات پائی اور بلیخ میں دفن ہوئے۔