الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح مسلم
كِتَاب الْحُدُودِ
حدود کا بیان
8. باب حَدِّ الْخَمْرِ:
8. باب: شراب کی حد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4452
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ، فَجَلَدَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوَ أَرْبَعِينَ "، قَالَ: وَفَعَلَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ اسْتَشَارَ النَّاسَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَخَفَّ الْحُدُودِ ثَمَانِينَ، فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ،
محمد بن جعفر نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا جس نے شراب پی تھی، تو آپ نے اسے کھجور کی دو ٹہنیوں سے تقریبا چالیس ضربیں لگائیں۔ کہا: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا، جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا، انہوں نے لوگوں سے مشورہ لیا تو حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: حدود میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم صادر کر دیا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جو شراب پی چکا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دو بڑی چھڑیاں چالیس دفعہ ماریں، حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی یہی کام کیا تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور آیا، انہوں نے لوگوں سے مشورہ طلب کیا تو حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، سب سے ہلکی حد اَسی (80) کوڑے ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہنے اس کا حکم دے دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1706
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاريضرب في الخمر بالجريد والنعال جلد أبو بكر أربعين
   صحيح البخاريجلد النبي في الخمر بالجريد والنعال جلد أبو بكر أربعين
   صحيح مسلمأتي برجل قد شرب الخمر فجلده بجريدتين نحو أربعين
   صحيح مسلمجلد في الخمر بالجريد والنعال جلد أبو بكر أربعين
   جامع الترمذيضربه بجريدتين نحو الأربعين
   سنن أبي داودجلد في الخمر بالجريد والنعال جلد أبو بكر أربعين لما ولي عمر دعا الناس فقال لهم إن الناس قد دنوا من الريف وقال مسدد من القرى والريف فما ترون في حد الخمر فقال له عبد الرحمن بن عوف نرى أن تجعله كأخف الحدود فجلد فيه ثمانين
   سنن ابن ماجهيضرب في الخمر بالنعال والجريد
   بلوغ المراماخف الحدود ثمانون فامر به عمر

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 4452 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4452  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو شاخیں چالیس دفعہ ماریں،
گویا اَسی چھڑیاں ماریں،
ائمہ ثلاثہ (مالک،
شافعی،
احمد)

اور امام محمد رحمہم اللہ کے نزدیک كل مسكر حرام،
ہر نشہ آور چیز حرام ہے،
وما سكر كثيره فقليله حرام،
اگر زیادہ پینے سے نشہ پیدا ہوتا ہے تو کم بھی حرام ہے،
کی رو سے،
ہر سکر (نشہ آور چیز)
پر کم ہو یا زیادہ حد لگائی جائے گی اور امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف رحمہم اللہ کے نزدیک،
انگور کے شیرہ کی شراب پینے پر ہر صورت میں حد ہے اور کھجور کی شراب اور انگور سے بنی ہوئی شراب کے سوا دوسری چیزوں مثلا گندم،
جو،
مکئی وغیرہ سے بنی ہوئی شراب پینے پر کوئی حد نہیں،
خواہ نشہ بھی آ جائے،
دیکھئے ہدایہ کی کتاب،
الاشربہ اور باقی شرابوں پر اس صورت میں حد ہے،
جب اتنی مقدار میں پی جائے جس سے نشہ پیدا ہو،
ظاہر ہے،
ائمہ ثلاثہ کا موقف حدیث کے مطابق ہے۔
(2)
شراب عربوں کی گھٹی میں رچی بسی تھی،
اس لیے شراب کو تدریجا آہستہ آہستہ حرام قرار دیا گیا ہے اور اس طرح اس کی سزا بھی آہستہ آہستہ زیادہ کی گئی ہے،
ابتدا میں موجود لوگوں کے ہاتھ میں جو کچھ آ جاتا،
جوتی،
ہانڈا،
چھڑی،
کپڑا،
اس سے بلا شمار مارتے،
بعض دفعہ دو جوتے چالیس دفعہ مارتے،
بعض دفعہ دو چھڑیاں چالیس دفعہ مارتے،
اس لیے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شراب نوشی کی حد پر اگر کوڑوں کی صورت میں لگائی جائے تو اس کی تعداد کتنی ہو،
متفق نہیں تھے،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں جب بکثرت مسلمان ہو گئے اور مال و دولت کی فراوانی ہو گئی،
جس کے نتیجہ میں شراب نوشی میں اضافہ ہو گیا تو اب تعیین کی ضرورت پیش آئی،
اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا تاکہ ایک بات پر اتفاق ہو سکے،
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے ہلکی حد اَسی کوڑوں کا مشورہ دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا،
ہمارا خیال ہے،
اسے اَسی کوڑے لگائیں،
کیونکہ شرابی،
شراب پی کر نشہ میں آ جاتا ہے اور بکواس شروع کر دیتا ہے اور کسی پر افترا باندھتا ہے،
(اور افتری و قذف کی حد اَسی کوڑے ہیں)
(موطا امام مالک کتاب الاشربة ص 357،
تکملة ج 2 ص 497)

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حد کو نافذ کر دیا۔
گویا عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے یہ مشورہ دیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4452   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1064  
´شراب پینے والے کی حد اور نشہ آور چیزوں کا بیان`
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی۔ پس اس شخص کو دو چھڑیوں سے چالیس کے لگ بھگ کوڑے لگائے گئے۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ سزا دی۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہلکی ترین سزا اسی کوڑے ہیں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم صادر فرمایا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم میں ولید بن عقبہ کے قصہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس اور عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کوڑے سزا دی اور ہر ایک سنت ہے اور یہ مجھے زیادہ محبوب ہے اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک آدمی نے ولید کے خلاف شہادت دی کہ اس نے ولید کو شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس نے شراب پی نہ ہو گی تو قے کیسے ہو گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1064»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب ما جاء في ضرب شارب الخمر، حديث:6773، ومسلم، الحدود، باب حد الخمر، حديث:1706، وحديث علي رضي الله عنه: أخرجه مسلم، الحدود، حديث:1707.»
تشریح:
1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں شراب نوشی کی حد متعین نہیں تھی جیسا کہ دیگر حدود مقرر و متعین تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور ایک مقررہ حد‘ یعنی اَسّی (۸۰) کوڑے متعین کر دیے کیونکہ بعض اطراف و نواحی میں لوگ شراب نوشی میں کچھ زیادہ منہمک ہوگئے تھے اور اس کی سزا کو بے وزن و حقیر سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جانب ارسال شدہ تحریر سے ثابت ہے۔
فقہاء کے درمیان اس کی حد کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ وہ چالیس کوڑے ہیں یا اسی؟ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اخذ کرنا زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے۔
2. حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان پر شراب نوشی کا الزام لگا۔
حمران اور ایک دوسرے آدمی نے ان کے خلاف گواہی دی۔
ان میں سے ایک نے تو یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے اور دوسرے نے یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔
اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک شراب پی نہ ہو اس وقت تک قے کیسے کر سکتا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیت خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان پر حد لگائیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس پر حد لگاؤ۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا جو اس کی سردی کا والی ہوا وہی اس کی گرمی کا بھی والی بنے‘ یعنی جو آدمی خلافت کی نرمی اور لذت سے لطف اندوز ہوا ہے وہی اس کی شدت اور کڑوی صورت کو بھی اختیار کرے۔
ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اعزاء و اقرباء میری نسبت زیادہ ولایت و اختصاص رکھتے ہیں تو پھر انھیں ہی خلافت کی بری بھلی اور تلخ و شیریں باتوں اور حالات سے نپٹنا چاہیے اور جلاد کی ذمہ داری نبھانی چاہیے‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم انھیں حد لگاؤ۔
انھوں نے کوڑا پکڑا اور مارنا شروع کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے جاتے تھے۔
جب وہ چالیس پر پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس! کافی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس (کوڑے) ہی لگائے تھے…الخ۔
3. صاحب سبل السلام فرماتے ہیں:مصنف (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ) نے صرف‘ شراب کی قے کرنے کی گواہی دینے والے کا ذکر کیا ہے (حمر ان کی گواہی کا ذکر نہیں کیا۔
)
یہ مصنف کی کوتاہی ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پڑتا ہے کہ شاید ولید بن عقبہ کو صرف ایک گواہی کی بنا پر کوڑے لگائے گئے تھے‘ حالانکہ حمران کی گواہی بھی تھی کہ اس نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے۔
وضاحت: «حضرت ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ قریشی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔
فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے۔
قریش کے ظریف‘ حلیم‘ بہادر اور ادیب لوگوں میں سے تھے۔
فطری شعراء میں سے تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔
پھر شراب نوشی کے الزام پر انھیں اس منصب سے معزول کر دیا۔
شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد فتنے سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے۔
رقہ میں مقیم ہوئے اور وہیں وفات پائی اور بلیخ میں دفن ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1064   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4479  
´شراب کی حد کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے پر کھجور کی ٹہنیوں اور جوتوں سے مارا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس کوڑے لگائے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو بلایا، اور ان سے کہا: لوگ گاؤں سے قریب ہو گئے ہیں (اور مسدد کی روایت میں ہے) بستیوں اور گاؤں سے قریب ہو گئے ہیں (یعنی شراب زیادہ پینے لگے ہیں) تو اب شراب کی حد کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ تو عبدالرحمٰن بن عوف نے ان سے کہا: ہماری رائے یہ ہے کہ سب سے ہلکی جو حد ہے وہی آپ اس میں مقرر کر دیں، چنانچہ اسی (۸۰) کوڑے مارنے کا حکم ہوا (کیونکہ سب س۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4479]
فوائد ومسائل:
فقہاء کے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل میں پہلی چالیس ضربوں کو حد اورمزید چالیس کو تعزیر پر محمول کیا گیا ہے اور علمائے حق و فقہائے عظام امور شرعیہ میں اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے ہیں، بلکہ اجتہادی امورمیں اصحاب علم و رائے سے گہرا مشورہ کرنے کے بعد کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4479   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2570  
´شرابی کی حد کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شراب کے جرم میں جوتوں اور چھڑیوں سے مارنے کی سزا دیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2570]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ شرب نوشی کی سزا میں تعزیر کا پہلو پایا جاتا ہے جس میں کمی بیشی کی گنجائش ہوتی ہے یعنی اس کی حیثیت مقرر حد کی نہیں جس میں تبدیلی جائز نہیں۔

(2)
دوسرے جرائم کی سزا میں صرف کوڑے مارے جاتے ہیں البتہ شراب نوشی میں کوڑوں کی بجائے جوتے وغیرہ بھی مارے جا سکتے ہیں۔

(3)
صحابہ کرام ؓ نے میں اسی کوڑوں پر اتفاق کرلیا اس لیے اب اسی کوڑوں کی سزا دینا درست ہے۔

(4)
جرید کھجور کے درخت کی شاخ کو کہتے ہیں جس سے پتے اتار دیے گئے ہوں، سزا دینے کے لیے اس قسم کی چھڑی استعمال کرنی چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2570   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1443  
´شرابی کی حد کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو چھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی (اپنے دور خلافت میں) ایسا ہی کیا، پھر جب عمر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا، چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں، چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1443]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ شرابی کی حد چالیس کوڑے ہیں،
البتہ امام اس سے زائد اسی کوڑے تک کی سزا دے سکتا ہے،
لیکن اس کا انحصار حسب ضرورت امام کے اپنے اجتہاد پر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1443   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4454  
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے پر چھڑی اور جوتیوں سے مارا، پھر ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے چالیس کوڑے مارے، جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور آیا اور لوگ سبزہ زاروں (سرسبز و شاداب جگہوں) اور بستیوں کے قریب رہنے لگے، (شرابیوں میں اضافہ ہو گیا) تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ساتھیوں سے پوچھا، تمہارا شراب نوشی کی سزا کے بارے میں کیا خیال ہے تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، میرا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4454]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الريف ج ارياف:
سرسبز و شاداب علاقہ،
جہاں پانی بکثرت ہو،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں شام و عراق کے علاقے فتح ہو گئے،
جو زرعی علاقے تھے اور وہاں کھجوریں اور انگور عام تھے،
ان علاقوں میں شراب آسانی سے میسر تھی،
اس لیے شراب نوشی میں اضافہ ہو گیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4454   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6773  
6773. ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا، نبی کریم کریم ﷺ(دوسری سند)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6773]
حدیث حاشیہ:
ابتدائے اسلام میں شرابی کو مارنے کی حد مقرر نہ تھی، جوتوں اور چھڑیوں سے اس کی مرمت کرنے پر اکتفا کیا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کو سزا چالیس چھڑیاں مقرر فرمائی۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی یہی سزا رہی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ لوگ اس سزا سے شراب نوشی سے باز نہیں آ رہے تو انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہلکی سے ہلکی حد اسّی (80)
کوڑے ہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسّی کوڑے مارنے کا حکم دیا۔
(فتح الباري: 78/12)
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
جب شرابی نشے میں ہوتا ہے تو بکواس کرتا ہے اور بہتان باندھتا ہے، بہتان باندھنے والے کی سزا اسّی (80)
کوڑے ہیں۔
اسی تعداد کو سرکاری طور پر نافذ کردیا گیا۔
(المصنف لعبدالرزاق، حدیث: 13542)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6773   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6776  
6776. حضرت انس ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے شراب نوشی پر چھڑی اور جوتوں سے مارا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے چالیس کوڑے لگوائے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6776]
حدیث حاشیہ:
(1)
شرابی کو کوڑے لگائے جائیں یا ویسے ہی مارا جائے، اس کے متعلق تین موقف ہیں۔
راجح مذہب یہ ہے کہ اسے کوڑے بھی لگائے جا سکتے ہیں اور چھڑیوں اور جوتوں سے بھی اس کی مرمت کی جا سکتی ہے۔
دوسرا یہ ہے کہ اسے کوڑے ہی مارے جائیں۔
تیسرا یہ ہے کہ صرف چھڑیوں اور جوتوں سے مارا جائے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتوں اور چھڑیوں پر ہی اکتفا کیا اور اس کا نسخ ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے کوڑے لگانا ثابت ہے، لہٰذا دونوں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
بعض حضرات نے ایک درمیانی راستہ نکالا ہے کہ جو شراب نوشی کے عادی مجرم ہوں انھین کوڑوں سے سزا دی جائے اور کمزوروں کے لیے کپڑوں، جوتوں اور چھڑیوں سے مارنے کی سزا کافی ہے اور ان کے علاوہ دوسروں کے لیے حسب حال جو مناسب ہو اسے استعمال کیا جائے۔
(فتح الباري: 81/12) (2)
واضح رہے کہ جلد کا لفظ جلد، یعنی کھال سے ماخوذ ہے۔
اس سے مراد ایسی مار ہے جس کا اثر جلد تک رہے ایسی مار جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑ جائے، شریعت کی منشا کے خلاف ہے کیونکہ سزا سے زیادہ اسے عار دلانا اور شرمندہ کرنا مقصود ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6776