تخریج: «أخرجه البخاري، استتابة المرتدين، باب حكم المرتد والمرتدة واستتابتهم، حديث:6923، ومسلم، الإمارة، باب النهي عن طلب الإمارة والحرص عليها، حديث:1733، وأبوداود، الحدود، حديث:4355.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتد کو سزائے ارتداد سے پہلے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اسے توبہ کے لیے باقاعدہ کہا جائے گا۔
جمہور علماء کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے مگر بعض دوسرے علماء اور ظاہریہ اسے واجب تسلیم نہیں کرتے۔
2.حدیث: مَنْ بَدَّلَ… الخ میں لفظ مَنْ عام ہے‘ یعنی مرتد مرد ہو یا عورت دونوں کو اسلام کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دینے کے بعد ان کے انکار پر مصر رہنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
3. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی عورت کو اس کے ارتداد کی سزا میں قتل کیا گیا۔
اس وقت کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتد کے قتل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔
4. اس واقعہ سے درج ذیل مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں: ٭ امیر ریاست کو عاملوں
(گورنروں) کا تقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔
٭ ایک وقت میں دو عاملوں کا تقرر بھی جائز ہے۔
٭ گورنر کا فرض ہے کہ مرتد کو سزائے ارتداد دے اور شرعی حدود نافذ کرے۔
٭ اپنی تقرری کی جگہ سواری پر جانا ثابت ہے۔
٭ حاکم کی طرف سے مقرر کردہ گورنر اور وزیر کا احترام بھی کرنا چاہیے۔
٭ شرعی سزا کے نفاذ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے جبکہ تحقیق و تفتیش کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو۔
٭ مجرم کو جکڑنا جائز ہے۔
٭ سزا کا اجرا و نفاذ لوگوں کی موجودگی میں کرنا چاہیے تاکہ عبرت حاصل ہو۔