تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب المواشي تفسد زرع قوم، حديث:3570، وابن ماجه، الأحكام، حديث:2332، والنسائي في الكبرٰي، حديث:5784، وأحمد:4 /295، 5 /436، وابن حبان، الزهري عنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے مرسل صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے:
(الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۳۹ /۹۷. ۹۹‘ والصحیحۃ للألباني‘ رقم:۲۳۸) 2. امام نووی رحمہ اللہ نے کہا ہے: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جانور دن کے اوقات میں جو نقصان کریں اس کا کوئی تاوان نہیں‘ البتہ اگر جانور کے ساتھ سوار ہو یا اسے چلانے والا یا ہانکنے والا کوئی آدمی ہو تو اس صورت میں جمہور علماء بقدر نقصان تاوان بھرنے کے قائل ہیں۔
اور اگر نقصان رات کو کیا ہو تو امام مالک رحمہ اللہ کے قول کے مطابق بقدر نقصان‘ تاوان جانوروں کے مالک کے ذمے ادا کرنا ہوگا۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا قول ہے کہ تاوان اس صورت میں ہوگا جب مویشیوں کے مالک نے ان کی حفاظت میں کوتاہی اور کمی کی ہوگی‘ بصورت دیگر نہیں۔
(نووی) 3.دن اور رات کے تاوان میں اس لیے فرق کیا گیا ہے کہ بالعموم باغوں کے مالک دن کے اوقات میں خود حفاظت کرتے ہیں اور مویشیوں کے مالک ان کی حفاظت رات کے اوقات میں کرتے ہیں‘ دن کے وقت زیادہ پروا نہیں کی جاتی‘ لہٰذا جو شخص اس عمومی اور عرفی عادت کے الٹ کرے تو وہ حفاظت کی راہ و رسم سے خارج ہوگا۔
4. سبل السلام میں ہے کہ مالکیہ یہ قید لگاتے ہیں کہ جب مویشیوں کو ان کی مقررہ چراگاہوں میں چرنے کے لیے چھوڑا جائے، پھر وہ کوئی نقصان کر دیں تو مالک پر تاوان نہیں اور اگر انھیں کاشت شدہ زمین میں چھوڑا جائے جہاں چراگاہ نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں دن ہو یا رات مالکان‘ نقصان کے ذمہ دار ہوں گے۔