الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
155. بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ:
155. باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا۔
حدیث نمبر: 841
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ،" أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنَ الْمَكْتُوبَةِ كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ کو عمرو بن دینار نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بلند آواز سے ذکر، فرض نماز سے فارغ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جاری تھا۔ [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ/حدیث: 841]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريرفع الصوت بالذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد النبي
   صحيح مسلمرفع الصوت بالذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد النبي
   سنن أبي داودرفع الصوت للذكر حين ينصرف الناس من المكتوبة كان ذلك على عهد رسول الله

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 841 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 841  
حدیث حاشیہ:
وقال ابن عباس:
كنت أعلم إذا إنصرفوا بذلك إذا سمعته. ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ میں ذکر سن کر لوگوں کی نماز سے فراغت کو سمجھ جاتا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 841   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:841  
حدیث حاشیہ:
حدیث میں نماز کے بعد ذکر کی فضیلت منقول ہے لیکن اس ذکر سے کیا مراد ہے؟ دور حاضر میں نماز کے بعد بآواز بلند اجتماعی طور پر جو اللہ اللہ کی ضربیں لگائی جاتی ہیں، یہ قطعی طور پر غیر شرعی کام ہے بلکہ اس سے مراد "اللہ أکبر" کہنا ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 841   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1003  
´نماز کے بعد تکبیر کہنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ذکر کے لیے آواز اس وقت بلند کی جاتی تھی جب لوگ فرض نماز سے سلام پھیر کر پلٹتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہی دستور تھا، ابن عباس کہتے ہیں: جب لوگ نماز سے پلٹتے تو مجھے اسی سے اس کا علم ہوتا اور میں اسے سنتا تھا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 1003]
1003۔ اردو حاشیہ:
سلام کے بعد «الله اكبر» اور تین مرتبہ «استغرالله» اور اسی طرح بعض اور کلمات بالخصوص بلند آواز سے ثابت شدہ سنت ہے۔ اسے بعض اوقات یا محض تعلیم کے لئے محمول کرنا صحیح نہیں ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ آواز کی بلندی اس قدر نہ ہو کہ دوسروں کے لئے تشویش اور الجھن کا باعث بنے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1003   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1318  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ فرض نماز کے بعد لوگوں کے سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے ذکر نبی اکرم ﷺ کے دور میں تھا اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بتایا، مجھےسلام پھیرنے کا علم اس کے سننے سے ہوتا تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1318]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے بعد بلند آواز سے ذکر ہوتا تھا۔
اور اس کی ذکر کی توضیح دوسری روایت میں تکبیر سے کی گئی ہے۔
جس سے معلوم ہواکہ آپﷺ کی اقتداء میں مقتدی بھی بلند آوازسے اَللہُ اَکْبَر کہتے تھے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپﷺ سلام کے بعد بلند آواز سے:
(لاَ إلَهَ إلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيْكَ لَهُ،
لَهُ الـمُلْكُ،
وَلَهُ الحَمْدُ،
وهُوَ عَلَى كُلِّ شَيءٍ قَديرٌ،
لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إلاَّ باللَّهِ،
لاَ إلَهَ إلاَّ اللهُ،
وَلا نَعْبُدُ إلاَّ إيَّاهُ،
لَهُ النِّعْمَةُ ولَهُ الفَضْلُ ولَهُ الثَّنَاءُ الحَسَنُ،
لاَ إلَهَ إلاَّ اللهُ مُخلِصِينَ لَهُ الدِّيْنَ ولَوْ كَرِهَ الكَافِرُونَ)

کہتے تھے اس سے بلند آواز سے مروجہ ذکر کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد آپﷺ بلند آواز سے تاکہ آپﷺ کے قریب والوں کو سن جائے یہ کلمات کہتے آپﷺ کی اقتدا میں آپﷺ کے قریب والے کہتے اس طرح یہ آواز آخری صف تک پہنچ جاتی جہاں بچوں میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما موجود ہوتے تھے۔
لیکن آج کل مسنون الفاظ بلند آواز میں کہنے کی بجائے ایک سُر اور ایک آواز سے اپنی طرف سے کچھ کلمات کہے جاتے ہیں۔
اس ہم آہنگی کا ثبوت اس روایت سے کیسے نکل آیا علامہ سعیدی نے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ مساجد میں اکھٹے ذکر کرنا خلف وسلف کے نزدیک پسندیدہ ہے بشرط یہ کہ ان کے جہر (بلند آواز)
سے کسی کی نیند،
قراءت یا نماز میں خلل پیدا نہ ہو،
کیا اس قول سے ذِکْرٌ بِالْجَہْر کی موجودہ کیفیت پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1318