الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب التَّوْحِيدِ
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں
47. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا} :
47. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں) یوں فرمانا ”اے رسول! کہہ دے اچھا تورات لاؤ اور اسے پڑھو“۔
حدیث نمبر: Q7533
وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُعْطِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوا بِهَا وَأُعْطِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ فَعَمِلُوا بِهِ وَأُعْطِيتُمُ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ، وَقَالَ أَبُو رَزِينٍ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ يَتَّبِعُونَهُ وَيَعْمَلُونَ بِهِ حَقَّ عَمَلِهِ يُقَالُ يُتْلَى يُقْرَأُ حَسَنُ التِّلَاوَةِ حَسَنُ الْقِرَاءَةِ لِلْقُرْآنِ لَا يَمَسُّهُ لَا يَجِدُ طَعْمَهُ وَنَفْعَهُ إِلَّا مَنْ آمَنَ بِالْقُرْآنِ، وَلَا يَحْمِلُهُ بِحَقِّهِ إِلَّا الْمُوقِنُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ سورة الجمعة آية 5 وَسَمَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْإِسْلَامَ، وَالْإِيمَانَ، وَالصَّلَاةَ عَمَلًا، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ: أَخْبِرْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ: مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ إِلَّا صَلَّيْتُ، وَسُئِلَ أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ الْجِهَادُ، ثُمَّ حَجٌّ مَبْرُور.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوں فرمانا کہ توراۃ والے توراۃ دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ انجیل والے انجیل دئیے گئے انہوں نے اس پر عمل کیا۔ تم قرآن دئیے گئے تم نے اس پر عمل کیا۔ اور ابورزین نے کہا «يتلونه‏» کا مطلب یہ ہے کہ اس کی پیروی کرتے ہیں۔ اس پر جیسا عمل کرنا چاہئیے ویسا عمل کرتے ہیں تو تلاوت کرنا ایک عمل ٹھہرا۔ عرب کہتے ہیں «يتلى» یعنی پڑھا جاتا ہے اور کہتے ہیں فلاں شخص کی تلاوت یا قرآت اچھی ہے اور قرآن میں (سورۃ الواقعہ میں) ہے «لا يمسه‏» یعنی قرآن کا مزہ وہی پائیں گے اس کا فائدہ وہی اٹھائیں گے جو کفر سے پاک یعنی قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور قرآن کو اس کے حق کے ساتھ وہی اٹھائے گا جس کو آخرت پر یقین ہو گا کیونکہ (سورۃ الجمعہ میں) فرمایا «مثل الذين حملوا التوراة ثم لم يحملوها كمثل الحمار يحمل أسفارا بئس مثل القوم الذين كذبوا بآيات الله والله لا يهدي القوم الظالمين‏» ان لوگوں کی مثال جن سے توراۃ اٹھائی گئی پھر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا، (اس پر عمل نہیں کیا) ایسی ہے جیسے گدھے کی مثال جس پر کتابیں لدی ہوں۔ جن لوگوں نے اللہ کی باتوں کو جھٹلایا ان کی ایسی ہی بری مثال ہے اور اللہ ایسے شریر لوگوں کو راہ پر نہیں لگاتا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور ایمان دونوں کو مکمل فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے اپنا وہ زیادہ امید کا عمل بیان کرو جس کو تم نے اسلام کے زمانہ میں کیا ہو۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے اسلام کے زمانہ میں اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا ہے کہ میں نے جب وضو کیا تو اس کے بعد تحیۃ الوضو کی دو رکعت نماز پڑھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا پھر وہ حج جس کے بعد گناہ نہ ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: Q7533]
حدیث نمبر: 7533
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَنْ سَلَفَ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا بِهَا حَتَّى انْتَصَفَ النَّهَارُ ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا بِهِ حَتَّى صُلِّيَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيتُمُ الْقُرْآنَ فَعَمِلْتُمْ بِهِ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأُعْطِيتُمْ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابِ: هَؤُلَاءِ أَقَلُّ مِنَّا عَمَلًا وَأَكْثَرُ أَجْرًا، قَالَ اللَّهُ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا؟، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گذشتہ امتوں کے مقابلہ میں تمہارا وجود ایسا ہے جیسے عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت، اہل توریت کو توریت دی گئی تو انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ دن آدھا ہو گیا اور وہ عاجز ہو گئے۔ پھر انہیں ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ عصر کی نماز کا وقت ہو گیا، انہیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ مغرب کا وقت ہو گیا، تمہیں دو دو قیراط دئیے گئے، اس پر کتاب نے کہا کہ یہ ہم سے عمل میں کم ہیں اور اجر میں زیادہ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا میں نے تمہارا حق دینے میں کوئی ظلم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں دوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7533]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريبقاؤكم فيمن سلف من الأمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس أوتي أهل التوراة التوراة فعملوا بها حتى انتصف النهار ثم عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ثم أوتي أهل الإنجيل الإنجيل فعملوا به حتى صليت العصر ثم عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ثم أوتيتم القرآن فعملتم به ح
   صحيح البخاريبقاؤكم فيما سلف قبلكم من الأمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس أعطي أهل التوراة التوراة فعملوا بها حتى انتصف النهار ثم عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ثم أعطي أهل الإنجيل الإنجيل فعملوا به حتى صلاة العصر ثم عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ثم أعطيتم القرآن فعملت
   صحيح البخاريبقاؤكم فيما سلف قبلكم من الأمم كما بين صلاة العصر إلى غروب الشمس أوتي أهل التوراة التوراة فعملوا حتى إذا انتصف النهار عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ثم أوتي أهل الإنجيل الإنجيل فعملوا إلى صلاة العصر ثم عجزوا فأعطوا قيراطا قيراطا ثم أوتينا القرآن فعملنا إلى
   صحيح البخاريأجلكم في أجل من خلا من الأمم كما بين صلاة العصر ومغرب الشمس مثلكم ومثل اليهود والنصارى كمثل رجل استعمل عمالا قال من يعمل لي إلى نصف النهار على قيراط فعملت اليهود قال من يعمل لي من نصف النهار إلى العصر على قيراط فعملت النصارى ثم أنتم تعملون من العصر إل
   صحيح البخاريأجلكم في أجل من خلا من الأمم ما بين صلاة العصر إلى مغرب الشمس مثلكم ومثل اليهود والنصارى كرجل استعمل عمالا قال من يعمل لي إلى نصف النهار على قيراط قيراط فعملت اليهود إلى نصف النهار على قيراط قيراط ثم قال من يعمل لي من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط
   جامع الترمذيأجلكم فيما خلا من الأمم كما بين صلاة العصر إلى مغارب الشمس مثلكم ومثل اليهود والنصارى كرجل استعمل عمالا قال من يعمل لي إلى نصف النهار على قيراط قيراط فعملت اليهود على قيراط قيراط قال من يعمل لي من نصف النهار إلى صلاة العصر على قيراط قيراط فعملت النصارى
   المعجم الصغير للطبراني إنما أجلكم فيما خلا قبلكم من الأمم كما بين صلاة العصر إلى مغرب الشمس

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 7533 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7533  
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ نسبت یہود اورنصاریٰ کے دونوں کوملا کرمسلمانوں کا وقت بہت کم تھا جس میں انہوں نے کام کیا کیونکہ کہاں صبح سے لے کر عصر تک، کہاں عصرسے سورج ڈوبنےتک، اب حنفیہ کا یہ استدلال صحیح نہیں کہ عصر کا وقت دو مثل سایہ سے شروع ہوتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7533   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7533  
حدیث حاشیہ:
تورات وانجیل پر عمل کرنے میں ان دونوں کتابوں کو قراءت بھی شامل ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ قراءت ایک عمل ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہی ثابت کیا ہے کہ تلاوت، بندے کا فعل ہے اور متلو، یعنی جسے پڑھا گیا وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7533   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 557  
´جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا`
«. . . عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيلِ الْإِنْجِيلَ فَعَمِلُوا إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ ثُمَّ عَجَزُوا فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِينَا الْقُرْآنَ فَعَمِلْنَا إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ فَأُعْطِينَا قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابَيْنِ: أَيْ رَبَّنَا أَعْطَيْتَ هَؤُلَاءِ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ وَأَعْطَيْتَنَا قِيرَاطًا قِيرَاطًا وَنَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا؟ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا` آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توراۃ والوں کو توراۃ دی گئی۔ تو انہوں نے اس پر (صبح سے) عمل کیا۔ آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے، کام پورا نہ کر سکے، ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی، انہوں نے (آدھے دن سے) عصر تک اس پر عمل کیا، اور وہ بھی عاجز آ گئے۔ ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا۔ پھر (عصر کے وقت) ہم کو قرآن ملا۔ ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا (اور کام پورا کر دیا) ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا۔ اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! انہیں تو آپ نے دو دو قیراط دئیے اور ہمیں صرف ایک ایک قیراط۔ حالانکہ عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا، تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا۔ انہوں نے عرض کی کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ (زیادہ اجر دینا) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْعَصْرِ قَبْلَ الْغُرُوبِ:: 557]
تشریح:
اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دو مثل سائے سے شروع ہوتا ہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتا ہے کہ حدیث میں عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیا ہے جو دوپہر دن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگر ایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہو گا وہ دوپہر سے تا بفراغت از نماز عصر کم ہو گا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہو گی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔

اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجر یا عصر کی ایک رکعت پا لے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتا ہے۔ (اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ) کام تو کیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ وجہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اور کام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔

یہ مثالیں یہود و نصاریٰ اور مسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعد انجیل مقدس اور قرآن شریف سے منحرف ہو گئے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے نہ مانا۔ اور نصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ کو مانا لیکن قرآن شریف اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہو گئے تو ان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہو گئی۔ آخرت میں جو اجر ملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اور انہوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اور سب نیبوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آ گیا۔ «ذلك فضل الله يوتيه من يشاءوالله ذوالفضل العظيم» (از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 557   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3459  
3459. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تمھارا زمانہ پہلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب کا وقت ہے۔ تمھاری مثال، یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے چند مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو نصف دن تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نصف دن سے عصر تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو عیسائیوں نے نصف دن سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دودوقیراط پر میرا کام کرے؟ دیکھو، تم وہ لوگ ہو جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دو دو قیراط پر کام کرتے ہو۔ تم آگاہ رہوکہ تمھاری مزدوری دوگنی ہے۔ (یہ دیکھ کر) یہود و نصاریٰ غصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3459]
حدیث حاشیہ:
یہود و نصاری اورمسلمان مذہبی دنیا کی یہ تین عظیم قومیں ہیں، جن کو آسمانی کتابیں دی گئی ہیں، ان کےعلاوہ دنیا کی دوسری قوموں میں بھی الہام ربانی کا القاء ہواہے مگر اب ان کی تاریخ مستند نہیں ہے۔
بہرحال یہ تین قومیں آج بھی دنیامیں اپنے قدیم دعاوی کےساتھ موجود ہیں جن میں مسلمان قوم ایک ایسے دین کی علم بردار ہےجو ناسخ الادیان ہونے کا مدعی ہے، ان کواللہ نےیہ فضیلت بخشی ہے کہ ہرنیک کام پر ان کونہ صرف دوگنا بلکہ د س گنا اجرملتاہے۔
حدیث میں یہی تمثیل بیان کی گئی ہے۔
قیراط چار جوکے برابر وزن کوکہتےہیں، بعض اعمال صالحہ کا ثواب دس سے بھی زیادہ کئی گنا تک ملتاہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3459   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5021  
5021. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مسلمانو! گزشتہ امتوں کی عمر کے مقابلے میں تمہاری عمر ایسے ہے جیسے عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہوتا ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور ان سے کہا: ایک قیراط مزدوری پر میرا کام صبح سے دوپہر تک کون کرے گا؟ جو دوپہر سے عصر تک ایک قیراط مزدوری پر میرا کام کرے؟ تو یہ کام ںصاری نے کہا۔ پھر تم نے عصر سے مغرب تک دو، قیراط مزدوری پر کام کیا، یہود و نصارٰی نے کہا: ہم نے کام زیادہ کیا ہے لیکن اجرت کم ملی ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا میں نے تمہارا کچھ حق مارا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں (اللہ نے) فرمایا: یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5021]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ ان امتوں کی عمریں طویل تھیں اور تمہاری عمریں چھوٹی ہیں۔
اگلی امتوں کی عمر گویا طلوع آفتاب سے عصر تک ٹھہری اور تمہاری عصر سے لے کر مغرب تک جو اگلے وقت کی ایک چوتھائی ہے کام زیادہ کرنے سے یہود و نصاریٰ کا مجموعی وقت مراد ہے یعنی صبح سے لے کر عصر تک یہ اس وقت سے کہیں زائد ہے جو عصر سے لے کر مغرب تک ہوتا ہے۔
اب اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال کہ عصر کی نمازکا وقت دو مثل سے شروع ہوتا ہے پورا نہ ہو گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5021   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7467  
7467. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: تمہارا زمانہ امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔ اہل تورات کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا، پھر وہ عاجز آگئے۔ انہیں ایک ایک قیراط اجرت دی گئی۔ پھر انجیل والوں کو انجییل دی گئی۔ انہوں نے اس پر عصر کی نماز تک عمل کیا۔ پھر وہ اس پر عمل سے عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر غروب آفتاب تک عمل کیا تو تمہیں دو دو قیراط دیے گئے۔ اہل تورات نے کہا: اے ہمارے رب! ان لوگوں نے کام تھوڑا کیا لیکن اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: میں نے تمہاری اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7467]
حدیث حاشیہ:
اس رویت میں اتنا ہے کہ توراۃ والوں نے یہ کہا اور ان کا وقت مسلمانوں کے وقت سے زیادہ ہونے میں کچھ شبہ نہیں جس روایت میں ہے کہ یہود اورنصاریٰ دونوں نے یہ کہا اس سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کی نماز کا وقت دو مثل سایہ سے شروع ہوتا ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور اس روایت کے الفاظ پر تو اس استدلال کا کوئی محل ہی نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7467   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:557  
557. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: سابقہ امتوں کے اعتبار سے تمہارا یہاں رہنا ایسے ہے، جیسے نماز عصر سے غروب آفتاب تک، چنانچہ اہل تورات کو تورات دی گئی تو انہوں نے دوپہر تک کام کیا، وہ تھک گئے تو انہیں ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی تو انہوں نے نماز عصر تک کام کیا، وہ تھک گئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد ہم لوگوں کو قرآن دیا گیا تو ہم نے غروب آفتاب تک کام کیا، اس پر ہمیں دو دو قیراط دیے گئے۔ پھر اہل تورات اور اہل انجیل دونوں نے عرض کیا: اے پروردگار! تو نے مسلمانوں کو دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ایک، جبکہ ہم نے کام ان سے زیادہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کیا میں نے مزدوری دینے میں تم پر کوئی زیادتی کی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تو میرا فضل ہے جسے چاہتا ہوں، دیتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:557]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئےعلامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں:
امت محمدیہ کی یہ خصوصیت ہے کہ جو بھی نیکی کاکام غروب آفتاب تک کرے گی انھیں اس کا اجرو ثواب مکمل صورت میں ملے گا، چنانچہ اس امت کا جو فرد غروب آفتاب سے پہلے نماز عصر پڑھے گا، خواہ ایک رکعت ہی کیوں نہ ہو، اسے پوری نماز کا ثواب ملے گا۔
حدیث کی باب سے یہی مطابقت ہے۔
(حاشیة السندي: 106/1)
حافظ ابن حجر ؒ، مہلب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض اوقات جزوی کام کرنے پر پورے کام کا اجر دیا جاتا ہے، کیونکہ عصر سے لے کر غروب آفتاب تک کام کرنے پر پورے دن کی اجرت عطا کی گئی۔
یہ بالکل ایسے ہے جیسے ایک رکعت پانے والے کو پوری نماز کا ثواب دیا جائے، نیز حدیث میں وہ جز اورعمل جس پر پورا اجر دیا گیا ہے دن کے چوتھائی حصے کا عمل ہے، یعنی نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا عمل، دن کا ایک چوتھائی ہے، جس طرح اس چوتھائی وقت میں کام کرنے پر پورا اجر دیا گیا، اسی طرح ایک رکعت پانے والے کو چار رکعت پانے والے کی طرح قرار دیا گیا، گویا مثال اور ممثل لہ میں چوتھائی عمل کو پورا عمل قرار دینے کی بات مشترک ہے۔
(فتح الباري: 53/2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصود منتہائے عصر کا بیان ہے، کیونکہ حدیث میں دن کو تین حصوں میں تقسیم کرکے اسے تین گروہوں کےساتھ مخصوص کیا گیا ہے:
پہلا حصہ صبح سے دوپہر تک یہود کے حق میں ہے، اس میں دوسرا کوئی شریک نہیں۔
پھر دوسرا حصہ ظہر سے عصر تک اہل انجیل کے حق میں ہے اور اس میں بھی کوئی شریک نہیں۔
پھر تیسرا حصہ عصر سے غروب آفتاب تک کا ہے۔
معلوم ہوا کہ جس طرح ظہر سے عصر تک کا وقت ایک ہے، اسی طرح عصر سے مغرب تک کا وقت بھی ایک رہنا چاہیے۔
اس سے امام بخاری ؒ کا مدعا ثابت ہوگیا کہ عصر کے وقت انتہاغروب آفتاب ہے۔
(2)
کچھ حضرات کا موقف ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر عصر کا وقت دو مثل سایہ ہونے پر شروع ہونا چاہیے، کیونکہ اہل انجیل نے کہا کہ ہم نے زیادہ کام کیا ہے اور یہ اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جب ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے زیادہ ہو۔
اس مفروضے کا جواب علامہ کرمانی ؒ نے بایں طور دیا ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اگر عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہوتو ظہر سے عصر تک کا وقت، عصر سے مغرب تک کے وقت سے کم رہتا ہے۔
اگر ایسا تسلیم بھی کرلیا جائے توبھی یہ کہاں ہے کہ دونوں گروہوں میں سے ہر گروہ کا کام مسلمانوں سے زیادہ ہے۔
بلکہ دونوں گروہوں کا کام ملا کر مسلمانوں کے کام سے زیادہ ہے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے گروہ کا کام زیادہ ہو اور دوسرے کا زیادہ نہ ہو لیکن تغلیباً دونوں گروہوں کےلیے ایک جیسے الفاظ استعمال کر لیے گئے۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا لازم نہیں آتا، کیونکہ کم وقت میں زیادہ کام ہوسکتا ہے۔
(شرح الکرماني: 202/2)
تاریخی اعتبار سے بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ قلت و کثرت سے مراد وقت نہیں بلکہ کام ہے، کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان چھ سوسال کا وقفہ ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ سے اب تک 1432 سال گزر چکے ہیں، اس لیے کام کے زیادہ ہونے سے وقت کا زیادہ ہونا ضروری نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 557   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3459  
3459. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تمھارا زمانہ پہلی امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے عصر سے مغرب کا وقت ہے۔ تمھاری مثال، یہود و نصاریٰ کے ساتھ ایسی ہے جیسے کسی شخص نے چند مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو نصف دن تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو یہود نے آدھے دن تک ایک ایک قیراط کی مزدوری پر کام کرنا طے کر لیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نصف دن سے عصر تک ایک ایک قیراط پر میرا کام کرے؟ تو عیسائیوں نے نصف دن سے عصر تک ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر اس نے کہا: کون ہے جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دودوقیراط پر میرا کام کرے؟ دیکھو، تم وہ لوگ ہو جو نماز عصر سے غروب آفتاب تک دو دو قیراط پر کام کرتے ہو۔ تم آگاہ رہوکہ تمھاری مزدوری دوگنی ہے۔ (یہ دیکھ کر) یہود و نصاریٰ غصے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3459]
حدیث حاشیہ:

یہودونصاریٰ اور مسلمان مذہبی دنیا کی یہ تین قومیں ہیں جنھیں آسمانی کتابیں دی گئیں۔
ان کے علاوہ دوسری قوموں میں بھی الہام ربانی کا القا ہوا ہے مگر ان کی تاریخ مستند ذرائع سے مرتب نہیں ہوسکی۔
بہرحال یہ تین مذہبی قومیں دنیا میں اپنے قدیم دعووں کے ساتھ موجودہیںِ، جن میں مسلمان قوم ایک ایسے دین کی علمبردار ہے جس نے سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کردیا ہے۔
انھیں اللہ تعالیٰ نے یہ برتری بخشی ہے کہ ہر نیک کرم کرنے پر ان کو نہ صرف دوگنا بلکہ دس گنا تک اجر ملتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
جو کوئی اللہ کے ہاں نیکی لے کر آئے گا اسے اس کا دس گنا ثواب ملے گا۔
(الأنعام: 160/6)
بلکہ بعض اعمال صالحہ کا ثواب دس سے بھی زیادہ کئی سوگنا تک ملتا ہے۔
بعض اعمال ایسے ہیں جن کے اجر کے لیے کوئی پیمانہ مقرر نہیں بلکہ بلاحد وحساب اس کا اجر ملتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
بلاشبہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلاحساب دیا جائے گا۔
(الزمر 10/39)
احادیث کے مطابق روزہ بھی انھی اعمال سے ہے جن کا اجر اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے بلاحساب دے گا۔

بہرحال اس حدیث میں یہود و نصاریٰ کا ایک کردار نمایاں طور پر بیان ہوا ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3459   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5021  
5021. سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مسلمانو! گزشتہ امتوں کی عمر کے مقابلے میں تمہاری عمر ایسے ہے جیسے عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہوتا ہے تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کچھ مزدور کام پر لگائے اور ان سے کہا: ایک قیراط مزدوری پر میرا کام صبح سے دوپہر تک کون کرے گا؟ جو دوپہر سے عصر تک ایک قیراط مزدوری پر میرا کام کرے؟ تو یہ کام ںصاری نے کہا۔ پھر تم نے عصر سے مغرب تک دو، قیراط مزدوری پر کام کیا، یہود و نصارٰی نے کہا: ہم نے کام زیادہ کیا ہے لیکن اجرت کم ملی ہے اللہ تعالٰی نے فرمایا: کیا میں نے تمہارا کچھ حق مارا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں (اللہ نے) فرمایا: یہ میرا فضل ہے جسے چاہوں عطا کروں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5021]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں امت مرحومہ کی فضیلت میں بیان ہوئی ہے یہ فضیلت قرآن کریم پڑھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ہے جب قرآن کی وجہ سے دوسروں پر برتری حاصل ہے تو اس میں قرآن کی بھی فضیلت ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کوئی فضیلت نہیں۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ گزشتہ امتوں کی عمریں بہت طویل تھیں اور ان کے مقابلے میں اس امت کی عمر بہت کم ہے گویا طلوع آفتاب سے عصر تک گزشتہ امتوں کی عمر ہے اور عصر سے مغرب تک کا وقت اس امت کی عمر ہے جو گزشتہ وقت کی ایک چوتھائی ہے۔
کام زیادہ کرنے سے یہود و نصاری کا مجموعی وقت مراد ہے یعنی صبح سے لے کر عصر تک۔
یہ اس وقت سے کہیں زیادہ ہے جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے۔
(فتح الباري: 85/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5021   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7467  
7467. سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ منبر پر کھڑے فرما رہے تھے: تمہارا زمانہ امتوں کے مقابلے میں ایسا ہے جیسا کہ نماز عصر سے غروب آفتاب تک کا وقت ہے۔ اہل تورات کو تورات دی گئی اور انہوں نے اس پر عمل کیا یہاں تک کہ آدھا دن گزر گیا، پھر وہ عاجز آگئے۔ انہیں ایک ایک قیراط اجرت دی گئی۔ پھر انجیل والوں کو انجییل دی گئی۔ انہوں نے اس پر عصر کی نماز تک عمل کیا۔ پھر وہ اس پر عمل سے عاجز آگئے تو انہیں بھی ایک ایک قیراط دے دیا گیا۔ اس کے بعد تمہیں قرآن دیا گیا اور تم نے اس پر غروب آفتاب تک عمل کیا تو تمہیں دو دو قیراط دیے گئے۔ اہل تورات نے کہا: اے ہمارے رب! ان لوگوں نے کام تھوڑا کیا لیکن اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نےفرمایا: میں نے تمہاری اجرت زیادہ پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تمہاری اجرت میں کوئی کمی کی ہے؟ انہوں نے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7467]
حدیث حاشیہ:

قیراط ایک مقررہ حصے کا نام ہے جو نصف دانق اور موجودہ اعشاری نظام کے مطابق 1.255 ملی گرام کے برابر ہوتا ہے۔
بعض اوقات قیراط سے کثیر مقدار بھی مراد لی جاتی ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جس نے جنازے میں شرکت کی اسے ایک قیراط اور جو دفن کرنے تک ساتھ رہا اسے دو قیراط ملیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو قیراط کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قیراط بڑے بڑے دو پہاڑوں کے برابر ہیں۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1325)
اس حدیث کے آخر میں ہے کہ میں جس پر چاہتا ہوں اپنا فضل کرتا ہوں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے اس حصے سے عنوان ثابت کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مشیت نافذ ہو کر رہتی ہے۔
یہ کسی عرف یا قاعدے کی محتاج نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جو نہیں چا ہتا وہ نہیں ہوتا لیکن معتزلہ اور ان کے ہم مسلک اللہ تعالیٰ پر اپنے عقلی فیصلے ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے یعنی اللہ تعالیٰ کو چاہیے کہ وہ گناہ گار کو سزا دے اور فرمانبردار کو جزا دے۔
حالانکہ یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہیں۔
وہ چاہے تو ایک نیک اور پارسا عورت کو بلا وجہ گھر میں بلی باندھنے کی وجہ سے جہنم میں بھیج دے اور اگر چاہے تو ایک بدکار عورت کو محض کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے معاف کر دے اور جنت کا پروانہ عطا کر دے۔
بہر حال اللہ تعالیٰ کی مشیت تمام عالم رنگ و بو میں کار فرما ہے۔
اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اسے کوئی روکنے یا عاجز کرنے والا نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7467