ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن ابی مزرد نے بیان کیا اور ان سے سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ٹھہر جا۔ اس نے کہا کہ یہ قطع رحم (ناطہٰ توڑنا) سے تیری پناہ مانگنے کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں کہ میں ناطہٰ کو جوڑنے والے سے اپنے رحم کا ناطہٰ جوڑوں اور ناطہٰ کو کاٹنے والوں سے جدا ہو جاؤں۔ اس نے کہا کہ ضرور، میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہی تیرا مقام ہے۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے (سورۃ محمد کی) یہ آیت پڑھی «فهل عسيتم إن توليتم أن تفسدوا في الأرض وتقطعوا أرحامكم»”ممکن ہے کہ اگر تم حاکم بن جاؤ تو زمین میں فساد کرو اور قطع رحم کرو۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ/حدیث: 7502]
خلق الله الخلق فلما فرغ منه قامت الرحم فأخذت بحقو الرحمن فقال له مه قالت هذا مقام العائذ بك من القطيعة ألا ترضين أن أصل من وصلك أقطع من قطعك قالت بلى يا رب قال فذاك
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7502
حدیث حاشیہ: اللہ تعالیٰ کا ایک واضح کلام نقل ہوا یہ باب سے مطابقت ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ اللہ نے ناطہ سے فصیح بلیغ زبان میں یہ گفتگو کی۔ ترجمہ باب سے اس سے نکلا کہ اللہ تعالی نے ناطہ سے کلام فرمایا۔ آیت میں یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ اکثر لوگ دنیاوی اقتدار ودولت ملنے پر فساد وقطع رحمی ضرور کرتےہیں۔ إلا ماشاء اللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7502
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7502
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتائید کے طور پر یہ آیت کریمہ خود تلاوت فرمائی تاکہ صلہ رحمی کی اہمیت اُجاگر ہو۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4831) 2۔ اس حدیث کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود رحم سے ہم کلام ہو اور اس سے خطاب کیا، اس کلام کو ظاہر پر محمول کرتے ہوئے مبنی برحقیقت تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے خطابات اس کی نازل کی ہوئی کتابوں میں محصور نہیں ہیں۔ اس کے خطابات ایسی صفات ہیں جو اس کی مشیت سے متعلق ہیں۔ مخلوق کے ساتھ کسی بھی انداز سے ان کی مشابہت نہیں ہے۔ آیت کریمہ سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اکثر لوگ دنیاوی اقتدار اور مال ودولت ملنے پر اپنے رشتے داروں سے فساد اور قطع رحمی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ العیاذ باللہ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7502
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6518
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک نے مخلوق کوپیدا کیا،حتیٰ کہ جب وہ ان کے پیدا کرنے سے فارغ ہواتورحم(رشتہ داری) نے کھڑے ہوکرکہا،یہ اس کا مقام ہے،جو قطع رحمی سے پناہ چاہتا ہے،اللہ نےفرمایا،ہاں،کیا تو اس پر راضی نہیں ہے کہ میں اس سے (تعلق ورابطہ) جوڑوں،جوتجھے جوڑے اور اس سے(تعلق وربط) کاٹ لوں جو تجھے توڑے؟حق قرابت نے کہا،کیوں نہیں،اللہ نے فرمایا،یہ تجھے حاصل ہے،پھررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اگرتم چاہوتو یہ آیت پڑھ لو،"کہیں ایسے تو نہیں ہے،اگر تمہیں اقتدار ملے تو تم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6518]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی باہمی قرابت اور رشتہ داری کو اللہ تعالیٰ کے ہاں خصوصی اہمیت حاصل ہے، بلکہ بخاری شریف کی روایت میں ہے، رحم، رحمٰان سے مشتق ہے اور اللہ کی صفت رحمت ہی اس کا سرچشمہ و منبع ہے۔ اس لیے جو صلہ رحمی کرتے ہوئے رشتہ داروں اور قرابت کے حقوق ادا کرے گا اور ان سے حسن سلوک سے پیش آئے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے وابستہ کر لے گا اور اپنا بنا لے گا اور جو قطع رحمی کا رویہ اختیار کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سے کاٹ دے گا اور اس کو دور اور بے تعلق کر دے گا اور ایسا انسان اللہ کے لطف و کرم اور اس کے احسان و اکرام سے محروم ہو گا۔