´قیامت کا ایک منظر`
«...لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ .»
”۔۔۔مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ میں بھی بیہوش ہو جاؤں گا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آ جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ: 2411]
تخریج الحدیث: منکرین حدیث کا اشکال،کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟
یہ حدیث صحیح بخاری میں سات مقامات پر ہے:
[2411، 3408، 4813، 3414، 6517، 6518، 7472] اسے امام بخاری کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے: مسلم بن الحجاج
[صحيح مسلم: 2373] طحاوي
[مشكل الآثار، طبعه قديمه 1؍445، معاني الآثار 4؍316] ابويعليٰ
[المسند: 6643] النسائي
[السنن الكبريٰ: 7758، 11457] ابوداود
[السنن: 4671] ترمذي
[السنن: 3245 وقال ”هذا حديث حسن صحيح“] ابن ماجه
[السنن: 4274] البغوي
[شرح السنة 15؍106 ح4302 وقال: ”هذا حديث متفق على صحته“] البيهقي
[دلائل النبوة 5؍492] امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے امام أحمد رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے، دیکھئیے: مسند أحمد بن حنبل
[2؍264، 450] یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل جلیل القدر ثقہ تابعین نے بیان کی ہے۔ ① سعید بن المسیب
② ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن
③ عبدالرحمٰن الاعرج
④ عامر الشعبی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسے سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے: [صحيح بخاري: 2412] [و صحيح مسلم: 2374] [و مصنف ابن ابي شيبه 526/11 ح 31828] ↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، لہٰذا منکر حدیث کا اس سے
”کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟
“ کشید کرنا باطل ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ
”میں نہیں جانتا۔
“ إلخ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کے مطابق ہے۔
«وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ» (آپ کہہ دیں کہ۔۔۔) ”اور میں غیب نہیں جانتا۔
“ [سورة الانعام: 50] ✿ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
«وَإِنْ أَدْرِيْ أَقَرِيْبٌ أَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ» [سورة الانبياء: 109] ترجمہ از شاہ ولی اللہ الدہلوی: «ونمي دانم كه نزديك است يا دور است آنچه وعده داده ميشويد» [ص399] ترجمہ از شاہ عبدالقادر: ”اور میں نہیں جانتا، نزدیک ہے یا دور ہے، جو تم کو وعدہ ملتا ہے۔
“ [ص399] ترجمہ از أحمد رضا خان بریلوی: ”میں کیا جانوں کہ پاس ہے یا دور ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔
“ [ص531] ↰ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات، احادیث صحیحہ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات کے بھی مخالف ہیں۔ ان کے پاس نہ حدیث ہے اور نہ قرآن ہے، بس وہ اپنی خواہشات اور بعض نام نہاد
”مفکرین قرآن
“ کے خود ساختہ نظریات و تحریفات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ مرنے سے پہلے پہلے رب کریم کی طرف سے مہلت ہے، جو شخص توبہ کرنا چاہے کر لے ورنہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے باغیوں اور سرکشوں کے لئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنی پناہ میں رکھ۔ اے اللہ! تو ہمیں کتاب وسنت پر ثابت قدم رکھ اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرما۔ اے اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، آمین۔
[انتهٰي] (13 ذوالقعدہ 1426ھ)