ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن المنکدر نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، بیان کیا کہ غزوہ خندق کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (دشمن سے خبر لانے کے لیے) صحابہ سے کہا تو زبیر رضی اللہ عنہ تیار ہو گئے پھر ان سے کہا تو زبیر رضی اللہ عنہ ہی تیار ہوئے۔ پھر کہا، پھر بھی انہوں نے ہی آمادگی دکھلائی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے حواری (مددگار) ہوتے ہیں اور میری حواری زبیر ہیں۔ اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ میں نے یہ روایت ابن المنکدر سے یاد کی اور ایوب نے ابن المنکدر سے کہا، اے ابوبکر! (یہ محمد بن منکدر کی کنیت ہے) ان سے جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کیجئے کیونکہ لوگ پسند کرتے ہیں کہ آپ جابر رضی اللہ عنہ کی احادیث بیان کریں تو انہوں نے اسی مجلس میں کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا اور چار احادیث میں پے در پے یہ کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ میں نے سفیان بن عیینہ سے کہا کہ سفیان ثوری تو غزوہ قریظہ کہتے ہیں (بجائے غزوہ خندق کے) انہوں نے کہا کہ میں نے اتنے ہی یقین کے ساتھ یاد کیا ہے جیسا کہ تم اس وقت بیٹھے ہو کہ انہوں نے غزوہ خندق کہا، سفیان نے کہا کہ یہ دونوں ایک ہی غزوہ ہیں (کیونکہ) غزوہ خندق کے فوراً بعد اسی دن غزوہ قریظہ پیش آیا اور وہ مسکرائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَخْبَارِ الْآحَادِ/حدیث: 7261]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7261
حدیث حاشیہ: بنی قریظہ کے دن سے وہ دن مراد ہے جب جنگ خندق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کی خبر لانے کے لیے فرمایا تھا وہ دن مراد نہیں ہے جب بنی قریظہ کا محاصرہ کیا اور ان سے جنگ شروع کی کیونکہ یہ جنگ جنگ خندق کے بعد ہوئی جو کئی دن تک قائم رہی تھی۔ باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے ایک شخص زبیر رضی اللہ عنہ کو خبر لانے کے لیے بھیجا اور ایک شخص کی خبر قابل اعتماد سمجھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7261
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7261
حدیث حاشیہ: 1۔ بنو قریظہ کے دن سے مراد وہ دن ہے جب غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کی خبر لانے کے لیے کہا تھا۔ اس سے بنو قریظہ کے محاصرے کا دن مراد نہیں ہے کیونکہ یہ محاصرہ تو غزوہ خندق کے بعد ہوا تھا اور کئی دن تک جاری رہا تھا۔ آخر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے پروہ قلعوں سے نیچے اترے۔ پھر یہ محاصرہ اپنے منطقی نتائج کو پہنچا۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دشمنوں کی خبر لانے کے لیے روانہ فرمایا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رپورٹ پر اعتماد کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ خبر واحد حجت ہے بشرطیکہ قابل اعتماد راوی سے مروی ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7261
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2997
´اکیلے سفر کرنا` «. . . حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: نَدَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ نَدَبَهُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، ثُمَّ نَدَبَهُمْ فَانْتَدَبَ الزُّبَيْرُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِكُلِّ نَبِيٍّ حَوَارِيًّا وَحَوَارِيَّ الزُّبَيْرُ"، قَالَ سُفْيَانُ: الْحَوَارِيُّ: النَّاصِرُ . . .» ”. . . محمد بن منکدر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک کام کے لیے) غزوہ خندق کے موقع پر صحابہ کو پکارا، تو زبیر رضی اللہ عنہ نے اس کے لیے کہا کہ میں حاضر ہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو پکارا، اور اس مرتبہ بھی زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے کو پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پکارا اور پھر زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر فرمایا کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر ہیں۔ سفیان نے کہا کہ حواری کے معنی معاون، مددگار کے ہیں (یا وفادار محرم راز کو حواری کہا گیا ہے)۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2997]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2997 کا باب: «بَابُ السَّيْرِ وَحْدَهُ:» باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ثابت فرمائی ہے کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کافروں کی خبر لانے کے لئے اکیلے تشریف لے گئے، یہ واقعہ غزوہ خندق کا ہے جسے جنگ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔ اب ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہوگی کہ لازما جب سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش فرمایا کہ میں حاضر ہوں، یعنی کافروں کی خبر لانے کے لئے تو انہوں نے اس کام کے لئے سفر بھی کیا ہوگا اور وہ اکیلے تھے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔ اس باب کے ذکر پر امام اسماعیلی نے تعقب فرمایا ہے اور کہتے ہیں: «لا أعلم هذا الحديث كيف يدخل فى هذا الباب؟» ”کہ میں نہیں جانتا کہ یہ حدیث (سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ والی) کس طرح سے باب کے مطلب میں داخل ہے۔“ اور اسی بات کی ابن المنیر رحمہ اللہ نے بھی تائید فرمائی ہے کہ ممکن ہے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی اور بھی سفر میں ہو۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ جواب دیتے ہوئے فرما تے ہیں: «قلت: لكن قد ورد من وجه آخر ما يدل على ذالك و فيه قلت يا أبت رأيتك تختلف، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ياتيني بخبر قريظة فانطلقت.»[فتح الباري، ج 6، ص: 170] یہاں تو اس کا ذکر نہیں ہے (کہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اکیلے تھے یا اور کوئی بھی ان کے ساتھ تھا) لیکن یہی واقعہ «مناقب زبير» میں آ رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے یہ سفر تن تنہا فرمایا تھا اور آپ نے خود فرمایا: میں نے ابا جان کو کئی بار بنوقریظہ کی طرف آتے جاتے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا: آپ بار بار بنو قریظہ کی طرف آرہے ہیں، آخر کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں سے فرمایا تھا کہ ”بنو قریظہ کی خبر کون لائے گا؟“ تو میں چل پڑا۔ اس روایت سے واضح طور پر ان کا اکیلے سفر کرنا ثابت ہوا۔ مزید اس سے زیادہ واضح الفاظ سنن النسائی میں موجود ہیں جس کے بعد تاویل کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ وہب بن کیسان رحمہ اللہ اس واقعہ کو ذکر فرماتے ہیں: «أشهد سمعت جابر بن عبد الله . . . . . فلم يذهب أحد، فذهب الزبير.»[سنن النسائي، ج 5، ص: 262] ”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، پس ان کے ساتھ کوئی نہ گیا، پھر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ خود (اکیلے) گئے۔“ فائدہ: امام مہلب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”رات کو تنہا سفر کرنے سے منع کرنے میں حکمت یہ ہے کہ رات کا وقت شیاطین کے باہر پھیل جانے، اور ایذائیں پہنچانے، اور لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کا وقت ہوتا ہے۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو بچوں کو باہر نکالنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ لیکن یہ حرام نہیں ہے، اگر کوئی عذر نہ ہو تو مکروہ ہے۔ کوئی رفیق سفر ہمراہ ہو تو افضل اور بہتر ہے۔“[شرح ابن بطل، ج 5، ص: 155]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث122
´زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ قریظہ پر حملے کے دن فرمایا: ”کون ہے جو میرے پاس قوم (یعنی یہود بنی قریظہ) کی خبر لائے؟، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ہے جو میرے پاس قوم کی خبر لائے؟“، زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، یہ سوال و جواب تین بار ہوا، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کے حواری (خاص مددگار) ہوتے ہیں، اور میرے حواری (خاص مددگار) زبیر ہیں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 122]
اردو حاشہ: (1) بنو قریظہ کے خلاف مہم، جنگ خندق کے فوراً بعد شروع ہوئی، اس طرح سے دونوں غزوات گویا ایک ہی ہیں۔ یہاں یوم بنو قریظہ سے مراد جنگ احزاب کے ایک دن کا واقعہ ہے۔
(2) حواری سے مراد جاں نثار ساتھی ہے۔ جس طرح حضرت عیسی علیہ اسللام کے ساتھیوں (حواریوں) نے کہا تھا: ﴿نَحْنُ اَنْصَارُ الله﴾(الصف: 14) ہم اللہ کے (دین کے) مددگار ہیں۔
(3) اس سے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی عظمت اور شان ظاہر ہوتی ہے کہ نبی علیہ السلام نے انہیں مقرب ترین ساتھیوں میں شمار فرمایا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 122
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3745
´سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر بن عوام ہیں“۱؎، اور ابونعیم نے اس میں «یوم الأحزاب»(غزوہ احزاب) کا اضافہ کیا ہے، آپ نے فرمایا: ”کون میرے پاس کافروں کی خبر لائے گا؟“ تو زبیر رضی الله عنہ بولے: میں، آپ نے تین بار اسے پوچھا اور زبیر رضی الله عنہ نے ہر بار کہا: میں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3745]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے جب کفار کی سرگرمیوں کا پتہ لگانے کے لیے یہ اعلان کیا کہ کون ہے جو مجھے کافروں کے حال سے با خبر کرے اور ایسا آپﷺ نے تین بار کہا، تینوں مرتبہ زبیر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی نے بھی جواب نہیں دیا، اسی موقع پر آپﷺ نے زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرمایا تھا: (اِنَّ لِکُلِّ نَبِیٍّ حِوَارِیاً وَ اِنَّ حِوَارِیْ اَلزُّبَیْرُ بْنُ الْعَوَامُ) یہ بھی یاد رکھئے کہ زبیربن عوام نبی اکرمﷺ کی سگی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے تھے، اور اُن کی شادی اُم المومنین عائشہ ؓ کی بڑی بہن اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم کے ساتھ ہوئی تھی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3745
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1266
1266- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خندق کے موقع پر (دشمن کی جاسوسی کے لیے) لوگوں کو طلب کیا، تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے خود کو پیش کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر لوگوں کو طلب کیا، توانہوں نے خود کو پیش کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انہیں طلب کیا، تو سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے خود کوپیش کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر نبی کا ایک حواری ہوتا ہے اور میرا حواری، زبیر ہے۔“ سفیان کہتے ہیں: ہشام بن عروہ نامی راوی نے یہ الفاظ اضافی نقل کیے ہیں ”میرا پھوپھی زاد (زبیر ہے)۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1266]
فائدہ: اس حدیث سے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہم بات کو تین دفعہ دہرانا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1265
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6243
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے روز لوگوں کے ایک کام کے لیے دعوت دی تو زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا،میں حاضر ہوں،آپ نے پھردعوت دی تو زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دعوت قبول کرلی،آپ نے پھر لوگوں کو دعوت دی تو زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لبیک کہا،چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ہر نبی کے خصوصی مددگار ہوتے ہیں اور میرا حواری خصوصی معاون،زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6243]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (2) حواري: خالص سفید، یعنی مخلص ساتھی، خصوصی معاون۔ فوائد ومسائل: غزوہ خندق کے موقع پر جب بنو قریظہ کی بدعہدی اور غداری کا آپ کو علم ہوا تو آپ نے ان کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے لیے کسی کو بھیجا چاہا، جب حضرت زبیر نے اس کے لیے، فوری طور پر اپنے آپ کو پیش کر دیا تو پھر کسی اور کو پیش پیش کرنے کی ضرورت نہ رہی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6243
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2997
2997. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے غزوہ خندق کے وقت لوگوں کو آواز دی تو حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا۔ آپ نے پھر ان کو پکارا تو حضرت زبیر ؓنے لبیك کہا: آپ نے پھر آواز دی تو حضرت زبیر ؓ ہی نے جواب دیا۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کے مدد گار ہوتے ہیں اور میرا مددگار زبیر ؓ ہے۔“(راوی حدیث) سفیان نے کہا: حواری مدد گارکو کہا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2997]
حدیث حاشیہ: بعضوں نے کہا حضرت عیسیٰ ؑکے ماننے والوں کو حواری اس وجہ سے کہتے کہ وہ سفید پوشاک پہنتے تھے۔ قتادہ نے کہا حواری وہ جو خلافت کے لائق ہو یا وزیر با تدبیر ہو۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب اس طرح ثابت کیا کہ حضرت زبیر ؓ اکیلے کافروں کی خبر لانے گئے۔ یہ جنگ خندق سے متعلق ہے جسے جنگ احزاب بھی کہا گیا ہے۔ سورہ احزاب میں اس کی کچھ تفصیلات مذکور ہیں اور کتاب المغازی میں ذکر آئے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2997
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3719
3719. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3719]
حدیث حاشیہ: حواری قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کے فدائیوں کو کہاگیا ہے، یوں تو جملہ صحابہ کرام ؓ ہی آنحضرت ﷺ کے فدائی تھے، مگر بعض خصوصیات کی بناپر آپ نے یہ لقب حضرت زبیر ؓ کو عطا فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3719
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2846
2846. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے غزوہ احزاب، یعنی غزوہ خندق کے دن فرمایا: ”میرے پاس دشمن کی خبر کون لائے گا؟“ حضرت زبیر ؓنے کہا: میں لاؤں گا۔ آپ نے فرمایا: ”میرے پاس دشمن کی خبر کون لائے گا؟“ حضرت زبیر ؓ گویا ہوئے: میں لاؤں گا۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کا ایک مخلص مددگار ہوتا ہے اور میرا مخلص مدد گار زبیر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2846]
حدیث حاشیہ: 1۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: لشکر کشی سے پہلے جاسوسی بھیج کر دشمن کے حالات معلوم کرنا جائز امر ہے تاکہ وہ مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر انھیں نقصان نہ پہنچائیں۔ (فتح الباري: 66/8) 2۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہےکہ رسول اللہ ﷺنے حضرت حذیفہ ؓ کو جاسوسی کے لیے بھیجا تھا۔ تو یہ روایت اس کے مخالف نہیں ہے کیونکہ حضرت زبیر ؓ بنوقریظہ کی خبر لانے کے لیے مامور تھے جبکہ حضرت حذیفہ ؓ کو کفار قریش کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا گیاتھا، نیز حضرت زبیر ؓنے ایک ہی مقام پر تین مرتبہ جواب نہیں دیا تھا بلکہ یہ جواب تین مختلف مواقع پردیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2846
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2847
2847. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے کسی کام کے لیے لوگوں کو پکارا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق یہ غزوہ خندق کا واقعہ ہے، تو حضرت زبیر ؓنے جواب دیا، پھر آواز دی تو حضرت زبیر ؓ ہی نے جواب دیا۔ پھر آپ ﷺ (تیسری مرتبہ) پکارا تو بھی حضرت زبیر ؓنے ہی جواب دیا۔ بہر حال تینوں مرتبہ حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کا ایک خاص آدمی (مخلص ساتھی) ہوتا ہے، میرا خاص آدمی حضرت زبیر بن عوام ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2847]
حدیث حاشیہ: 1۔ جس شخص کو دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا جائے اسے طلیعة الجیش کہا جاتا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اکیلے آدمی کو سفرکرنے کی ممانعت ہے۔ وہم ہوسکتا تھا کہ جاسوسی کے لیے بھی اکیلا آدمی نہیں بھیجاجاسکتا۔ امام بخاری ؒنے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے۔ چونکہ جاسوسی میں حالات کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے،اس لیے مناسب ہے کہ ایک ہی آدمی کا انتخاب کیا جائے۔ اسے عام سفر پرمحمول کرنا مناسب نہیں اور اس حدیث سے اکیلے آدمی کے سفرکرنے کا مسئلہ کشید کرنا بھی صحیح نہیں۔ اس کی ممانعت اپنی جگہ برقرارہے۔ 2۔ یہود مدینہ کی ایک شاخ بنوقریظہ سے رسول اللہ ﷺ نے معاہدہ کررکھا تھا کہ ہم مدینہ طیبہ کا مشترکہ دفاع کریں گے۔ جب کفار قریش نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا تو بنوقریظہ نے عہدشکنی کرکے ان کا ساتھ دیا۔ جب حالات سنگین ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حالات معلوم کرنے کے لیے لوگوں کو آواز دی۔ حضرت زبیر ؓنے آگے بڑھ کر اس بھاری بھرکم ذمہ داری کو اٹھایا تورسول اللہ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا: ”زبیر بن عوام میرےمخلص ساتھی ہیں۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2847
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3719
3719. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3719]
حدیث حاشیہ: ایک روایت میں ان تعریفی کلمات کا سبب بیان ہوا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس مشرکین کی جاسوسی کون کرے گا اور ان کے حالات سے مجھے کون آگاہ کرے گا؟“ حضرت زبیر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ ! اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔ آپ نے تین مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت زبیر نے یہی جواب دیا کہ میں مشرکین کے ناپاک عزائم معلوم کروں گا اور آپ تک پہنچاؤں گا۔ اس وقت آپ نے یہ تعریفی کلمات ارشاد فرمائے۔ (صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2847) اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے وقت میں مدد کرنا دوسرے اوقات کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کسی کے حالات معلوم کرنے کے لیے ان میں گھس جانا،اپنی جا ن خطرے میں ڈالنا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3719
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4113
4113. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے خندق کے دن فرمایا: ”کون ہے جو ہمیں دشمنوں کے حالات سے آگاہ کرے؟“ حضرت زبیر ؓ نے کہا: میں ان کی خبر لاتا ہوں۔ آپ نے پھر پوچھا: ”قوم کی خبر کون لائے گا؟“ تو حضرت زبیر ؓ نے کہا: میں لاؤں گا۔ آپ نے تیسری مرتبہ پوچھا: ”قوم کے حالات سے ہمیں کون مطلع کرے گا؟“ تو اس مرتبہ بھی حضرت زبیر ؓ نے عرض کی کہ یہ کام میں سر انجام دوں گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کے مخلص مددگار ہوتے ہیں اور میرا خاص مددگار زبیر ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:4113]
حدیث حاشیہ: بعض روایات میں ہے کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے حضرت حذیفہ ؓ گئے تھے۔ ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ قریش کی خبر لانے کے لیے حضرت حذیفہ ؓ گئے تھے، چنانچہ سردی کا موسم تھا، حضرت حذیفہ ؓ سردی سے ٹھٹررہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے سینے سے لگایا تاکہ حذیفہ گرمی حاصل کریں اور حضرت زبیر ؓ کو بنوقریظہ کی خبرلانے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ ان کارسول اللہ ﷺ معاہدہ تھا لیکن انھوں نے عہد شکنی اور غداری کی اور قریش سے ساز باز کرکے مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔ بہرحال د ونوں جماعتوں کی خبر لانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں حضرات کو بھیجا تھا۔ (فتح الباري: 508/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4113