مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2997
2997. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہےکہ نبی ﷺ نے غزوہ خندق کے وقت لوگوں کو آواز دی تو حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا۔ آپ نے پھر ان کو پکارا تو حضرت زبیر ؓنے لبیك کہا: آپ نے پھر آواز دی تو حضرت زبیر ؓ ہی نے جواب دیا۔ (یہ سن کر) نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کے مدد گار ہوتے ہیں اور میرا مددگار زبیر ؓ ہے۔“ (راوی حدیث) سفیان نے کہا: حواری مدد گارکو کہا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2997]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا حضرت عیسیٰ ؑکے ماننے والوں کو حواری اس وجہ سے کہتے کہ وہ سفید پوشاک پہنتے تھے۔
قتادہ نے کہا حواری وہ جو خلافت کے لائق ہو یا وزیر با تدبیر ہو۔
اس حدیث سے حضرت امام بخاریؒ نے باب کا مطلب اس طرح ثابت کیا کہ حضرت زبیر ؓ اکیلے کافروں کی خبر لانے گئے۔
یہ جنگ خندق سے متعلق ہے جسے جنگ احزاب بھی کہا گیا ہے۔
سورہ احزاب میں اس کی کچھ تفصیلات مذکور ہیں اور کتاب المغازی میں ذکر آئے گا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2997
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7261
7261. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:نبی ﷺ نے خندق کے روز صحابہ کو آوااز دی تو سیدنا زبیر ؓ ہی تیار ہوئے آپ نے تیسری مرتبہ پکارا تو بھی سیدنا زبیر ؓ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کا مدد گار ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر ؓ ہے۔“ (راوی حدیث) سفیان نے کہا: میں نے یہ حدیث محمد بن منکدر سے یاد کی ہے۔ ایوب نے ان (ابن منکدر) سے کہا: اے ابوبکر! آپ لوگوں سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کریں کیونکہ لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں تو انہوں نے اسی مجلس میں کہا: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور پے در پے احادیث بیان کرنے لگے کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ (علی بن عبداللہ کہتے ہیں:) میں نے سفیان بن عینیہ سے کہا: سفیان ثوری نے یوم قریظہ کہا۔ سفیان بن عینیہ نے کہا: میں نے ابن منکدر سے یوم خندق اس طرح آمنے سامنے یاد کیا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7261]
حدیث حاشیہ:
بنی قریظہ کے دن سے وہ دن مراد ہے جب جنگ خندق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کی خبر لانے کے لیے فرمایا تھا وہ دن مراد نہیں ہے جب بنی قریظہ کا محاصرہ کیا اور ان سے جنگ شروع کی کیونکہ یہ جنگ جنگ خندق کے بعد ہوئی جو کئی دن تک قائم رہی تھی۔
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے ایک شخص زبیر رضی اللہ عنہ کو خبر لانے کے لیے بھیجا اور ایک شخص کی خبر قابل اعتماد سمجھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7261
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3719
3719. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3719]
حدیث حاشیہ:
حواری قرآن مجید میں حضرت عیسیٰ ؑ کے فدائیوں کو کہاگیا ہے، یوں تو جملہ صحابہ کرام ؓ ہی آنحضرت ﷺ کے فدائی تھے، مگر بعض خصوصیات کی بناپر آپ نے یہ لقب حضرت زبیر ؓ کو عطا فرمایا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3719
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2847
2847. حضرت جابر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے کسی کام کے لیے لوگوں کو پکارا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال کے مطابق یہ غزوہ خندق کا واقعہ ہے، تو حضرت زبیر ؓنے جواب دیا، پھر آواز دی تو حضرت زبیر ؓ ہی نے جواب دیا۔ پھر آپ ﷺ (تیسری مرتبہ) پکارا تو بھی حضرت زبیر ؓنے ہی جواب دیا۔ بہر حال تینوں مرتبہ حضرت زبیر ؓ نے جواب دیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کا ایک خاص آدمی (مخلص ساتھی) ہوتا ہے، میرا خاص آدمی حضرت زبیر بن عوام ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2847]
حدیث حاشیہ:
1۔
جس شخص کو دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے بھیجا جائے اسے طلیعة الجیش کہا جاتا ہے۔
ایک حدیث کے مطابق اکیلے آدمی کو سفرکرنے کی ممانعت ہے۔
وہم ہوسکتا تھا کہ جاسوسی کے لیے بھی اکیلا آدمی نہیں بھیجاجاسکتا۔
امام بخاری ؒنے اس وہم کو دور کرنے کے لیے مذکورہ عنوان اور حدیث پیش کی ہے۔
چونکہ جاسوسی میں حالات کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہے،اس لیے مناسب ہے کہ ایک ہی آدمی کا انتخاب کیا جائے۔
اسے عام سفر پرمحمول کرنا مناسب نہیں اور اس حدیث سے اکیلے آدمی کے سفرکرنے کا مسئلہ کشید کرنا بھی صحیح نہیں۔
اس کی ممانعت اپنی جگہ برقرارہے۔
2۔
یہود مدینہ کی ایک شاخ بنوقریظہ سے رسول اللہ ﷺ نے معاہدہ کررکھا تھا کہ ہم مدینہ طیبہ کا مشترکہ دفاع کریں گے۔
جب کفار قریش نے مدینہ طیبہ پر حملہ کیا تو بنوقریظہ نے عہدشکنی کرکے ان کا ساتھ دیا۔
جب حالات سنگین ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے حالات معلوم کرنے کے لیے لوگوں کو آواز دی۔
حضرت زبیر ؓنے آگے بڑھ کر اس بھاری بھرکم ذمہ داری کو اٹھایا تورسول اللہ ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا:
”زبیر بن عوام میرےمخلص ساتھی ہیں۔
“
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2847
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3719
3719. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلاشبہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری حضرت زبیر بن عوام ؓ ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3719]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ان تعریفی کلمات کا سبب بیان ہوا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے پاس مشرکین کی جاسوسی کون کرے گا اور ان کے حالات سے مجھے کون آگاہ کرے گا؟“ حضرت زبیر ؓ نے کہا:
اللہ کے رسول ﷺ ! اس کام کے لیے میں حاضر ہوں۔
آپ نے تین مرتبہ اس خواہش کا اظہار کیا تو حضرت زبیر نے یہی جواب دیا کہ میں مشرکین کے ناپاک عزائم معلوم کروں گا اور آپ تک پہنچاؤں گا۔
اس وقت آپ نے یہ تعریفی کلمات ارشاد فرمائے۔
(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث: 2847)
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے وقت میں مدد کرنا دوسرے اوقات کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ کسی کے حالات معلوم کرنے کے لیے ان میں گھس جانا،اپنی جا ن خطرے میں ڈالنا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3719
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4113
4113. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے خندق کے دن فرمایا: ”کون ہے جو ہمیں دشمنوں کے حالات سے آگاہ کرے؟“ حضرت زبیر ؓ نے کہا: میں ان کی خبر لاتا ہوں۔ آپ نے پھر پوچھا: ”قوم کی خبر کون لائے گا؟“ تو حضرت زبیر ؓ نے کہا: میں لاؤں گا۔ آپ نے تیسری مرتبہ پوچھا: ”قوم کے حالات سے ہمیں کون مطلع کرے گا؟“ تو اس مرتبہ بھی حضرت زبیر ؓ نے عرض کی کہ یہ کام میں سر انجام دوں گا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کے مخلص مددگار ہوتے ہیں اور میرا خاص مددگار زبیر ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4113]
حدیث حاشیہ:
بعض روایات میں ہے کہ حالات کا جائزہ لینے کے لیے حضرت حذیفہ ؓ گئے تھے۔
ان روایات میں تضاد نہیں ہے کیونکہ قریش کی خبر لانے کے لیے حضرت حذیفہ ؓ گئے تھے، چنانچہ سردی کا موسم تھا، حضرت حذیفہ ؓ سردی سے ٹھٹررہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں اپنے سینے سے لگایا تاکہ حذیفہ گرمی حاصل کریں اور حضرت زبیر ؓ کو بنوقریظہ کی خبرلانے کے لیے بھیجا تھا کیونکہ ان کارسول اللہ ﷺ معاہدہ تھا لیکن انھوں نے عہد شکنی اور غداری کی اور قریش سے ساز باز کرکے مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہوگئے۔
بہرحال د ونوں جماعتوں کی خبر لانے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں حضرات کو بھیجا تھا۔
(فتح الباري: 508/7)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4113
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7261
7261. سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:نبی ﷺ نے خندق کے روز صحابہ کو آوااز دی تو سیدنا زبیر ؓ ہی تیار ہوئے آپ نے تیسری مرتبہ پکارا تو بھی سیدنا زبیر ؓ نے آمادگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر نبی کا مدد گار ہوتا ہے اور میرا مددگار زبیر ؓ ہے۔“ (راوی حدیث) سفیان نے کہا: میں نے یہ حدیث محمد بن منکدر سے یاد کی ہے۔ ایوب نے ان (ابن منکدر) سے کہا: اے ابوبکر! آپ لوگوں سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کریں کیونکہ لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں تو انہوں نے اسی مجلس میں کہا: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے اور پے در پے احادیث بیان کرنے لگے کہ میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔ (علی بن عبداللہ کہتے ہیں:) میں نے سفیان بن عینیہ سے کہا: سفیان ثوری نے یوم قریظہ کہا۔ سفیان بن عینیہ نے کہا: میں نے ابن منکدر سے یوم خندق اس طرح آمنے سامنے یاد کیا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7261]
حدیث حاشیہ:
1۔
بنو قریظہ کے دن سے مراد وہ دن ہے جب غزوہ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کی خبر لانے کے لیے کہا تھا۔
اس سے بنو قریظہ کے محاصرے کا دن مراد نہیں ہے کیونکہ یہ محاصرہ تو غزوہ خندق کے بعد ہوا تھا اور کئی دن تک جاری رہا تھا۔
آخر حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلے پروہ قلعوں سے نیچے اترے۔
پھر یہ محاصرہ اپنے منطقی نتائج کو پہنچا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دشمنوں کی خبر لانے کے لیے روانہ فرمایا:
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رپورٹ پر اعتماد کیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ خبر واحد حجت ہے بشرطیکہ قابل اعتماد راوی سے مروی ہو۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7261