ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سعید نے خبر دی، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں پر دیکھا۔ اس پر ایک ڈول تھا۔ جتنا اللہ نے چاہا میں نے اس میں سے پانی کھینچا، پھر اس ڈول کو ابن ابی قحافہ نے لے لیا اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول کھینچنے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی، اللہ ان کی مغفرت کرے پھر وہ بڑا ڈول بن گیا اور اسے عمر بن خطاب نے اٹھا لیا۔ میں نے کسی ماہر کو عمر بن خطاب کی طرح کھینچتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ انہوں نے لوگوں کے لیے اونٹوں کے حوض بھر دئیے۔ لوگوں نے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے اپنے تھانوں پر لے جا کر بیٹھا دیا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ/حدیث: 7021]
رأيتني على قليب عليها دلو فنزعت منها ما شاء الله ثم أخذها ابن أبي قحافة فنزع بها ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه ضعف والله يغفر له ضعفه ثم استحالت غربا فأخذها ابن الخطاب فلم أر عبقريا من الناس ينزع نزع عمر حتى ضرب الناس بعطن
رأيتني على قليب فنزعت ما شاء الله أن أنزع ثم أخذها ابن أبي قحافة فنزع ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه ضعف والله يغفر له ثم أخذها عمر فاستحالت غربا فلم أر عبقريا من الناس يفري فريه حتى ضرب الناس حوله بعطن
رأيت أني على حوض أسقي الناس فأتاني أبو بكر فأخذ الدلو من يدي ليريحني فنزع ذنوبين وفي نزعه ضعف والله يغفر له فأتى ابن الخطاب فأخذ منه فلم يزل ينزع حتى تولى الناس والحوض يتفجر
رأيتني على قليب وعليها دلو فنزعت منها ما شاء الله ثم أخذها ابن أبي قحافة فنزع منها ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه ضعف والله يغفر له ثم استحالت غربا فأخذها عمر بن الخطاب فلم أر عبقريا من الناس ينزع نزع عمر بن الخطاب حتى ضرب الناس بعطن
رأيتني على قليب عليها دلو فنزعت منها ما شاء الله ثم أخذها ابن أبي قحافة فنزع بها ذنوبا أو ذنوبين وفي نزعه والله يغفر له ضعف ثم استحالت غربا فأخذها ابن الخطاب فلم أر عبقريا من الناس ينزع نزع عمر بن الخطاب حتى ضرب الناس بعطن
أريت أني أنزع على حوضي أسقي الناس فجاءني أبو بكر فأخذ الدلو من يدي ليروحني فنزع دلوين وفي نزعه ضعف والله يغفر له فجاء ابن الخطاب فأخذ منه فلم أر نزع رجل قط أقوى منه حتى تولى الناس والحوض ملآن يتفجر
رأيت أني أنزع على حوض أسقي الناس فأتاني أبو بكر فأخذ الدلو من يدي ليريحني فنزع دلوين وفي نزعه ضعف والله يغفر له قال فأتاني عمر بن الخطاب فأخذها منه فلم ينزع رجل نزعه حتى ولى الناس والحوض ينفجر
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7021
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب حکومت سنبھالی تو انھیں کئی قسم کے فتنوں کا سامنا کرنا پڑا فتنہ مانعین زکاۃ فتنہ ارتداد اور فتنہ ختم نبوت ان میں برسر فہرست تھے۔ آپ ان کی سر کوبی کے لیے سر گرم رہے رفاہی اور سماجی کاموں کے لیے آپ کو وقت نہ مل سکا اور نہ آپ کے دور خلافت میں فتوحات ہی کا سلسلہ جاری ہوا۔ 2۔ حدیث میں جس کمزوری کا ذکر ہے۔ اس سے مراد مدت خلافت کی کمی ہے۔ اس میں آپ کی مذمت یا آپ کو نیچا دکھانا۔ مقصود نہیں بلکہ حقیقت حال کو ظاہر کیا گیا ہے 3۔ "اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ "یہ کلمات بھی عرب کے ہاں رائج اسلوب کے پیش نظر استعمال ہوئے ہیں۔ ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔ اس میں ایک دوسرا خواب بیان ہواہے۔ حضرت سمرہ جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے خواب میں آسمان سے پانی کا ایک ڈول اترتے دیکھا ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور انھوں نے اسے اس کے دونوں کناروں سے پکڑا اور اس سے تھوڑا سا پانی پیا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے اسے اس کے دونوں کناروں سے پکڑا اور پیا اور خوب سیر ہو کر اس سے پانی پیا۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیٹ بھر کر پانی پیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے انھوں نے اس کے دونوں کناروں سے پکڑا تو وہ (ڈول) ہلا اور اس کے کچھ چھینٹےبھی ان پر پڑے۔ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4637 و مسند أحمد: 21/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7021
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6192
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا،"میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خودکوایک کنویں پر دیکھا اس پر ایک ڈول تھا میں نے اس میں جتنا اللہ نے چا ہا پانی نکالا،پھر ابن ابی قحافہ نے اس سے ایک یا دوڈول نکالے،اللہ ان کی مغفرت کرے!ان کے پانی نکا لنے میں کچھ کمزوری تھی،پھر وہ ایک بڑا ڈول بن گیا تو عمر بن خطاب نے اسے پکڑ لیا،چنانچہ میں نے لوگوں میں کو ئی ایسا عبقری (غیر معمولی صلاحیت کا مالک)... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6192]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) قليب: کچا کنواں۔ (2) دلو: ڈول۔ (3) ذنوب: بھرا ہوا ڈول۔ (4) غرب: بڑا ڈول۔ (5) عبقري: کر گزرنے والا، غیر معمولی صلاحیت کا مالک، یکتا و یگانہ۔ (6) عطن: پانی پلانے کے بعد اونٹ بٹھانے کی جگہ۔ فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتدار اور دور حکومت کو ایک کنویں سے تشبیہ دی ہے اور حکمران کو پانی پلانے والے سے جس سے معلوم ہوا، حکمران کا کام لوگوں کے مفادات اور مصالح کا تحفظ اور ان کی ضروریات زندگی فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں، حضرت ابوبکر کی خلافت کی مدت صرف دو سال اور چند ماہ تھی اور اس میں بھی کافی وقت فتنہ ارتداد کی سرکوبی میں لگ گیا، اس طرح ابوبکر نے ہر قسم کی شورشوں کی سازشوں کا قلع قمع کر کے، حضرت عمر کے لیے امن و سکون سے حکومت کرنے کا موقع پیدا کر دیا اور ان کے دور میں فتوحات کے سیل رواں کے لیے بنیاد فراہم کر دی، اس لیے حضرت عمر کے دور میں اسلام کی خوب اشاعت ہوئی اور اسلامی سلطنت بہت وسعت اختیار کر گئی، حضرت ابوبکر کے دور میں شورشوں اور سازشوں کو فرو کرنے پر وقت لگ گیا اور اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع نہ ہو سکا اور مسلمانوں کے معاملات پر حضرت عمر کے دور کی طرح توجہ نہ دی جا سکی، اس کو ضعف سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن اس میں ابوبکر کی کوئی کوتاہی کا دخل نہیں ہے اور والله يغفر له کا مقصد ان کی کوتاہی کی نشاندہی نہیں ہے، بلکہ یہ تو مسلمانوں کا تکیہ کلام تھا، جس کو کلام کا حسن خیال کیا جاتا تھا اور اس میں حضرت عمر کے دور کی وسعت کی طرف اشارہ بھی ہے، کہ اس میں لوگوں کو خوب خوشحالی اور فراوانی میسر آئے گی اور مسلمانوں کے لیے آسائشیں اور سہولتیں پیدا ہوں گی اور آپ کی پیشن گوئی کے مطابق، آپ کے بعد تھوڑے عرصہ کے لیے ابوبکر آپ کے خلیفہ بنے، ان کے بعد ایک طویل عرصہ کے لیے حضرت عمر خلیفہ بنے اور انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بھرپور خدمت کی اور ان کو خوب خوب فائدہ پہنچایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6192
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6195
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:" میں سویا ہوا تھا تو مجھے خواب میں دکھا یا گیا کہ میں اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں،پھر ابو بکر آئے اور انھوں نے مجھے آرام پہنچانے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا،انھوں نے دو ڈول پانی نکا لا،ان کے پانی نکا لنے میں کچھ کمزوری تھی، اللہ ان کی مغفرت کرے!پھر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو انھوں نے ان سے ڈول لے لیا، میں نے کسی شخص کو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6195]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: ليروحني: تاکہ دنیا کے مصائب و مشکلات سے نکل کر میں آخرت کے راحت و سکون کو حاصل کر سکوں، اس میں بھی خواب میں آپ کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دور خلافت کا مشاہدہ کروایا گیا، جو اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ابوبکر اور عمر آپ کے صحیح جانشین تھے اور انہوں نے خلافت پر نعوذ باللہ غاصبانہ قبضہ نہیں جمایا تھا اور انہوں نے خلافت کا حق صحیح طور پر ادا کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6195
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7022
7022. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا، اس دوران میں خواب میں دیکھا کہ میں حوض پر ہوں اور لوگوں کو سیراب کر رہا ہوں پھر میرے پاس ابو بکر ؓ آئے اور مجھے آرام دینے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا، تاہم انہوں نے دو ڈول کھنچنے اور ان کے کھنچنے میں کچھ کمزوری تھی، اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے، پھر عمر بن خطاب آئے اور ان سے ڈول لے لیا اور وہ دیر تک ڈول نکالتے رہے یہاں تک کہ لوگ سیراب ہو کر چلے گئے جبکہ حوض برابر جوش مار رہا تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7022]
حدیث حاشیہ: وہ حضرات بہت ہی قابل تعریف ہیں جو خواب میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام و راحت پہنچائیں وہ ہر دو بزرگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ قیامت تک کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں آرام فرما رہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7022
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3664
3664. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں ایک دفعہ سورہاتھا کہ میں نے خود کوایک ایسے کنویں پر دیکھا جس پر ڈول پڑا تھا۔ میں نے اس سے جس قدر اللہ نے چاہا پانی کے ڈول نکالے، پھر ابن ابی قحافہ نے اسے لے لیا اور انھوں نے کنویں سے ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کے ڈولے کھینچے میں کچھ ضعف اور ناتوانی تھی۔ اللہ تعالیٰ انھیں وہ کمزوری معاف فرمائے۔ پھر وہ ڈول بڑا ہوگیا تو اسے عمر بن خطاب ؓ نے لے لیا۔ میں نے لوگوں میں کوئی ایسا زور آور شخص نہیں پایا جو عمر کی طرح ڈول نکالتا ہو، حتیٰ کہ سب لوگ سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے اونٹ بھی سیراب کرکے بٹھادیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3664]
حدیث حاشیہ: یہ خلافت اسلامی کو سنبھالنے پر اشارہ ہے، جیسا کہ وفات نبوی کے بعد حضرت صدیق اکبر ؓ نے دو اڑھائی سال سنبھالا بعد میں فاروقی دور شروع ہوا اور آپ نے خلافت کا حق ادا کردیا کہ فتوحات اسلامی کا سیلاب دور دور تک پہنچ گیا اور خلافت کے ہرہر شعبہ میں ترقیات کے دروازے کھل گئے۔ آنحضرت ﷺ کو خواب میں یہ سارے حالات دکھلائے گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3664
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7475
7475. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں ایک وقت سو رہا تھا کہ خود کو ایک کنویں پرد یکھا۔ میں نے اس سے، جتنا اللہ نے چاہا، پانی نکالا۔ اس کے بعد ابن قحافہ نے ڈول پکڑ لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے البتہ ان کے ڈول کھنچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ پھر اسے عمر نے لے لیا تو وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں سے کوئی باکمال و بے مثال نہیں دیکھا اس طرح ڈول پر ڈول نکالتا ہو یہاں تک کہ لوگوں نے اس کنویں کے ارد گرد گھاٹ بنالیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7475]
حدیث حاشیہ: رسول کریم ﷺ نےقدم قدم پرلفظ ان شاء اللہ کا استعمال فرما کر مشیت باری تعالیٰ پر ہر کام کو موقوف رکھا۔ ڈول کھینچنے کی تعبیر امور خلافت کو انجام دینے سے ہے۔ عہدصدیقی بھی کامیاب رہا مگر عہد فاروقی میں اسلام کوجو وسعت ہوئی اور امر خلافت مستحکم ہوا اور ظاہر ہے۔ اسی پراشاد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7475
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3664
3664. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میں ایک دفعہ سورہاتھا کہ میں نے خود کوایک ایسے کنویں پر دیکھا جس پر ڈول پڑا تھا۔ میں نے اس سے جس قدر اللہ نے چاہا پانی کے ڈول نکالے، پھر ابن ابی قحافہ نے اسے لے لیا اور انھوں نے کنویں سے ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کے ڈولے کھینچے میں کچھ ضعف اور ناتوانی تھی۔ اللہ تعالیٰ انھیں وہ کمزوری معاف فرمائے۔ پھر وہ ڈول بڑا ہوگیا تو اسے عمر بن خطاب ؓ نے لے لیا۔ میں نے لوگوں میں کوئی ایسا زور آور شخص نہیں پایا جو عمر کی طرح ڈول نکالتا ہو، حتیٰ کہ سب لوگ سیراب ہوگئے اور انھوں نے اپنے اونٹ بھی سیراب کرکے بٹھادیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3664]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کمزوری معاف فرمائے۔ “ اس کمزوری سے حضرت ابو بکر ؓ کے فضائل میں کوئی نقص لازم نہیں آتا کیونکہ ان کی مدت خلافت ہی دوسال تھی۔ دوسالوں میں فتنہ ارتداد نے سر اٹھایا اور مانعین زکاۃ نے الگ پریشان کیا۔ اگر ایسے حالات میں حضرت عمر ؓ جیسے سخت اور طاقت ور بھی ہوتے تو حالات کا مقابلہ نہ کر سکے۔ 2۔ رسول اللہ ﷺ نے عربوں کے تکیہ کلام کے مطابق گفتگو فرمائی۔ ہمارے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ اس میں حضرت ابو بکر ؓ کو جو رسول اللہ ﷺ سے نسبت اتحادی پیدا ہوئی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ انھیں معاف کرے ان کلمات سے انھیں قرب اجل کی خبر دی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کو ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ میں قرب وفات کی خبر دی گئی تھی۔ ان معانی کی وجہ سے امام بخاری ؒ اس روایت کو مناقب ابی بکر ؓ میں لائے ہیں رسول اللہ ﷺ سے نسبت اتحادی بڑی منقبت اور کیا ہو سکتی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3664
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7022
7022. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں سویا ہوا تھا، اس دوران میں خواب میں دیکھا کہ میں حوض پر ہوں اور لوگوں کو سیراب کر رہا ہوں پھر میرے پاس ابو بکر ؓ آئے اور مجھے آرام دینے کے لیے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا، تاہم انہوں نے دو ڈول کھنچنے اور ان کے کھنچنے میں کچھ کمزوری تھی، اللہ تعالیٰ انہیں معاف کرے، پھر عمر بن خطاب آئے اور ان سے ڈول لے لیا اور وہ دیر تک ڈول نکالتے رہے یہاں تک کہ لوگ سیراب ہو کر چلے گئے جبکہ حوض برابر جوش مار رہا تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7022]
حدیث حاشیہ: 1۔ اہل تعبیر کا کہنا ہے کہ اگر انسان خواب میں چت لیٹا ہے تو اس کی تعبیر اس کے معاملات کی مضبوطی ہے۔ نیز دنیا اس کے ہاتھ میں ہو گی کیونکہ سب سے قوی اور مضبوط سہارا زمین پر ٹیک لگانا ہے اور اگر منہ کے بل لیٹ کر آرام کرتا ہے تو معاملہ بر عکس ہوگا کیونکہ اس طرح لپیٹنے والا کچھ نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ (فتح الباري: 518/12) 2۔ بہرحال یہ حضرات قابل تعریف ہیں۔ جو خواب میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام پہنچانے کی فکر میں ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں بزرگ کتنے خوش نصیب ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آرام دینے کے صلے میں خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں قیامت تک محو استرحت ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7022
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7475
7475. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں ایک وقت سو رہا تھا کہ خود کو ایک کنویں پرد یکھا۔ میں نے اس سے، جتنا اللہ نے چاہا، پانی نکالا۔ اس کے بعد ابن قحافہ نے ڈول پکڑ لیا اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے البتہ ان کے ڈول کھنچنے میں کمزوری تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں معاف فرمائے۔ پھر اسے عمر نے لے لیا تو وہ ان کے ہاتھ میں ایک بڑا ڈول بن گیا۔ میں نے لوگوں میں سے کوئی باکمال و بے مثال نہیں دیکھا اس طرح ڈول پر ڈول نکالتا ہو یہاں تک کہ لوگوں نے اس کنویں کے ارد گرد گھاٹ بنالیے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7475]
حدیث حاشیہ: 1۔ ابن ابی قحافہ سے مراد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ انھوں نے دو ڈول نکالے۔ ڈول نکالنے کی تعبیر امور خلافت انجام دینے سے ہے۔ حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب کمزوری سے مراد مال غنیمت کی کمی ہے کیونکہ ان کے دور میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے۔ آپ انھیں دین اسلام کی طرف واپس لانے کے لیے ان کی سرکوبی میں لگے رہے۔ یہ عمل فتوحات اور ان کے نتیجے میں مال غنیمت سے کہیں بڑھ کر درجہ رکھتا ہے۔ چونکہ ارتداد کا عمل ان کے دور حکومت میں ہوا تھا، اس لے مذکورہ کمزوری کو ان کی طرف منسوب کیا گیا، پھر اسے معاف کر دیا گیا کیونکہ سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں اسلام کی طرف واپس لانے میں پوری توانائیاں صرف کر دیں۔ 2۔ ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر طاقت اور مہارت سے ڈول کھینچے یہ بھی ان کے کامیاب دورحکومت کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پانی کھینچا اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے منسلک کیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے کوئی چیز بھی باہر نہیں۔ انسان کی اپنی چاہت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے۔ “(الدھر 30) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی اپنی چاہت ہی سب کچھ نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کی چاہت شامل حال نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی چاہت اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد اس کی حکمت اور وسیع علم ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7475