الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ
کتاب: باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان
9. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ:
9. باب: تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان۔
حدیث نمبر: 6937
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالُوا: أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا، ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏» کہ اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ/حدیث: 6937]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قلنا أينا لا يظلم نفسه قال ليس كما تقولون ولم يلبسوا إيمانهم بظلم بشرك أولم تسمعوا إلى قول لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاريلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمعون إلى قول لقمان إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاريلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لم يلبس إيمانه بظلم قال رسول الله إنه ليس بذاك ألا تسمع إلى قول لقمان لابنه إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاريلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم قال أصحاب النبي أينا لم يلبس إيمانه بظلم فنزلت لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاريلما نزلت هذه الآية الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب النبي وقالوا أينا لم يظلم نفسه قال رسول الله ليس كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح البخاريلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا أينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه وهو يعظه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   صحيح مسلملما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على أصحاب رسول الله وقالوا أينا لا يظلم نفسه قال رسول الله ليس هو كما تظنون إنما هو كما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم
   جامع الترمذيلما نزلت الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم شق ذلك على المسلمين قالوا وأينا لا يظلم نفسه قال ليس ذلك إنما هو الشرك ألم تسمعوا ما قال لقمان لابنه يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6937 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6937  
حدیث حاشیہ:
باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر مواخذہ نہیں کیا جنہوں نے مالک کو منافق کہا تھا اس لیے کہ وہ تاویل کرنے والے تھے یعنی مالک کے حالات کو دیکھ کر اسے منافق سمجھتے تھے تو ان کا گمان غلط ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6937   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6937  
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6937 کا باب: «بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَأَوِّلِينَ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب اور حدیث میں کس طرح مناسبت قائم ہو گی؟ کیوں کہ حدیث میں بظاہر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آتی، جو باب کے بیان کردہ مفہوم کے مطابق ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و وجه دخول فى الترجمة من جهة أنه صلى الله عليه وسلم لم يؤاخذ الصحابة بحملهم الظلم فى الآية على عمومة حتي يتناول كل معصية قولهم سار يسور إذا ارتفع ذكره . . . . . .» [فتح الباري لابن حجر: 261/13]
ترجمۃ الباب میں اس حدیث کی مناسبت اس جہت سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت مبارکہ میں مذکور ظلم کو اس کے عموم پر محمول کرنے کی وجہ سے کہ ہر معصیت متناول ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مواخذہ نہ فرمایا، بلکہ انہیں معذور جانا، کیوں کہ ظاہر میں یہی تاویل تھی، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے اس مراد کی وضاحت فرمائی جس سے اشکال دور ہو گیا۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے لفظ ظلم کی تاویل فرمائی جو کہ عمومیت پر قائم تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس تاویل و عذر کو قبول فرما لیا اور ان پر کسی قسم کا مواخذہ یا نکیر نہیں فرمائی۔ اب گفتگو کا خلاصہ اور باب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کی تاویل شرک کے ساتھ فرمائی جبکہ ظلم کا عمومی اور ظاہری معنی تو گناہ کے ہیں جس میں ہر شخص داخل ہے اور تاویل (جیسا کے باب میں مذکور ہے) خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی، لہٰذا اسی کی تاویل یقینی طور پر قبول ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مطابقت باب سے حدیث کی اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کوئی مواخذہ نہیں فرمایا جب انہوں نے ظلم کی تاویل مطلق گناہ سے کی بلکہ اس کی جگہ انہیں دوسرا صحیح معنی بتایا۔ پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 260   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6937  
حدیث حاشیہ:
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آیت کریمہ میں ذکر کردہ ظلم کو عموم پر محمول کیا، اس لیے وہ پریشان ہوئے کہ ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جس سے اس طرح کی کمی بیشی نہ ہوتی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں فرمایا کیونکہ ان کی یہ تاویل ظاہر اور لغت عرب کے اعتبار سے واضح تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ آیت کریمہ میں ظلم سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے متعلق کمی بیشی کرنا ہے، پھر اس مفہوم کی تائید کے لیے قرآن مجید کی آیت کریمہ تلاوت فرمائی جس میں لفظ ظلم اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔
(فتح الباري: 380/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6937   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3067  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم» جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی (الأنعام ۸۲)، نازل ہوئی تو مسلمانوں پر یہ بات گراں گزری، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں کون ایسا ہے جس سے اپنی ذات کے حق میں ظلم و زیادتی نہ ہوئی ہے۔ آپ نے فرمایا: (تم غلط سمجھے) ایسی بات نہیں ہے، اس ظلم سے مراد صرف شرک ہے، کیا تم لوگوں نے سنا نہیں کہ لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کیا نصیحت کی تھی؟ انہوں نے کہا تھا: «يا بني لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم» اے میرے بیٹ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3067]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی۔
(الأنعام: 82)

2؎:
اے میرے بیٹے! شرک نہ کر۔
شرک بہت بڑا گناہ ہے (لقمان: 13)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3067   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3360  
3360. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، کہ جب درج ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن و سلامتی ہے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کون سا شخص ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا نہیں جیسا تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کیاہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے لخت جگر! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3360]
حدیث حاشیہ:
کرمانی نے کہا کہ آیت مذکورہ میں بعد ہی حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر آیا ہے۔
یہی باب سے مناسبت ہے۔
بعض نے کہا کہ آیت ﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا﴾ (الأنعام: 82)
حضرت ابراہیم ہی کا مقولہ ہے اور حاکم نے حضرت على ؓ سے نکالا کہ یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے ساتھ والوں کے حق میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3360   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3428  
3428. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔۔۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیاہوتو یہ آیت نازل ہوئی: اللہ کے ساتھ شرک نہ کر کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3428]
حدیث حاشیہ:
یہ روایت اوپر گزرچکی ہے۔
اس روایت میں گوحضرت لقمان ؑ کا ذکر ہےمگر چونکہ اس کےبعد والی روایت میں ہے اور یہ آیت حضرت لقمان ہی کا قول ہے، لہذا باب سے مناسبت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3428   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6918  
6918. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے کو ظلم سے ملوث نہ کیا۔ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دراصل یہ بات نہیں، کیا تم نے حضرت لقمان کی بات نہیں سنی، انہوں نے کہا تھا: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6918]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شرک صرف یہی نہیں ہے کہ آدمی بے ایمان ہو، خدا کا منکر ہو یا دو خداؤں کا قائل ہو بلکہ کبھی ایمان کے ساتھ بھی آدمی شرک میں آلودہ ہو جاتا ہے جیسے دوسری آیت میں ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ﴾ (یوسف: 106)
قاضی عیاض نے کہا ایمان کا شرک سے آلودہ کرنا یہ ہے کہ اللہ کا قائل ہو (اس کی توحید مانتا ہو)
مگر عبادت میں اوروں کو بھی شریک کرے۔
مترجم کہتا ہے جیسے ہمارے زمانہ کے گور (قبر)
پرستوں اور پیر پرستوں کا حال ہے اللہ کو مانتے ہیں پھر اللہ کے ساتھ اوروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کی نذر و نیاز منت مانتے ہیں، ان کے نام پر جانور کاٹتے ہیں، دکھ، بیماری میں ان کو پکارتے ہیں، ان کو مشکل کشا اور حاجت روا سمجھتے ہیں، ان کی قبروں پر جا کر سجدہ اور طواف کرتے ہیں، ان سے وسعت رزق یا اولاد یا شفاء طلب کرتے ہیں۔
یہ سب لوگ فی الحقیقت مشرک ہیں۔
گو نام کے مسلمان کہلائیں تو کیا ہوتا ہے۔
ایسا ظاہری برائے نام اسلام آخرت میں کچھ کام نہیں آئے گا۔
عرب کے مشرک بھی اللہ کو مانتے تھے۔
خالق آسمان و زمین اسی کو جانتے تھے مگر غیرخدا کی عبادت اور تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو مشرک قرار دیا۔
اگر تم قرآن شریف کا ترجمہ خوب سمجھ کر پڑھو تو شرک کا مطلب اچھی طرح سمجھ لوگے مگر افسوس تو یہ ہے کہ تم ساری عمر میں ایک بار بھی قرآن اول سے لے کرآخر تک سمجھ کر نہیں پڑھتے، صرف اس کے الفاظ رٹ لیتے ہیں اس سے کام نہیں چلتا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6918   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3360  
3360. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے، کہ جب درج ذیل آیت کریمہ نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن و سلامتی ہے۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کون سا شخص ہے جس نے اپنے آپ پر ظلم نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ایسا نہیں جیسا تم نے سمجھ لیا ہے۔ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ انھوں نے اپنے ایمان کو شرک سے آلودہ نہ کیاہو۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا تھا: اے لخت جگر! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ کیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3360]
حدیث حاشیہ:
اس آیت سے پہلے سورہ انعام کی آیت: 74 سے حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔
جب آپ نے ستاروں، چاند اور سورج کی بے بسی بیان کردی کہ یہ سب چیزیں غروب وطلوع ہوتی ہیں، لہذا عبادت کے لائق نہیں، پھر فرمایا:
اور جنھیں تم اللہ کے شریک بناتے ہوئے اللہ سے نہیں ڈرتے، میں ان سے کیسے ڈروں جس کے لیے اللہ نے کوئی دلیل بھی نال نہیں کی؟ پھر ہم دونوں فریقوں میں سے امن کاحق دار کون ہے۔
اگرتم جانتے ہوتو جواب دو؟"(الانعام 6/81)
اس کے بعد فرمایا:
"جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا تو ان کے لیے امن وسلامتی ہے۔
"(الأنعام: 82/6)
ان آیات کے بعداللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یہی وہ ہماری دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی قوم کے خلاف دی تھی۔
(الأنعام: 83/6)
مستدرک حاکم میں حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے حدیث میں ذکر کردہ آیت کو پڑھا اس کے بعد فرمایا:
یہ آیت حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے صحابہ کرام ؓ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔
(المستدرك للحاکم 316/2)
اس تفصیل سے پتہ چلا کہ مذکورہ حدیث عنوان سے غیر متعلق نہیں جیساکہ بعض شارحین نے تاثر دیاہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3360   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3429  
3429. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: جولوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔۔۔ تو مسلمانوں(صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین) پر بہت شاق گزری اور عرض کرنے لگے: اللہ کے رسول ﷺ! ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیاہو؟ آپ نے فرمایا: اس سے مراد عام ظلم نہیں بلکہ شرک مراد ہے۔ کیا تم نے حضرت لقمان کا قول نہیں سناجو انھوں نے اپنے لخت جگر کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: اے پیارے بیٹے! شرک نہ کرنا کیونکہ شرک ظلم عظیم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3429]
حدیث حاشیہ:

حضرت لقمان ؑ عرب کے ایک دانا اسر صاحب بصیرت انسان تھے۔
شعرائے عرب کے کلام میں ان کا ذکر ملتاہے۔
بعض روایات سے پتہ چلتاہے کہ انھوں نے حضرت داؤد ؑ کا زمانہ پایا اور ان سے فیض بھی حاصل کیا۔

اس کے متعلق علمائے امت میں اختلاف ہے کہ آیا وہ نبی تھے یا عام صاحب بصیرت انسان۔
جمہور کا کہنا ہے کہ وہ ایک دانا حکیم تھے، نبی نہیں تھے۔
امام بخاری ؒ کے اختیار کردہ اسلوب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمہور کے فیصلے سے اختلاف کررہے ہیں اور وہ انھیں حضرات انبیائے کرام ؑ میں شمار کرتے ہیں کیونکہ ایمان کی دعوت اور شرک سے ممانعت صرف نبی ہی کرسکتاہے۔
لیکن یہ کوئی نبوت کی اتنی مضبوط دلیل نہیں ہے۔
ایمان کی دعوت اور شرک سے ممانعت، ایک نبی کاامتی بھی یہ فریضہ ادا کرسکتاہے۔

بہرحال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے لفظ "ظلم" کو عام معنوں میں لیاجو شرک اور غیر شرک سب کو شامل ہے لیکن آیت کریمہ سے ظلم کوشرک کے ساتھ خاص کردیاگیا اور بطور دلیل ایک آیت کو بھی پیش کیاگیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3429   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4776  
4776. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا۔ اس آیت سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بہت گھبرائے اور عرض کرنے لگے: ہم میں سے کون ایسا ہو گا جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہیں کیا ہو گا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آیت میں ظلم سے مراد وہ نہیں جو تم نے سمجھا ہے۔ کیا تم حضرت لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی کہ بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4776]
حدیث حاشیہ:
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ خالص اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اگر وہ اس حق کو ادا نہیں کریں گے تو وہ ظلم کے مرتکب ہوں گے۔
یہ ایک ایسا جرم ہے جو ناقابل معافی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
تجھے معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے؟ اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی:
اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اسی کو عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو بندہ شرک نہ کرتا ہو اللہ اسے عذاب نہ دے۔
(صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2856)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4776   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6918  
6918. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: جو لوگ ایمان لائے اور اپنے کو ظلم سے ملوث نہ کیا۔ تو یہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام پر بہت گراں گزری، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان کو ظلم سے آلودہ نہ کیا ہو؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دراصل یہ بات نہیں، کیا تم نے حضرت لقمان کی بات نہیں سنی، انہوں نے کہا تھا: یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6918]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شرک صرف یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کا منکر ہو یا متعدد الہٰوں کا قائل ہو بلکہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ کے اقرار کے ساتھ بھی آدمی شرک سے آلودہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان بھی لاتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں۔
(یوسف12: 106) (2)
مشرکین مکہ میں یہ اقرار موجود تھا جیسا کہ حج کے موقع پر ان کے تلبیے سےمعلوم ہوتا ہے، وہ یوں کہتے تھے:
اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے اور وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2815(1185)
آج بھی یہ بات بڑی شدت سے پائی جاتی ہے کہ لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدومد سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ تعالیٰ نے ہی عطا کیے ہیں، اسی قسم کے عقیدے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اس سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب یاعلمی روایت میرےپاس لاؤ،اگرتم سچے ہو۔
(الأحقاف46: 4)
یعنی کیا تم کسی الہامی کتاب یا علمی روایت میں یہ بات دکھا سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو دے رکھے ہیں؟ (3)
دور حاضر میں قبر پرستوں اور پیر پرستوں کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی عبادت کرتے ہیں، ان کے لیے نذرونیاز اور منت مانتے ہیں، بیماری اور مصیبت میں ان کو پکارتے ہیں، انھیں برملا حاجت روا اور مشکل کشا کہا جاتا ہے۔
ان کی قبروں کا طواف ہوتا ہے، یہ سب شرک ہے اگرچہ اپنے ایمان کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
اس قسم کا ظاہری ایمان قیامت کے دن کچھ کام نہیں آئے گا۔
مشرکین مکہ بھی اللہ تعالیٰ کا اقرار کرتے تھے، زمین و آسمان کا خالق ومالک اسی کو سمجھتے تھے مگر غیر اللہ کی عبادت اور ان کی انتہائی تعظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرک قرار دیا ہے۔
(4)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان اگرچہ عربی تھی لیکن بعض اوقات انھیں آیت کا مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آ جاتی تھی، افسوس کہ آج مسلمانوں میں بھی ایک ایسا گروہ موجود ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے بے نیاز ہو کر محض لغت کے سہارے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو کسی آیت کے مفہوم میں دشواری پیش آ سکتی ہے تو ہم عجمی لوگ لغت کے سہارے قرآن کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔
دراصل یہ منصب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں اور اپنے عمل وکردار اور گفتار سے اس کی تعظیم کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے متعلق سمجھ عطا فرمائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6918