اور ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے خبر دی، ان دونوں نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ہشام بن حکیم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا جب غور سے سنا تو وہ بہت سی ایسی قراتوں کے ساتھ پڑھ رہے تھے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں، میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے انتظار کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو ان کی چادر سے یا (انہوں نے یہ کہا کہ) اپنی چادر سے میں نے ان کی گردن میں پھندا ڈال دیا اور ان سے پوچھا کہ اس طرح تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جھوٹ بولتے ہو، واللہ یہ سورت مجھے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے جو میں نے تمہیں ابھی پڑھتے سنا ہے۔ چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اسے سورۃ الفرقان اور طرح پر پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی سورۃ الفرقان پڑھائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! انہیں چھوڑ دو۔ ہشام سورت پڑھو۔ انہوں نے اسی طرح پڑھ کر سنایا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! اب تم پڑھو۔ میں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر فرمایا یہ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسانی ہو پڑھو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ/حدیث: 6936]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6936
حدیث حاشیہ: باب کی مطابقت اس طرح پر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہشام کے گلے میں جو چادر ڈالی ان کو کھینچتے ہوئے لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی مواخذہ نہیں کیا کیوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے نزدیک یہ سمجھے کہ وہ ایک ناجائز قراءت کرنے والے ہیں گویا تاویل کرنے والے ٹھہرے۔ المجتهد قد یخطئ و یصیب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6936
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6936
حدیث حاشیہ: اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی معقول وجہ یا تاویل ہے تو اس کی غلطی واضح کی جائے، اس کے علاوہ اس کی مذمت وغیرہ نہ کی جائے۔ اگر کوئی شخس کسی معقول وجہ یا تاویل کے بغیر غلط کام کرتا ہے تو وہ قابل مذمت ہے، اس لیے اس کی مذمت بھی کی جائے اور اس کی غلطی کی وضاحت بھی کی جائے جیسا کہ حدیث بالا میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہشام رضی اللہ عنہ کے گلے میں چادر کا پھندا ڈالا، اسے جھوٹا کہا اور اسے اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کچھ نہ کہا، صرف اتنا کہا کہ قرآن کی قراءتوں میں وسعت ہے جو آسان لگے اسے پڑھ لیا جائے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک معقول وجہ تھی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کو قرآن غلط پڑھتے ہوئے سنا، اس پر انھوں نے انکار کیا اور انھیں جھوٹ کی طرف منسوب بھی کیا۔ ایسے حالات میں ہمارا بھی یہی فرض ہے کہ اگر ہم کسی کو غلط کام کرتا دیکھیں تو اسے ڈانٹنے کے بجائے پہلے ہم اس غلطی کی وضاحت کریں جس پر وہ گامزن ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6936